عوامی رنگ۔۔حسان عالمگیر عباسی

ہمارا اٹھنا بیٹھنا عام لوگوں میں ہے اور ہم بھی عوام الناس میں ہی شمار رکھتے ہیں۔ ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ فلاں جماعت سے تعلق رکھنے والا مسلمان اور فلاں جماعت سے تعلق رکھنے والا مومن ہے۔ سب ایک سے ہیں۔ اقامت دین کی جدوجہد کا صرف یہی مطلب ہے کہ اپنی حیثیت میں جہاں تک پہنچ ہو دین کو سربلند کرنے کی کوشش میں تن من دھن لگائے رہنا کہ اسی حالت میں موت آ جائے۔ اب یہ کام صرف مخصوص جماعت کے لوگ نہیں کر رہے بلکہ سب جماعتوں میں اسلام پسند بیٹھے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ کوئی بھی جماعت دینی بنیادوں پہ شناخت منوانے لگے تو  غیر فطری معلوم ہوتا ہے۔ ہاں اگر ہمارے معاشرے میں کفار ہوتے تو یقیناً  (کنتم خیر امت اخرجت ) کی رو سے ایک جماعت کا قیام ضروری تھا لیکن مسلم معاشروں میں الگ تشخص قائم کرنا بڑے مقاصد کے حصول میں خطرے کا باعث ہے۔

البتہ اگر آپ کا ماننا ہے کہ جماعت سے سیکھا ہے اور جماعت نے انگلی پکڑ کے چلنا سیکھایا ہے تو یہ جماعت اگر مذہبی نہ بھی ہوتی تو اسے اپنی کمیونٹی تصور کر کے قرض اتارنا بنتا تھا۔

یہ جماعت اگر سیاسی کارکنان اور پنڈتوں کو باقی مسلم سیاسی جماعتوں سے یہاں لانے کی تگ و دو کر رہی ہے تو یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ باقی سیاسی جماعتوں کا بھی بندے گھیرنے یا اپنی طرف کھینچنے کا پورا پورا حق ہے۔ یہ اگلی جماعت کی اچیومنٹ اور یہاں کی کمزوریوں کا نتیجہ ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ہر بندہ اپنے قول و فعل میں آزاد ہے۔ اگر ان کو جماعت نے بولنا سیکھایا ہے تو وہاں بھی بولنے پہ ہی معمور ہوں گے اور کل کلاں جماعت کی عزت افزائی ہو گی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے جمعیت والے سعد رفیق یا احسن اقبال کو اچھا بولتے دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ ہمارے تربیت یافتہ ہیں۔ جماعت کے احباب کو اتنی چھوٹی ذہنیت سے باہر جانا ہو گا کہ فلاں کو ہم نے جلا بخشی اور وہ احسان فراموشی کر گیا۔

زبیر فاروق خان صاحب، سابق وزیر خزانہ کے پی یا عبد الرشید ترابی صاحب کا یوں اچانک چلے جانا اس لیے نشانے پہ رہا کیونکہ انھوں نے اگلے مورچوں پہ کھڑا ہونا جماعت سے سیکھا تھا حالانکہ اصولاً  ان کے چلے جانے پہ بھی ناراضی بنتی نہیں تھی۔ یہ البتہ اس وقت ناراضی ضرور بنتی ہے جب یہ جماعت کارکنان کو شروع ہی میں بتا دے کہ اگر ایک بار قدم رکھ لیا تو دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے گا لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے۔

یہ جماعت نہ صرف دیگر سیاسی جماعتوں سے بندے گھیرتی ہے بلکہ ان مذہبی جماعتوں سے بھی بلاتی ہے جنہیں ہم جمعیت علمائے اسلام ف، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام س یا اہل سنت والجماعت وجماعت پکارتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہمیں مذہبی بنیادوں سے ہٹ کر خالص سیاسی بنیادوں پہ آگے بڑھنا ہے کیونکہ مذہب پسند یا اسلام پسند ہر جماعت کا ہر کارکن ہے۔ کوئی جاتا ہے بے شک جائے لیکن باقی جماعتوں سے بندوں اور بندیوں کو توڑنا تیز کیا جائے۔ آنے والا مومن نہیں ہو جاتا اور جانے والا ارتداد کی راہ نہیں پکڑ لیتا۔ یہ ایک سیاسی جماعت ہے۔ رائٹ لیفٹ کو دفنا کر رائٹ رانگ پہ کھڑا ہونے کا وقت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply