دنیا میری ہتھیلی پر۔۔تبصرہ/پروفیسر سخاوت حسین

پہلے تو پوری نہیں آئی دنیا مری ہتھیلی پر
آہستہ آہستہ سمٹی دنیا مری ہتھیلی پر

خانوں اور لکیروں میں تقسیم ہوئی چاروں جانب
سب نے دیکھی رنگ بدلتی دنیا مری ہتھیلی پر

اردو شاعری کا بیشتر سرمایہ غزل پر مشتمل ہے اور تقریباً تمام شعراء نے غزلیں کہی  ہیں، لیکن میں بات کروں گا عہد ِ حاضر کے معروف شاعر ظہور چوہان کی جو بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں۔ ظہور چوہان کے پہلے بھی چار شعری مجموعے شائع ہو کر شہرت ِ دوام حاصل کر چکے ہیں۔
” دنیا مری ہتھیلی پر” ان کا پانچواں شعری مجموعہ ہے۔

اس سے قبل
1۔ “ہجر اک مسافت ہے” (2001)
2۔”پس غبار اک ستارہ” (2008)
3۔ “گونجی صدا حویلی میں” (2015)
4۔ “روشنی دونوں طرف” (2018)

ظہور چوہان کی غزل میں جدت ِ استعارہ، الفاظ کا نیا پن، مضامین کا تسلسل، سادگی، بے تکلفی اور اصلیت موجود ہے۔ اور یہ ساری خصوصیات ظہور چوہان کی غزل میں بیک وقت موجود ہیں۔

٭اجنبی رستوں سے داخل ہو گئے باہر کے لوگ
جنگ اب کیسے لڑیں گے شہر کے اندر کے لوگ

٭اے خدا ! ہم کلام ہو مجھ سے

میں بھی تیری طرح اکیلا ہوں

٭تذکرہ کیسے کروں چاک گریبانی کا

اک زمانہ تھا محبت میں پریشانی کا

ظہور چوہان کی اس سیمابی طبیعت کے نتیجے میں جو عشق وجود میں آئے گا وہ شعلہ مستعجل ہی ہو گا۔

٭ہجر سے وصل کی اتنی تھی مسافت یارو!
رنگ تبدیل ہوا بہتے ہوئے پانی کا

ملنا جتنا خوشگوار تجربہ ہوتا ہے، بچھڑنا اتنا ہی اذیت ناک۔ عشق میں جدائی سے زیادہ کڑا مرحلہ ترک ِ تعلق کا ہوتا ہے۔اس جدائی کے کرب کو ظہور چوہان نے اپنے کلام میں خوب صورت انداز میں یوں بیان کیا ہے۔

٭زندگی ! کتنے سلیقے سے گزارا ہے تجھے
مسکراتے بھی رہے، زخم بھی کھاتے رہے ہم

ظہور چوہان کی شاعری بنیادی انسانی جذبوں کی شاعری ہے۔دکھوں سکھوں، محرومیوں، مظلومیتوں، شکستوں اور فتوحات  کی شاعری ہے۔

٭دل روتا نہیں یونہی ہمارا
گم ہو گیا ہے کوئی ہمارا

٭اُس پری پیکر کی آنکھوں میں جھلک رہ جائے گی
وہ چلی جائے گی تو خالی سٹرک رہ جائے گی

٭زندگی جس کے لئے کار ِ مشقت ہو ظہؔور
اُس کو آرام مسافر کی طرح ہوتا ہے

ظہور چوہان کی شاعری میں یہ رس، رچاؤ ، جذبے اور کیفیتیں اپنی انتہا پر نظر آتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ظہؔور الفاظ وبیان کے شاعر نہیں۔ بلکہ ان کی شاعری میں موجود احساسات کی شدت، جذبات کی حرارت، کیفیات کا تلاطم اور ان سب کے رچاؤ سے پیدا شدہ کیف ومستی، ان کی شاعری کو سبک روی عطا کرتی ہے۔

٭لذت ِ عشق بتانے کی اجازت نہیں ہے
اپنی روداد سنانے کی اجازت نہیں ہے

٭اِنہی جُھکے ہوئے پیڑوں سے گفتگو ہے مری
جناب! میرے بزرگوں سے گفتگو ہے مری

٭جب مجھے حُسن کی تاثیر بتانی پڑے گی
سب سے پہلے تری تصویر دکھانی پڑے گی

٭گھر میں تنہائی ہے، کمرے میں کتابیں اور میں
یہ نتیجہ تو نکلنا ہی تھا من مانی کا

اردو ادب میں ہجرت کا موضوع ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ہجرت خواہ عارضی ہو یا مستقل یہ ایک محسوس ہونے والا عمل ہے۔ اپنے آبائی گاؤں اور شہر سے ہر فرد کو محبت ہوتی ہے۔ہجرت صرف اپنے مولد سے بچھڑنے کا نام ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک تہذیب و تمدن کو کھو دینے کا المیہ بھی ہے۔ ظہور چوہان چونکہ ملتان میں پیدا ہوئے۔یہاں سے ہجرت کر کے بہاول پور جا بسے۔اس ہجرت کے کرب کو وہ محسوس کرتے ہیں ۔اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں ۔

٭نسل وہ باقی کہاں بچی ہے ہجرت کرنے والوں کی
اب تو قطاریں لگی ہوئی ہیں جیسے مرنے والوں کی

ظہور چوہان ملتان میں پیدا ہوئے۔ اور اپنا لڑکپن ملتان کی گلیوں میں گزارا۔وہ اپنی شاعری میں خود کو بہاول پوری کہلانے کی بجائے ملتانی کہلانا پسند کرتے ہیں،اور ملتانی ہونے پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔جس کا اظہار وہ کچھ یوں کرتے ہیں۔

٭میرا سب سے رنگ جدا ہے، میں صوفی ملتانی ہوں
مجھ میں کوئی شمس نما ہے، میں صوفی ملتانی ہوں

میری روح مدینے میں ہے، دل لیکن ملتان میں ہے
جسم بہاول پور پڑا ہے، میں صوفی ملتانی ہوں

Advertisements
julia rana solicitors

میں ، ظہور چوہان کے شعری مجموعے ” دنیا مری ہتھیلی پر” کا تہہ ِ دل سے خیر مقدم کرتا ہوں ۔اور ظہور چوہان کا ہدیۂ تشکر کہ اُنہوں نے پہلے کی طرح اب بھی یاد رکھا اور اپنی نئی تخلیق سے نوازا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply