• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا مسلم لیگ قابل اعتماد پارٹنر ہے؟۔۔عامر کاکازئی

کیا مسلم لیگ قابل اعتماد پارٹنر ہے؟۔۔عامر کاکازئی

اس سوال کا جواب کھوجنے کے لیے ہمیں تاریخ کا سہارا لینا پڑے گا۔

بےنظیر کی پہلی حکومت کا ابھی سال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ جنرل حمید گل کی سربراہی میں اس وقت کی تمام اپوزیشن پارٹیز بشمول ملک کے صدر اسحاق خان، پیپلز پارٹی کے خلاف اکھٹی ہونی شروع ہو گئی تھیں۔ جنرل حمید گل اور جنرل اسلم بیگ جنہوں نے الیکشن 88 سے پہلے ہی پیپلز پارٹی کو توڑنے کے لیے آئی جے آئی بنا ڈالی تھی۔

جونہی اپوزیشن پارٹیز نے تحریک عدم اعتماد کا اعلان کیا، اس کے ساتھ ہی اسلام آباد میں سیاسی رابطوں میں بھونچال آ گیا۔ سارے گیسٹ ہاوسز، ہوٹل، موٹل وغیرہ جیم پیکڈ ہو گۓ، سیاست دانوں کے گھر مہمانوں سے بھر گۓ، ملکی اور غیر ملکی میڈیا نے بھی اسلام آباد میں آ کر ڈیڑے جما لیے۔ اس وقت کی اپوزیشن نے کچھ ایسا ماحول بنایا کہ حکومت کا جانا یقینی بن گیا۔

اپوزیشن کے ساتھ ایک مسئلہ بھی درپیش آ گیا کہ اگلے ڈھائی سال کے لیے وزیراعظم کون ہو گا؟ اس وقت کی بھی اپوزیشن دھان متی کا کنبہ ہی تھا اور ہر کوئی شیروانی پہننے کے لیے بے تاب بیٹھا تھا۔ بہرحال اسٹیبلیشمنٹ نے غلام مصطفے جتوئی کے نام کو فائنل کیا اور آئی جے آئی نے ان کو نئے وزیر اعظم کیلئے ایوان میں نامزد کردیا۔

ایک راوی کے بقول  کہ ایک دن نواز شریف کے ایک انتہائی قریبی ساتھی کی ملاقات فیصل آباد مسلم لیگ کے ایک بڑے بزرگ راہنما میاں زاہد سرفراز سے ہوئی۔ انہوں نے  ازراۓ تفنن کہا کہ اوۓ اپنے “گھگھو” کو سمجھاؤ  کہ اگر بے نظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو اگلا وزیر اعظم تو غلام مصطفے جتوئی ہوگا جومزید تین سال تک وزیر اعظم رہے گا۔ان تین سالوں تک یہ  “گھگھو”(نواز شریف) کیاکریگا کیونکہ اگر جتوئی مزید تین سال وزیر اعظم رہا تو نوازشریف سیاست سے خودکو فارغ ہی سمجھے۔

جب یہ بات نواز شریف تک پہنچی تو وہ ایک لحمے کو سُن ہو گئے لیکن بات ان کی عقل میں آ گئی۔

اب جہاں اس تحریک کو ناکام بنانے میں بے نظیر کی اپنی کوششوں کا ہاتھ تھا وہاں ہی نواز شریف نے بھی تحریک کو ناکام بنانے میں پورا ساتھ دیا۔

اسمبلی کے اجلاس کے دن کی کہانی

جیسے ہی اسمبلی کا اجلاس تحریک عدم اعتماد کے لیے شروع ہوا تو سب سے پہلے سیالکوٹ سے پیپلز پارٹی کے ایک رکن خورشید چیمہ روتے ہوۓ اپوزیشن کے بینچوں سے بے نظیر بھٹو کی طرف آۓ اور انکے قدموں میں سر جھکا کر روتے ہوۓ کہا کہ میں آپ کا خادم ہوں اور مجھے گجرات کے چوہدریوں نے گمراہ کر دیا تھا مگر اب میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ میں اس ناپاک سازش کا حصہ بنوں۔ اس وقت فرق صرف پانچ ووٹوں کا تھا۔ نواز شریف نے اپنی پارٹی کی رُکن بیگم عابدہ حسین کو کہا تم سب اسمبلی میں ہی نہ آؤ۔ اس طرح جب گنتی کامرحلہ شروع ہوا تو مسلم لیگ کے تمام ممبران اسمبلی سے غیر حاضر ہو گۓ تھے۔جنرل اختر عبدالرحمان کے بیٹے ہمایوں اختر خان نے تحریک عدم حمایت کی حمایت میں ووٹ نہیں دیا تھا۔ بے نظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد بُری طرح ناکام ہو گئی۔

اس سے پہلے نواز شریف نے آخری وقت میں جونیجو کا ساتھ بھی چھوڑ دیا تھا۔ اپنے آپ کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کرواتے وقت بھی کچھ اسی قسم کی کہانی دہرائی گئی تھی۔

موجودہ تحریک عدم اتحاد میں مسلم لیگ کا رول۔

مشہور بزرگ صحافی حیدر جاوید صاحب کی خبر کے مطابق، مسلم لیگ کسی بھی صورت میں چودھری پرویزالٰہی کو پنجاب میں مرکزی کردار دینے پر آمادہ نہیں، مسلم لیگ کے تمام سینیر لیڈر بشمول شاہد خاقان عباسی کے اس بات پر متفق ہیں کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب کی حد تک فیصلہ سازی کا اختیار نہ دیا جاۓ بلکہ مسلم لیگ خود فیصلہ کرے

ایک خبر کے مطابق چودھری پرویزالٰہی کو جب یہ پتہ چلا کہ مریم نواز کی اجازت سے تین رکنی وفد نے علیم خان سے ملاقات کی ہے اور انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیشکش کی ہے، تو چودھری پرویز الہی نے بالکل آخری وقت میں شہباز شریف کے عشائیہ میں شرکت کرنے سے انکار کر  دیا۔

علیم خان کے دعوے کے مطابق ان کے پاس تقریباً ساٹھ کے قریب رکن اسمبلی ساتھ ہیں جبکہ پرویز الہی کے پاس تیرہ ممبرز ہیں۔ اس لیےمسلم لیگ کو آصف علی زرداری کی بات ماننے کی  کیا ضرورت ہے کہ پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ بنوائے اور خود پس منظر  میں چلی جائے اس طرح نہ صرف چودھریوں کو پاور ملے گی بلکہ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں ایک بار پھر قدم جمانے کا موقع ملے گا۔

فقیر رحموں کے مطابق مسلم لیگ نے آصف زرداری کو بظاہر یہ یقین دلایا کہ مسلم لیگ کو ان کے سارے فیصلے قبول ہوں گے، مگر اندرون خانہ علیم خان سے رابطے کیے اور پیپلز پارٹی کو ان رابطوں سے بے خبر رکھا۔

اب اس مرحلے پر ایک سوال اور بھی اُبھرتا ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو اگلا وزیراعظم کون ہو گا؟ اس سوال پر پوری اپوزشن خاموش ہے یا کنفیوزڈ ہے۔

آخر میں اگر مسلم لیگ کے ماضی کو دیکھا جاۓ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے میں بھی نواز شریف پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ کیا اس بات کا چانس موجود ہے کہ آخر وقت میں مسلم لیگ ہی اپوزیشن کو دھوکا نہ دے جاۓ؟

جواب پڑھنے والے خود کھوجیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس مضمون کو لکھنے میں حیدر جاوید سید صاحب کے ایک کالم اور بی بی سی کے ایک پروگرام سے مدد لی گئی ہے۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply