سوچھ بھارت اَبھیان اوردلت سماج۔۔ابھے کمار

دواکتوبر کے روز آپ نےاخباروں میں سوچھ بھارت ابھیان کی کامیابی سے متعلق بہت سارے اِشتہار دیکھے ہوں گے۔ ٹی وی کیمرے کے سامنے ملک کے بڑے بڑے لیڈر جھاڑوپکڑے، سفائی کرتے دیکھے  گے۔ پریس کی موجودگی میں بڑے بڑے فلم سٹاراوردیگر مشہور شخصیات صفائی کرتے ہوئے پوز دیتی  رہیں ۔ کچھ لمحات کے لیے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بھی عام انسان ہیں۔ بڑے عہدے پر پہنچ جانے کے بعد بھی، وہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ وہ صاف صفائی کا کام خود کرتےہیں۔ مگر حقیقت یہ نہیں ہے جو آپ کو دکھائی جاتی ہے۔

صفائی کرنے والا جواصل انسان ہے وہ کبھی کیمرے کے سامنے نہیں آتا۔ سماج اورسرکار کبھی اُسے برابر نہیں سمجھتی۔ یہاں تک کہ  وہ اپنی تنخواہ وقت پر نہیں پاتا۔ صفائی کرنے کے لیے اسے ضروری ساز و سامان بھی   اکثر نہیں دیا جاتا۔ ان صفائی  والوں  میں سے بہت سارے مزدوراپنی نوکری پوری بھی نہیں کر پاتے ہیں اورکچھ ہی سالوں میں زہریلی گیس اور دیگر بیماریوں سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان سب کے لیے ان کو شاید ہی کوئی معاوضہ ملتا ہے۔ کورونا وبا کے دوران جب ایک انسان دوسرےانسان کے پاس آنے سے بھی ڈر رہا تھا، تب یہی لوگ ہسپتالوں میں صاف صفائی کا کام انجام دے رہے تھے۔ آج بھی جب آپ صبح سویرے آفس کے لیے گھر سے نکلتے ہیں، یا پھردودھ یا سبزی لینے کے لیے گھر سے باہر آتے ہیں، تو یہی لوگ سڑک صاف کرتے، کوڑا اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ کیا آپ نے اشتہار یا کیمرے کے سامنے پوز دیتے کسی لیڈروں کو اصلی زندگی میں صاف صفائی کرتے ہوئے پایا ہے؟ نہیں، وہ تو صفائی کرنے کا ڈرامہ کرتے ہیں۔

یہ بات بھی درست ہے کہ صفائی عاملہ کی ایک ذات ہوتی ہے۔ وہ اکثردلت سماج سے آتے ہیں۔ دلت ایک مَراٹھی لفظ ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے ٹوٹا ہوا، ستایا ہوا۔ سرکاری زبان میں انہیں  شیڈولڈ کاسٹ یعنی ایس سی کہا جاتا ہے۔ انگریزوں کے زمانے میں انہیں اَنچیبل یعنی اَچھوت کہا جاتا تھا۔ لمبے وقت سے سماج نے ان اچھوتوں پر بہت ساری پابندیاں لگا رکھی تھیں۔ مثلاً  وہ زمین نہیں خرید سکتے تھے۔ وہ تعلیم حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ اسی طرح ان کو اسلحہ رکھنے اورمندرمیں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ ملک کے بعض علاقوں میں اچھوت لوگوں کو  اعلیٰ  ذات کی بستیوں سے گزرتے وقت اپنے چپل اور جوتے ہاتھ میں اٹھانے پڑتے تھے۔ اچھوت سماج کےخلاف ایسے  ظلم و زیادتی کی گئی تھی ، جس کی مثال دنیا کے دیگر حصوں میں شاید ہی ملتی تھی۔ ان کو جانوار سے بھی بدتر سمجھا جاتا تھا۔ مگر یہ   بات بھی  صحیح ہے کہ دلت سماج نے ہردور میں اپنےاستحصال کے خلاف بغاوت کی ہے۔ ہردورمیں اس سماج نے بڑے بڑے مجاہد پیدا کیے ہیں۔ انہوں نے ذات پات پر مبنی سماج کے کے خلاف لڑا اور مساوات پر مبنی معاشرہ کی تعمیر کرنی چاہی۔ بدھ کے دور سے لے کر کبیر، پھُلے اور امبیڈکر کے زمانہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ مگر ذات برادری کو وہ پوری طرح سے تاریخ کو کوڈے دان میں ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اس سمت میں بابا صاحب امبیڈکر نے بڑا کام کیا۔

اپنے وسیع مطالعہ اور تجربہ کی بنیاد پر امبیڈکر نے یہ بات کہی کہ بھارت میں مزدوروں کی ایک ذات بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں کام کا بٹوارہ  نہیں دیکھا جاتا، بلکہ کام کرنے والے مزدوروں کا بٹوارہ  ذات برادری کی بنیاد پر ہوتا ہے۔آسان لفظوں میں کہیں تو صفائی کا کام مزدور نہیں کرتے، بلکہ ایک خاص ذات برادری میں پیدا ہونے والا مزدور کرتا ہے۔ دلت سماج میں پیدا ہونے والے لوگ ہی آپ کو اکثر صفائی کے پیشہ میں دِکھ جاتے ہیں۔اگر کوئی  اعلیٰ ذات کا غریب ہے تو وہ گارڈ کی نوکری کر لےگا، سبزی بیچ لے گا، ہوٹل میں کام کر لیگا، مگر صفائی کا کام کرنا   وہ اپنی توہین سمجھتا ہے۔ آخر کیوں؟ ان سب باتوں کو سمجھنے کے لیے آپ کو امبیڈر کی تحریر کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ان کے نزدیک ذات برادری کا فیکٹر کافی اہم ہے۔

یاد رہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نےسوچھ بھارت اَبھیان کی شروعات ۲ اکتوبر ۲۰۱۴ میں کی تھی۔ وہ دن گاندھی جینتی بھی تھا۔ کاسٹ کے سوال پر گاندھی جی اورامبیڈکر کے بیچ بہت سارے اختلاف تھے۔ ابمیڈکر نے گاندھی کے بارے میں ذات برادری کے دفاع کرنے کا بھی الزام لگایا۔ مگر مہاتما گاندھی کا ماننا تھا کہ اَچھوت پرتھا کی ہندودھرم میں کوئی جگہ نہیں ہے اور اسے دور کرنے کے لیے اعلیٰ ذاتوں کو آگے آنا چاہیے۔ دلت سماج کے بیچ میں جا کر مہاتما نے کام کیا۔ وہیں، بہت سارے ابیڈکرنواز اسکالر کا ماننا  ہے کہ گاندھی دلت تحریک کی طاقت کو سمجھ چکے تھے اوران کومحسوس ہو چکا تھا کہ اگراعلیٰ ذاتیں   دلت سماج کے لیے کچھ کرتے ہوئے  نظر نہ آئیں، تو دلت سماج گانگریس کے ہاتھوں سے دور چلا جائے گا اورانہیں بڑا سیاسی نقصان جھیلنا پڑ سکتا ہے۔ کانگریس ہمیشہ سے یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ سارے ہندوستانیوں کی پارٹی ہے اور اس کو ہندو مسلمان، اعلیٰ  ذات کے علاوہ دلت سماج کی بھی حمایت حاصل ہے۔ امبیڈکر دوسری طرح کانگریس کوغیردلت اورہندو خاص کر اعلیٰ  ذاتوں کی پارٹی مانتے تھے۔

مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ۱۹۳۰ کی دہائی میں گاندھی نے دلت سماج کے  لیے اپنے طور سے کام کیا۔ گاندھی نے دلت سماج کے بالمیکی ذات، جو صاف صفائی کا کام انجام دیتے ہیں، کے علاقوں میں اپنا وقت گزارا اور وہاں پرتعمیری کام کیا۔ گاندھی جی نے اَچھوت پرتھا کے خلاف بولا، جو کہ اس زمانہ میں کوئی چھوٹی بات نہیں تھی۔ گاندھی یہ بھی مانتے تھے کہ انسان کو اپنا کام خود کرنا چاہیےاورصاف صفائی کا کام بھی دوسروں سے کرانے کے بجائے خود ہی کرنا چاہیے۔ گاندھی کے اسی نظریہ کو دھیان میں رکھتےہوئے، سوچھ بھارت کی شروعات ان کے یوم ِ پیدائش پر کی گئی۔ تضاد دیکھیے کہ ہندوتوا طاقتوں نے گاندھی جی کی لمبے وقت تک مخالفت  کی اور ان کو مسلمانوں کا ‘خیرخواہ’ اور ہندو سماج کے مفاد کے ساتھ سمجھوتا کرنے کا الزام لگایا۔ اسی نظریہ کی نرسری سے نکلنے والے  کوڈسے نے ان کا قتل کیا۔ مگر اب ہندوتوا سارکار ان کو اپنے بینر پر استعمال کر رہی ہے۔

سوچھ بھارت ابھیان کی کامیابی کولےکرجہاں حکومتیں لاکھوں کروڑوں روپیہ کا اشتہار اخبار میں دے رہی ہیں اورعوام کا کروڑوں روپیہ ٹی وی چینل، ہورڈنگ، پوسٹر پر خرچ کر رہی ہے، وہیں صفائی کرنے والے اصل عاملہ، جو دلت سماج سے آتے ہیں، کو وقت پر تنخواہ نہیں ملتی۔ ان کو ضروری ایکوئپمنٹ جیسے دستانے ، جوتے اور دیگر سامان اکثر نہیں دیے جاتے۔ نجی کاری کا سب سے پہلا اور سب سے زیاد چوٹ کھانے والا  دلت سماج ہی ہے۔ ۱۹۹۰ کے بعد سے جب نجی کاری شروع کی گئی تو اس کے سب سےپہلے شکار صفائی کرمچاری اور دیگر محروم طبقات ہی بنے۔

ا۲ اکتوبر کے روز ایک پریس کانفرنس میں بولتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل اور ‘میشن سو کانسٹیٹیوشن’ کے قومی کنوینئرمحمود پراچہ اور دہلی صفائی کرمچاری آیوگ کے سابق صدر ہرنام سنگھ نے صفائی کرمچاری کے مسائل کوپھرسے اٹھایا۔ ہرنام سنگھ نے بہت سارے آر ٹی آئی اور اعداد وشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صفائی عاملہ کو ان کا حق نہیں مل رہا ہے، یہاں تک کہ جنہوں نے اپنی جان گنوا  کر کورونا وبا کے دوران صفائی کا کام انجام دیا اور لوگوں کی جان بچائی، ان کو کوئی معاوضہ نہیں ملا۔ دوسری جانب،   پراچہ نےکہا کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لیڈران اور آفسر کے خلاف صفائی عاملہ کے حقوق کے ساتھ کھلواڑ کرنے کےجرم میں ایس سی، ایس ٹی کا  مقدمہ بنتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی دکھ کا اظہار کیا، کہ سپیشل کورٹ کے جج صاحبان ایس سی، ایس سی ایکٹ کو صحیح سپرٹ میں سمجھنے اور فیصلہ دیتے وقت اس پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

بات تو صحیح ہے کہ جو معاشرہ اپنے ہی لوگوں کے ساتھ اس طرح کا غیر انسانی سلوک کرتا ہے، اسے شوچھ کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(مضمون نگار جے این یو سے پی ایچ ڈی ہیں۔)

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply