سوچ کا ایک زاویہ/سعید ابراہیم

زندگی بہرحال کوئی جامد منظر ہرگز نہیں ہے سو تبدیلی کے پراسیس کو ممکنہ حد تک ہموار انداز میں جاری رکھنے کیلئے وہ اپروچ اور علوم ناگزیر ہیں جو معاصر حالات سے ایک نامیاتی تعلق رکھتے ہوں۔زندگی کے ہر شعبے میں مغرب کی علمی اور نتیجہ خیز عملی برتری یہ بات سمجھنے کیلئے کافی ہے کہ اس کا فہم کس قدر لاجیکل ہے۔

اس کے مقابل مسلم علماجس نظریہء حیات کے بہترین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ محض ایک ایسا دعویٰ ہے جو صدیوں سے بے ثبوت چلا آتا ہے۔ ہم آج ماضی کے جن فلسفیوں اور سائنسدانوں کو فخر سے اپنا ورثہ بتاتے ہیں تو دراصل یہ بھی مغرب کے مقابلے میں ہمارے شدید احساسِ کمتری سے جان بچانے کا ایک نفسیاتی حربہ ہے۔ جدید مغرب نے تو ان فلاسفہ اور سائنسدانوں کی عظمت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ انہی کی فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے نیچرل اور سوشل سائنس کے میدان میں محیّرالعقول ترقی کی۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ایک جانب تو ہم مغرب کی تمام ترقی کا کریڈٹ قرونِ وسطیٰ کے مسلم فلاسفہ اور سائنس دانوں کو دلوانے پر مُصر ہیں جبکہ دوسری طرف ہم اس ترقی کو انسانیت کیلئے زہرِ ہلاہل بھی کہتے ہیں۔جیسے کہ اقبال کا یہ معروف شعر
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکُشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا

اب جہاں تک اقبال کا معاملہ ہے وہ ایک جانب توایک مذہبی خطیب کے سے پُرجوش انداز سے مغربی تہذیب کی بربادی کی پیشن گوئی فرمارہے ہیں جبکہ دوسری جانب انھیں یہ امید بھی ہے کہ مغرب سائنسی ترقی کے نتیجے میں جو حقائق منکشف کررہا ہے، عین ممکن ہے کہ ایک وقت آئے کہ یہ حقائق وحی کے ذریعے صدیوں پہلے ہونے والے حقائق کی تصدیق کردیں۔ تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ کے دیباچہ میں اس بات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
“وہ دن دور نہیں کہ مذہب اور سائنس میں ایسی ایسی ہم آہنگیوں کا انکشاف ہو جو سرِدست ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔”

اقبال کے یہ جملے ایک عقیدہ پرست ذہن کے غماز ہیں جو ایک ایسی مابعدالطبیعاتی تصور کو حتمی سچائی مانتا ہے جو خود اس کے احاطہء ادراک میں نہیں آپائی اور اب اس کا خیال ہے کہ وہ دن دور نہیں جب سائنس اس مفروضہ ناقابلِ ادراک تصور پر تصدیق کی مہر لگادے گی۔ گویا یہ کام بھی ہماری بجائے وہی کریں جن کے سائنسی انکشافات نے ہمارے عقائد کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے۔

مذہب نے جس مابعدالطبیعات کو اپنی بنیاد بنایا ہے، اس کا وجود ابھی تک ثبوت سے محروم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مابعدالطبیعات کی حیثیت ایک بے دلیل موضوعی تصور سے زیادہ کچھ نہیں سو اس تصور سے مختلف افراد اپنی پسند کے معنی نکال سکتے ہیں، حتیٰ کہ ایسے معنی جو ایک دوسرے کو قطع تک کردیتے ہیں۔

زندگی قدم قدم پہ لاجک کی محتاج ہے۔ ہمیں جاننا پڑتا ہے کہ کون سے نتیجے کے پیچھے کون سے محرکات کام کررہے ہیں۔ علت اور معلول کے تعلق کی جانکاری کا یہی عمل ہمیں مستقبل میں پیش آنے والے حادثات و خطرات کی پیش بندی کے قابل بناتا ہے۔ اگر علم اور ریسرچ کے عمل سے متعلق انسانوں نے اپنی ذمہ  داری سے ہاتھ اٹھالیا ہوتا تو ساری دنیا ایک الاجیکل مافوق الفطرت وجود کے تصور کی گرفت میں ہوتی اور پروہت ہمیں بتارہے ہوتے کہ وہ مافوق الفطرت وجود ہماری کن باتوں سے خوش ہوتا ہے اور ہمارے کون سے اعمال اسے غضبناک کردیتے ہیں۔ ہم کبھی بیماریوں کا علاج دریافت نہ کرپاتے اور نہ ہی سیلابوں اور زلزلوں کی وجوہات جان پاتے۔ اٹکل پچو طریقے سے جو سیکھ سکتے اسی کے  سہارے صدیاں گزار دیتے جیسے کہ ماضی بعید میں گزارتے رہے۔
چونکہ ابھی تک مابعدالطبیعات کا بطور ایک مظہر یا وجود سراغ لگانا ممکن نہیں ہو پایا سو اسی لیے ہم اسے محض ذہن میں پیدا ہونے والاتصور ہی کہہ سکتے ہیں۔ اب معاملہ کچھ یوں ہے کہ معلوم کے برعکس نامعلوم یا غیب کی حالت فکس نہیں بلکہ سیّال جیسی ہوتی ہے جو جس قسم کے ذہن کے برتن میں پڑتا ہے اسی کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک خدا کے اتنے تصورات وجود میں آچکے ہیں کہ انھیں شمار میں لانا محال ہے جبکہ اس ورسیٹیلیٹی نے انسانوں کو ایسے دشمن گروہوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا جن میں صلح اور اتفاق کا کوئی امکان نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مذہبی ذہن کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے تصورات کے ساتھ روٹین میں بہت یقین اور اطمینان کے ساتھ جیتا ہے مگر جیسے ہی اسے کسی سوال کے جواب میں ان تصورات کو حقائق پر مبنی ثابت کرنے کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے، وہ کچھ دیر کے بعد ہی علمی اور عقلی دلائل کے ساتھ بات کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے اور تب اس کے پاس ایک ہی جواب بچتا ہے جو کچھ اس طرح ہوتا ہے۔ “ممکن ہے ایسا ہو یا ممکن ہے ویسا ہو یا پھر ایسا بھی تو ہوسکتا ہے۔” گویا وہ محکم یقین کی بجائے امکانات کے تنکوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوجاتا ہے اور تنکے بھی ایسے جو دلیل کے میدان میں کوئی ٹھوس حیثیت نہیں رکھتے ہوتے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply