طالبہ کی خود کشی کی کوشش / اظہر سید

آج بیکن ہاؤس مارگلہ کیمپس میں میرے بیٹے وہاج کی ایک کلاس فیلو نے کیمرج او لیول کا پیپر اچھا نہ ہونے پر سکول کی چھت پر جا کر چھلانگ لگا دی ۔بچی کی حالت تشویشناک ہے اور وہ آئی سی یو میں ہے ۔
ہم بھی ایک والد ہیں پیپر اچھا نہ ہونے کے دباؤ پر پندرہ سالہ بچی کا خود کشی کا فیصلہ انتہائی پریشان کن ہے ۔اس افسوسناک واقعہ پر ہم اپنے تجربات کی بنیاد پر والدین کو کہیں گے اپنے بچوں پر بے جا دباؤ نہ ڈالیں۔ کچھ بچے بہت حساس ہوتے ہیں اور والدین کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ انکی ڈانٹ ڈپٹ بچے کی نفسیات پر کیا اثر ڈال رہی ہے ۔
میری بیٹی حلیمہ کے بال کمزور تھے اور ہم اکثر کٹوا دیتے تھے یا ٹنڈ کرا دیتے تھے ۔جب وہ نرسری میں داخل ہوئی تو صورتحال تبدیل ہو گئی۔سکول کے دوران جب ہم نے اس کے بال کٹوائے اس نے پہلی مرتبہ کٹوا لئے لیکن دوسری مرتبہ شدید احتجاج کیا ۔ تفتیش کی تو پتہ چلا کلاس فیلوز نے مذاق اُڑایا تھا اور وہ مذاق اڑائے جانے کے ڈر سے کلاس کے باہر کافی دیر کھڑی رہتی تھی ۔ہمیں بات فوری طور پر سمجھ میں آگئی اور پھر کبھی مسئلہ نہیں ہوا ۔

میرے چار بچے او لیول اور اے لیول کر چکے ہیں اور پانچواں بچہ او لیول کے پیپر دے رہا ہے ۔ہم نے آج تک ان پر گریڈ کیلئے دباؤ نہیں ڈالا ۔جب وہ چھوٹی کلاسوں میں تھے انکی ماں انہیں ڈانٹتی تھی اور مارتی بھی تھی اسسمنٹ میں نمبر کم کیوں آئے ہیں یا پیرنٹ ٹیچر میٹنگ میں ٹیچر نے شکایت کیوں کی ہے لیکن ہم ہمیشہ بچوں کی سائڈ لیتے تھے ۔
بچوں کو زندگی کی اہمیت کا نہیں پتہ ہوتا ۔بہت جلد جذباتی ہو جاتے ہیں۔ انکے پاس آپشن صرف یہی ہوتی ہے کہیں اور محبت تلاش کریں یا پھر خود کو نقصان پہنچا لیں ۔

بچیوں کا خاص طور پر خیال رکھیں کہ انہیں خیال نہ آئے دوسرے بچے سے زیادہ محبت کی جا رہی ہے یا اسکی فرمائش پوری کی گئی اور میری نہیں ۔جن گھروں میں بچے کے دل میں یہ خیال پختہ ہو جائے اس سے کم محبت کی جا رہی ہے تو جان لیں وہ باہر کہیں محبت تلاش کرے گا اور گھر سے باہر چھوٹی عمر میں محبت نہیں ملتی صرف بھیڑے ملتے ہیں ۔
بچہ بہت زیادہ حساس ہو تو خود کشی ایسے انتہائی اقدام کی طرف چل پڑے گا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے اپنی بڑی بیٹی کو سولہ سال کی عمر میں اسلام آباد سے فیصل آباد گاڑی خود چلا کر لیجانے کی اجازت دی تھی کہ اس میں اعتماد آئے ۔جبکہ واپسی پر پندرہ سالہ بیٹا چلا کر لایا تھا ۔بچوں میں بہت توانائی اور طاقت ہوتی ہے انہیں اعتماد دیں وہ کبھی مایوس نہیں کریں گے ۔
اپنے بچوں کو پیسے کمانے کی طرف لگائیں ۔انکی صلاحتیں گانے سننے ،چیٹنگ کرنے یا دوسرے مشاغل کی بجائے اس کا رخ کاروبار کی طرف موڑ دیں ۔ہم پھر اپنے بچوں کی مثال دیں گے تعلیم میں بھی شاندار ہیں اور پیسے بھی خوب کما رہے ہیں ۔
جس قدر مہنگائی ہو چکی ہے ایک شخص گھر چلا ہی نہیں سکتا ۔مالی پریشانیوں سے گھر میں فساد برپا کرنے کی بجائے یا بیماریوں کا شکار ہونے کی بجائے بچوں کو اپنے ساتھ دوستوں کی طرح محبت سے کاروبار کی طرف راغب کریں ۔
راتوں رات پیسے نہیں کمائے جا سکیں گے لیکن آٹھ دس ماہ بعد ضرور کمائے جا سکیں گے ۔
آجکل کی نسل ہمارے دور کی نسبت بہت ذہین اور بہتر ہے ۔بچوں کے ساتھ دوستی کریں اور فری لانسنگ کی طرف لے جائیں ۔بہت ساری سائٹس ہیں دو اہم ہیں” اپ ورک ” اور “فائیور”یہاں اپنے اکاؤنٹ بنائیں ڈیجیٹل مارکیٹنگ،ترجمے،ویب ڈیزائنگ سمیت بے شمار شعبے ہیں ۔آپکے بچے میں کسی نہ کسی شعبہ میں دلچسپی ضرور ہو گی وہ اپنے شعبے میں پیسے کما سکتا ہے ۔اپ ورک میں بچے چیزیں بھی بیچ سکتے ہیں اور سروسز بھی ۔
دوسرا شعبہ ملک کے اندر چیزیں فروخت کرنے کا ہے ۔کاروبار میں مٹی بھی بک جاتی ہے بس دوکان ہونی چاہیے ۔انسٹا گرام پر اکاؤنٹ بنائیں اور کسی بھی پراڈکٹ کی دوکان کھول لیں ۔ہر مہینے انسٹا گرام پر ہی اپنی دوکان کا دس سے پندرہ ہزار کا ایڈ دیں دوکان چل نکلے گی چند ماہ لگیں گے فالور بھی بننا شروع ہو جائیں گے اور ایمانداری سے کام کیا تو نام بھی بن جائے گا ۔سکول کالج کے زمانے میں بچہ کام شروع کر دے یونیورسٹی پہنچنے تک لاکھوں روپیہ ماہانہ کمانے لگے گا ۔وقت ضائع نہیں کرے گا ۔پیسے کمانے کی عادت پڑ جائے گی اور پیسے کی قدر بھی ہو گی ۔اپ پر بوجھ ختم ہو جائے گا الٹا ماں باپ کو شاپنگ بھی کرانے لگے گا ۔
میرے بیٹے نے فری لانسنگ سے کمائی کر کے اٹھارہ سال میں اپنی گاڑی خرید لی تھی ۔اب مجھ سے زیادہ وہ پیسے کماتا ہے اور تعلیم میں بھی شاندار ہے ۔
جس طرح میرے سارے بچے موبائل فون سے پیسے کماتے ہیں ہر بچہ کما سکتا ہے ۔
اہم بات یہ ہے اگر آپ مہنگے اسکول افورڈ نہیں کر سکتے تو بچے کو اس سکول میں داخل کرا کر اس کے ساتھ ظلم کریں گے ۔دوسرے بچے اگر روزانہ ہزار روپیہ کینٹین پر خرچ کرتے ہیں اور آپ کے بچے کے پاس سو روپیہ ہونگے تو وہ احساس کمتری کا شکار ہونا شروع ہو جائے گا ۔
جب کے جی اور نرسری کے بچے بال کٹے بچے کا مذاق بنا سکتے ہیں تو خود سوچ لیں بڑی کلاس کے بچے کس طرح مذاق کریں گے ۔
جس بچی نے آج سکول کی چھت سے چھلانگ لگائی ہے اسکی بیشتر ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں ۔وہ زندہ بچ بھی گئی تو باقی زندگی اس خود کشی کی کوشش کے الزام کے ساتھ گزارے گی مر گئی تو والدین پچھتاوے کے ساتھ باقی زندگی گزاریں گے ۔
بچے پیدا کرکے انہیں طعنے دینے یا شرمندہ کرنے کی بجائے انکی حوصلہ افزائی کریں اور بتائیں وہ آپ کا فخر ہیں ۔ گریڈ اچھے لے کر کیا کرنا ہے ؟ ڈگری ہونا چاہئے اور پیسے کمانے کا ہنر اور بس ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply