عورت اور تاریخ کا رویّہ۔۔حمزہ جلال

تاریخ کے متعلق فلسفے  کی تشریح مختلف لوگوں نے مختلف پہلوؤں  سے کی ہے۔ ایک طرف ہیگل نے اگر اس کو “Idea” سے منسوب کرکے عقلی اور شعوری ارتقاء کا نام دیا ہے تو دوسری طرف اسی ہیگلین جدلیات کو مارکس نے استعمال کرتے ہوۓ تاریخ کو معاش کی بنیاد پر انسانوں کے مابین جنگوں اور کشمکش کا نام دیا ہے۔ ان میں کون زیادہ حقیقت پسندانہ ہے, یہ ایک الگ موضوع ہے۔ لیکن تاریخ کے سانچے  کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان دونوں دعوؤں  میں کوئی بھی مکمل طور پر “حقیقی تاریخی سفر ” کو بیان نہیں کرتا۔ یہ دونوں “آدھا سچ” partial realities ہیں ۔ اگر “تاریخی فلسفہ” کے بارے میں یہ دعویٰ  قائم کیا جاۓ کہ History is nothing but atrocities against women ” تو غلط نہ ہوگا۔

تاریخ عورت کیخلاف ایسے لرزہ خیز واقعات کا مجموعہ ہے۔ مذہب اور مذہبی لوگوں، دونوں نے ہر مقام پر عورت کا استحصال کیا ہے۔ اگر کوئی مذہب یہ دعویٰ  قائم کرتا ہے کہ وہ عورت کو مرد کی طرح ہی انسان سمجھتا ہے تو اسے ہیگل کے اس قول کہ ” حقیقی عقلی ہے اور عقلی حقیقی ” Ideal is real and real is ideal پر عمل کرکے اپنی اپنی مذہبی تاریخ کو تنقیدی جائزے کیلئے  کھلا چھوڑنا ہوگا۔

تاریخ میں گزری اولین خاتون فلسفی ہیپیشیہ ( Hypatia) کی موت ایسے ہی دلخراش واقعات میں سے  ایک ہے۔ Edward Gibbon نے The decline and fall of Roman Empire میں اور برٹرینڈ رسل نے History of western philosophy میں hypatia کی موت کے واقعہ کو بیان کیا ہے۔ سنتے ہی انسان پر غشی طاری ہوجاتی ہے۔ پانچویں صدی میں رومن ایمپائر میں عیسائی پادریوں کے درمیان “تجسم” یعنی “Incarnation ” اور “عیسٰی کی انسانی اور ربانی رشتے ” ان دونوں مسائل پر اختلاف پیدا ہوا اور اس اختلاف میں ایک طرف اسکندریہ کے پادری سینٹ سرل ” S۔ T cyril اور دوسری طرف قسطنطنیہ میں موجود پادری “نسطوریس ” Nestorius” تھا۔
سینٹ سرل ایک متعصب پادری ہونے کیساتھ ساتھ ایک وحشی درندہ تھا۔ اس کی شہرت کے پیچھے کا واقعہ Hypatia کو مارنا تھا۔ اور  وجہ یہ بتائی کہ ہائیپیشیہ Hypatia دونوں پادریوں میں اتحاد کی راہ میں رکاوٹ تھی۔ موت کا واقعہ انتہائی دلخراش ہے۔ گبن نے آٹھویں جلد میں لکھا ہے کہ,
On a fatal day, in the holy season of Lent, Hypatia was torn from her chariot, stripped naked, dragged to the church, and inhumanly butchered by the hands of Peter the reader, and a troop of savage and merciless fanatics: her flesh was scraped from her bones with sharp cyster shells, and her quivering limbs were delivered to the flames۔
( Decline and fall of Roman Empire, Edward Gibbon)
( History of western philosophy, Bertrand Russell)
عورت کو بےآبرو کرنے میں سب سے زیادہ کردار عیسائیت کا ہے۔ انجیل ایسی  متعصب روایات سے بھرا پڑ ا ہے۔ برٹرینڈ رسل نے ایک جگہ لکھا ہے کہ, 1847 میں برطانیہ میں عورتوں سے متعلق بچے کی پیدائش کے دوران ہونے والے  درد سے نجات کا مسئلہ درپیش تھا۔ سمپسن نے درد کو کم کرنے والی دوائی کے استعمال کا مشورہ دیا۔ کلیسا میدان میں آگئی اور بائبل کی کتاب “پیدائش” سے یہ آیت پیش کی کہ “تم ہمیشہ تکلیف سے بچے پیدا کرو گی۔” یعنی انسانی اخلاقیات کو خدائی احکام کے تابع کر دیا گیا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کلیسا کہنے لگی کہ مردوں کو دوران تکلیف درد کو ختم کرنے والی دوائی دی جا سکتی ہے۔ کیونکہ خدا جب آدم کی پسلی سے حوا کو بنا رہا تھا تو اس وقت خدا نے آدم کو بے ہوش کر رکھا تھا۔ اس لیے درد سے صرف مرد کو بچایا جا سکتا ہے، کیونکہ یہی خدا کی سنت ہے۔ رسل لکھتا ہے کہ ہر غیر انسانی، ظالمانہ اور متشدد فعل کے پیچھے کوئی نہ کوئی مذہبی تاویل ہوتی تھی جس سے متعلق احکامات بائبل میں موجود ہوتے تھے۔
بحوالہ برٹرینڈرسل

ہمارے ہاں عورت کے متعلق کافی ساری قیاس آرائیاں انجیلِ بربناس کے ترجمے کے بعد ہی شروع ہوئی ہے۔ جس کا ترجمہ مولانا مودودی نے کیا ہے۔ نبی ﷺ  کی پیدائش سے بھی 75 سال پہلے پوپ گلاسیس اوّل (Gelasius) کے زمانے میں بدعقیدہ اور گمراہ کن (Heretical) کتابوں کی جو فہرست مرتب کی گئی تھی، اور ایک پاپائی فتوے کے ذریعے سے جن کا پڑھنا ممنوع کردیا گیا تھا، ان میں انجیل برناباس (Evangelium Barrnabe) بھی شامل تھی۔ “عورت آدم کی پسلی” سے بنی ہوئی ہے, اس کے  متعلق قرآن میں کچھ نہیں۔ البتہ بخاری شریف اور مسلم الصحیح میں حدیثیں موجود ہیں ۔

عن أبی هريرة عن النبی صلی الله عليه وآله وسلم قال من کان يؤمن بالله واليوم الاخر فلا يؤذی جاره واستوصوا بالنساء خيرا فانهن خلقن من ضلع وان أعوج شئ فی الضلع أعلاه فان ذهبت تقيمه کسرته وان ترکته لم يزل أعوج فاستوصوا بالنساء خيرا۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں جو شخص اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ پہنچائے اور خواتین کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔ انہیں پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ سب سے اوپر والا حصہ ہوتا ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو تم اسے توڑ دو گے اور اگر اس کے حال پر رہنے دو گے تو وہ ٹیڑھی رہے گی خواتین کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔”

لیکن شیخ عیاشی نے اپنی تفسیر, تفسیرِ عیاشی بخاری شریف کی روایت کے رد میں لکھا ہے کہ,
عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي الْمِقْدَامِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ (عَلَيْهِ السَّلاَمُ): مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَ اللَّهُ تَعَالَى حَوَّاءَ؟ فَقَالَ: «أَيَّ شَيْءٍ يَقُولُ هَذَا الْخَلْقُ»؟ قُلْتُ: يَقُولُونَ: إِنَّ اللَّهَ خَلَقَهَا مِنْ ضِلْعٍ مِنْ أَضْلاَعِ آدَمَ، فَقَالَ: «كَذَبُوا، أَكَانَ اللَّهُ يُعْجِزُهُ أَنْ يَخْلُقَهَا مِنْ غَيْرِ ضِلْعِهِ»؟ فَقُلْتُ: جُعِلْتُ فِدَاكَ- يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ- مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهَا؟ فَقَالَ: «أَخْبَرَنِي أَبِي،عَنْ آبَائِهِ،قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ): إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَبَضَ قَبْضَةً مِنْ طِينٍ فَخَلَطَهَا بِيَمِينِهِ- وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ- فَخَلَقَ مِنْهَا آدَمَ، وَفَضَلَتْ فَضْلَةٌ مِنَ الطِّينِ فَخَلَقَ مِنْهَا حَوَّاءَ
ترجمہ : عمرو بن ابی المقدام سے، جس نے اپنے والد (ثابت بن ہرمز ابو المقدام) سے روایت کی جس نے کہا کہ میں نے امام الباقر علیہ السلام سے سوال کیا کہ الله ﷻ نے حواء علیہا السلام کو کس چیز سے خلق کیا تھا؟ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ لوگ کیا کہتے ہیں اسکے متعلق؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ الله ﷻ نے حواء علیہا السلام کو آدم علیہ السلام کی پسلی میں سے ایک پسلی سے بنایا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ انہوں نے جھوٹ بولا! کیا الله ﷻ اس پر قادر نہ تھا کہ انکو بغیر پسلی کے بناتا؟ میں نے عرض کیا، میں آپ پر قربان جاؤں یا بن رسول الله ﷺ، الله ﷻ نے انکو کس چیز سے خلق کیا تھا؟ اما م علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی اپنے  آبا ؤ اجداد سے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ الله تبارک و تعالی نے کچھ مٹی کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنے دائیں ہاتھ سے اسکو مخلوط کیا، اور اسکے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں، پھر اس سے آدم علیہ السلام کو بنایا، پھر جو مٹی باقی رہ  گئی اس سے حواء علیہا السلام کو بنایا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ داستان انجیل بربناس سے ہوکر اسلام میں داخل ہوگئی ۔ اس بات  کا اعتراف خود مولانا مودودی نے تفہیم القرآن, جلد اوّل سورۃ  النساء آیت نمبر ایک کی تفسیر بیان کرتے ہوۓ کیا ہے کہ کتاب اللہ اس موضوع کے متعلق خاموش ہے اور یہ روایت بائبل کی ہے۔ اس کے بعد جاکر اس چیز نے مذہبی لٹریچر میں عورت کے متعلق کئی ایک فرضی داستانوں کو جنم دیا۔ مختلف علما  نے اس سے یہ استنباط کیا ہے کہ عورت کی فطرت میں ٹیڑھا پن ہے یہ ٹوٹ سکتی ہے لیکن سیدھی نہیں ہوسکتی۔
—————
ایک عورت نے تاریخ میں کیا کِیا ہے اور  کِن کِن  تکالیف سے گزری ہے ،اس حوالے سے  Maxim Gorky کی خودنوشت “The mother ” اور محمد چکری کی خودنوشت “For bread alone ” ماسٹر پیسز ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply