محسن داوڑ سے خصوصی انٹرویو

محسن داوڑ ماضی قریب میں ابھرنے والی سیاسی شخصیات میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ آپ قبائلی علاقہ جات سے ممبر قومی اسمبلی ہیں، پشتون تحفظ تحریک کے نمایاں رہنما رہے اور اب اپنی سیاسی پارٹی “قومی جمہوری تحریک” کی بنیاد رکھ چکے ہیں۔اس وقت محسن اپنی پارٹی رجسٹریشن کیلئیے شدید مصروف ہیں لیکن مکالمہ کی درخواست پر انہوں نے خصوصی طور پہ وقت دیااور کچھ تند سوالات کے جواب بھی مسکراتے ہوے دئیے۔ محسن صاحب کو انکی نئی پارٹی پہ مبارکباد دیتے ہوے مکالمہ کیلئیے یہ خصوصی انٹرویو رشید یوسفزئی اور انعام رانا نے کیا ہے۔

افغانستان میں ایک نئی جنگ کی بنیاد رکھ دی گئی ہے

سوال: افغانستان ایشو پہ آپ کا نکتہ نظر انتہائی اہم ہے کیونکہ آپ نا صرف حالیہ پشتون سیاست میں متحرک رہے بلکہ سابقہ افغان حکومت سے کافی قریب بھی رہے۔ ایسے میں موجودہ افغان صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں؟
محسن: اگر میں مختصرا کہوں تو افغانستان میں ایک نئی جنگ کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اسکا آغاز دوحہ مذاکرات سے ہی ہو گیاتھا۔ جیسے امریکی افواج پسپا ہوئیں وہ بھی اگلی جنگ کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اگرچہ انکی موجودگی پہلے ہی کم ہو چکی تھی مگرکمانڈ اور کنٹرول انکے پاس تھا۔ انکا یوں یکدم پیچھے ہٹ جانا اور پھر افغانستان میں موجود اندرونی خلفشار اہم وجہ بنے۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ دو بڑی طاقتوں کے درمیان ایک بڑی جنگ کی شروعات ہو رہی ہیں اور افغانستان قربانی کا پہلا بکرا بنا ہے۔ دیکھئیے اور کون کون قربان ہو مگر ابتدا افغانستان سے ہوئی ہے۔
سوال: طالبان آئے تو ایک بیانیہ چلا کہ یہ طالبان کی نئی نسل ہے، یہ بدل چکے اور پرانی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی۔ کیا آپ متفق ہیں؟
محسن: یہ بالکل وہی پرانے طالبان ہیں۔ یہ شر کی قوت ہیں اور ان سے خیر کی توقع کی ہی نہیں جا سکتی۔ ہم دیکھ رہے کہ کیسے وہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں، احتجاج دبا رہے ہیں اور خواتین پہ تشدد کر رہے ہیں۔ کچھ بھی نہیں بدلا اور نا ہی یہ کبھی بدلیں گے۔
سوال: پشتون قوم پرست سیاست بالخصوص پشتون تحفظ موومنٹ کی قیادت، کافی قریب تھی سابقہ غنی حکومت سے، کیا اپ سمجھتے ہیں کہ اس صورتحال کا اثر اس پشتون سیاسی تحریک پہ بھی آئے گا جسکی ایک صورت پی ٹی ایم بھی تھی؟
محسن: جی بالکل فرق پڑے گا۔ ایک پوری ریاست انتہاپسند قوت کے ہاتھ میں آ گئی ہے اور وہ بھی ایسی قوت جسے پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی حمایت یافتہ یا ” بی ٹیم” سمجھا جاتا ہے۔ تو فرق تو آئے گا۔ مگر یہ اتار چڑھاؤ افغان تاریخ کا حصہ ہے۔ افغانستان اک عرصہ سے عالمی قوتوں کا میدان جنگ ہے اور امید تو تھی کہ شاید اس بار بہتری آ جائے مگر جب عالمی طاقتوں نے رخ بدل لیا ہے توحالات بھی بدل گئے۔ مگر افغان قوم ہمیشہ باونس بیک کرتی ہے۔
بلاشبہ پشتون قومی سیاست کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے۔

طالبان  شر کی قوت ہیں

سوال: افغان طالبان بھی تو پشتون اکثریتی جماعت ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ پاکستان کی پشتون نیشنلسٹ سیاست کو اپنا لیں یااس کی جانب نرم رویہ رکھیں؟
محسن: نہیں یہ ممکن نہیں ہو گا کیونکہ انکا تو نظریہ ہی قومیت کے خلاف ہے، افغان قومیت اور تاریخ کے خلاف ہے۔ یہ تو آتے ہیں توافغان تاریخ سے کھلواڑ کرتے ہیں جیسے بامیان کے بتوں کو اڑایا، ریڈیو کابل کا نام بدل دیا۔ یہ نام کے افغان ہیں مگر یہ افغان شناخت کو ختم کرنے کیلئیے سرگرم ہیں۔

سب سے بڑی سیاسی پارٹی جی ایچ کیو ہے

سوال: محسن صاحب اپ کو اپنی پارٹی کی بنیاد رکھنے پہ بہت مبارکباد۔ مکالمہ شاید پہلا پلیٹ فارم تھا جہاں آپ نے اپنی نئی پارٹی کا واضح اشارہ دیا تھا۔ اب اک سوال بہت سے ذہنوں میں ہے کہ کیا یہ ایک قومی پارٹی ہو گی یا فقط پشتون قوم پرست۔؟
محسن: دیکھئیے اگر ہمارا پروگرام دیکھیں تو ہمارا بنیادی نظریہ واضح ہے کہ یہ پارٹی تمام محکوم اقوام کی اور تمام پسے ہوےطبقات کی بات کرتی ہے۔ ہمارے ذہن میں نیپ کا ماڈل تھا جو آج کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو۔ ایک ایسا ترقی پسند جمہوری پلیٹ فورم جو تمام پسے طبقات اور قوموں کیلئیے ہو۔
سوال: لیکن محسن صاحب ایسے ہی اصولوں پر تو پشتون خواہ سے ہی عوامی نیشنل پارٹی جیسی جماعت موجود ہے دیگر قومی سیاسی جماعتیں ہیں تو یہ پارٹی ہی کیوں؟
محسن: دیکھئیے قومی پارٹی کوئی بھی نہیں سب ریجنل بن چکی ہیں۔ اب یہاں موروثیت کی بات آ جاتی ہے۔ اگر میرٹ ہو تو موروثی سیاسی قیادت میں برائی نہیں ہے مگر روائتی سیاسی جماعتوں میں فیصلے لینے کا عمل بذات خود جمہوری نہیں رہ گیا ہے۔ سیاسی ورکر پھر پارٹی کو اوون نہیں کرتا کیونکہ اسکو اجنبی رکھا جاتا ہے اور وہ بھی جدوجہد میں نپا تلا حصہ ہی ڈالتا ہے۔ سو ضرورت ہے کہ مضبوط جمہوری ادارے بنانے والی پارٹی ہو۔
دوسرا نوجوانوں کا سٹیک سماج میں تو ساٹھ فیصد سے زائد ہے مگر سیاسی جماعتوں میں نئے آنے والے نوجوان کیلئیے کوئی جگہ موجود نہیں ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی جی ایچ کیو ہے سو ضرورت ہے کہ انکے اثر سے آزاد پارٹی موجود ہے۔
سوال: ایک تاثر موجود ہے کہ آپکی پارٹی پہ بائیں بازو کا بہت زیادہ اثر ہے۔ یہ کوشش پشتون سماج میں بلکہ پاکستان میں پہلے بھی ناکام ہو چکی ہے۔ تو آپ اسے کیسے قابل قبول بنائیں گے؟
محسن۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ہم کمیونزم کا نظریہ لے کر چل رہے ہیں لیکن جن اصولوں پہ ہم پسے طبقات کی بات کر رہے ہیں وہ ایک جیسے ہو سکتے ہیں۔ جن نظریات پہ ہم نے پارٹی کی بنیاد رکھی ہے ایسے ہی ترقی پسند نظریات پہ آج سے سو سال قبل باچاخان نے پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ اور وہ اس سماج میں ایک کامیابی حاصل کر کے گئے تھی۔ یہی ہماری پشتون بیلٹ ہے جوپشتون قوم پرست سیاست کا متحرک حصہ رہ چکا ہے اگرچہ اب اپنی غیر فعالیت اور کنفیوژن کی وجہ سے وہ طبقہ سکڑ گیا ہے اوریہ جگہ روائیتی دائیں بازو کی پارٹیز بھر رہی ہیں۔ سو ایک خلا موجود ہے جسے بھرنے کی ضرورت ہے اور آپ دیکھیں گے کہ یہ ایک “سیکسس سٹوری” بنے گی۔
سوال: جیسے ہر پارٹی کا اک نعرہ ہوتا ہے، ٹیگ لائن ہوتی ہے جیسے روٹی کپڑا اور مکان، تو آپ کا نعرہ کیا ہے۔ ؟
محسن: دیکھئیے کوئی ایک نعرہ نہیں ہے۔ ابھی جمہوری عمل سے پارٹی بنے گی، ایگزیکٹو کمیٹی آئے گی، منشور آئے گا تو جب ساتھی آئیں گے تو نعرہ بھی آ جائے گا۔ ابھی ہم نے جو پروگرام دیا ہے وہ سارا ہی ہمارا نعرہ ہے۔
سوال: محسن صاحب آپ کا تاثر ہمیشہ ایک روایت شکن اور بے باک سیاستدان کا رہا ہے۔ لیکن سیاسی پارٹیز کی انتخابی کامیابیاںاسٹبلشمنٹ سے تعلقات کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ کیا اسٹبلشمنٹ سے ہاتھ ملائے بنا آپ کی پارٹی کامیابی حاصل کر پائے گی؟
محسن: اسٹبلشمنٹ سے تو پچھلے الیکشن میں بھی سب ہی نے ہاتھ ملایا تھا۔ ہاں وہ سب کو تو نہیں جتا دیتے۔ ہم اس بیانئیے کوبھی بدلنا چاہتے ہیں کہ انکی مدد بنا کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہماری پشتو کا مقولہ ہے کہ عوام کی طاقت ہی اصل طاقت ہوتی ہے۔ سو ہم یہ ثابت کریں گے کہ عوام کی طاقت ہی جیت سکتی ہے۔

اپنی توانائی  منظور  پشتین پہ ضائع نہیں  کروں گا

سوال: ہم انٹرویو کے آخری حصے کی جانب آتے ہیں اور کوئی بھی جو محسن داوڑ کا انٹریو کرے اس حصے بنا نامکمل انٹریو ہی کرےگا۔ آپ پشتون تحفظ تحریک کے بانی رکن رہے، متحرک اور اہم قائد رہے مگر حالات بدل گئے اور اب “آستین کا سانپ” جیسی پوسٹ بھی لگ گئی ہیں۔ کیا اب بھی آپ کا جواب فقط خاموشی یا چار شعر ہی ہیں؟

محسن: میرے باس کہنے کو، بتانے کو بہت کچھ ہے۔ میں بھرپور جواب دے سکتا ہوں۔ لیکن میں اپنی توانائی کیوں ان پہ ضائع کروں۔وہ جو میرا حق چھین چکے، میرے لوگ مار رہے ہیں اور خطے میں نئی جنگ کی بنیاد رکھ رہے ہیں، میں اپنی توانائی ان پہ لگاؤں گاناکہ منظورپشتین  پہ ضائع کروں گا۔ منظور زیادہ سے زیادہ میرے خلاف بولے گا اور کچھ ڈیمج دے دے گا تو میں کیوں اپنی توانائی اس پہ ضائع کروں۔ بلکہ میں جدوجہد کروں گا اور توانائی لگاؤں گا انکے لئیے جنکا حق چھینا گیا۔
دیکھئیے جب یہ تحریک شروع ہوئی پی ٹی ایم بنی، میں ایک سیاسی پارٹی کا حصہ تھا، سیاسی پارٹی کی یوتھ ونگ کا چیئرمین تھا،تب تو انکو مجھ سے کوئی مسلئہ نہیں تھا۔ میں مسلسل انکو بھی کہتا رہا کہ سیاست سیاسی جماعت کے بنا نہیں ہوتی ہے۔ سیاست کو، سیاسی جماعتوں کو بدنام کرنے کیلئیے جی ایچ کیو نے ستر سال لگا دئیے مگر وہ اتنا بدنام نہیں کر پائے جتنا یہ لوگ کر گئے۔یہی میری دلیل ہوتی تھی کہ سیاسی جماعتوں نے قربانیاں دی ہیں جدوجہد کی ہے اور یہ نظام چل رہا ہے یا یہاں تک پہنچا ہے توانکی بہت بڑی کنٹری بیوشن ہے۔ ہاں انھوں نے مصلحتیں کیں مگر انکو سزا بھی تو بھگتنی پڑی۔
اگر فقط الزامات ہی اہم ہیں تو جب پی ٹی ایم بنائی گئی تو سب نے کہا کہ یہ آئی ایس آئی کا پراجیکٹ ہے مگر عوام نے ایسا کوئی الزام قبول نہیں کیا کیونکہ وہ آپکی جدوجہد اور کردار دیکھتی ہے۔ سو میں جواب نہیں دوں گا عوام خود پرکھ لے گی کہ کون سچا ہےاور کون جھوٹا۔
سوال: آپ پی ٹی ایم سے راہیں جدا کر چکے مگر اسکا اہم حصہ رہے ہیں۔ آپ کیا لگتا ہے کہ پی ٹی ایم کی ناکامی کی حد تک کمزوری کی بنیادی وجوہات کیا تھیں؟
محسن: دیکھیں میں زیادہ اس پہ بات تو نہیں کرنا چاہتا کیونکہ یہ پھر کنٹروورسی کو جنم دے گا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاست چند دن کا کام نہیں بلکہ لمبی جدوجہد ہے اور تنظیمی ڈھانچہ مانگتی ہے۔ ایک وسیع سیاسی پروگرام چاہیے ہوتا ہے جسکی بنیاد پہآپ لوگوں کے پاس جاتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔ اگر یہ نا ہو تو جیسے مجمع جمع ہوتا ہے ویسے ہی چھٹ بھی جاتا ہے۔ اب انھوں نےمجمع تو لگا لیا مگر اسے کسی ڈھانچے میں ڈھالنے میں بدقسمتی سے ناکام رہے۔ ایک بنیادی وجہ کنفیوژن تھی، ورکنگ پلان کےحوالے سے، بیانئیے کے حوالے سے، کرنا کیا ہے، کیسے کرنا ہے، یہ سب کچھ کنفیوژن میں تھا۔ اور کنفیوژن بہت خطرناک ہوتی ہےکیونکہ وہ آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔
دیکھیں لوگوں میں غصہ اور فرسٹریشن تھا اور وہ آپکے پیچھے چل پڑے۔ مگر اسکو کیپٹلائز کرنے کی ضرورت تھی جو ان سے نہیں ہوسکا۔

سوال: کیا آپکو لگتا ہے کہ اپ کا اپنی سیاسی پارٹی بنانا رہی سہی پی ٹی ایم کو بھی بھی ختم کر دے گا؟
محسن: پی ٹی ایم تو پہلے ہی کہہ چکی تھی کہ وہ سیاسی جماعت نہیں ہے تو وہ سیاسی تو تھی ہی نہیں۔ پھر میں نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ پی ٹی ایم کو جہاں ضرورت ہو گی، بھلے وہ جو کہتے ہوں، ہم انکے ساتھ صف اوّل میں ہوں گے۔ یہ فقط زبانی نہیں عمل سے ثابت کریں گے۔ انکو ہماری وجہ سے کوئی مسلئہ نہیں۔ ہاں وہ اب خود ہی غیر فعال ہو جائیں تو کوئی کیا کرے۔ میں نےاپ کو بتایا نا کہ سب سے بڑا مسلئہ تھا کہ کسی سمت کے بنا پالیٹکس ہو ہی نہیں سکتی۔ منزل مقصود واضح نا ہو تو یہی انجام ہوتا ہے۔
میں نہیں جانتا کہ وہ حوصلہ ہار چکے یا نہیں لیکن انکو ہارنا نہیں چاہیے۔ ہاں البتہ ایک مستقل سیاست کیلئیے تنظیمی ڈھانچہ ضروری ہے جو نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

محسن صاحب ہم بہت ممنون ہیں کہ آپ نے اس شدید مصروفیت میں بھی مکالمہ کے لئیے وقت نکالا ہے اور قارئین تک اپنا پیغام پہنچایا۔ آپ کی پارٹی کیلئیے ہماری نیک خواہشات۔
محسن۔ مکالمہ اور آپ کا بھی بہت شکریہ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply