• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سنو لیک ٹریک پر جان لیوا حادثہ، ذمّہ دار کون؟۔۔عمران حیدر تھہیم

سنو لیک ٹریک پر جان لیوا حادثہ، ذمّہ دار کون؟۔۔عمران حیدر تھہیم

ابنِ انشاء نے اپنے شہرہء آفاق مضمون “ابتدائی حساب” میں ایک دلچسپ طنزیہ بات لکھی تھی کہ “تقسیم کے قاعدے کا بہترین استعمال یہ ہے کہ حقوق اپنے پاس رکھو اور فرائض دوسروں میں تقسیم کر دو”
اگر غور کیا جائے تو ہمارے معاشرے میں اُوپر سے لیکر نیچے تک یہی ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر میدان میں لیڈر شپ کا فُقدان ہے۔ پاکستان میں کوہ پیمائی کے فروغ کےلیے قائم ادارے الپائن کلب آف پاکستان سے شاید ہی کوئی ادارہ زیادہ عضوِ مُعطّل ہوگا۔ اگر یُوں کہا جائے کہ ابنِ انشاء کی یہ طنزیہ بات الپائن کلب کا منشور بن چُکا ہے تو بےجا نہ ہوگا۔ اس برس کے۔ٹو کی سرمائی مُہم جُوئی کے حادثے سے لیکر بالتورو گلیشیئر کو سائیکل پر عبور کرنے کے بھونڈے مذاق پر بھی اگر الپائن کلب نہیں جاگا تو ان کے باقی ماندہ حمایتیوں اور بینیفشریز کو اب اس ادارے پر فاتحہ پڑھ لینی چاہیے، ہم تو کب کے پڑھ کے دفنا بھی چُکے۔

گُزشتہ چند برسوں سے پاکستان میں ماؤنٹین پاسز کی ٹریکنگ کرنے والے مشہور ٹریکرز کی سالہا سال کی محنت کے بعد حاصل کی گئی پے در پے کامیابیوں سے مُتاثر ہو کر کچھ سوشل میڈیائی مُہم جُو بھی ذاتی ستائش اور تشہیر کے مرض میں مُبتلا ہو کر ٹریکنگ کے میدان میں کُود پڑے ہیں۔ اُنہوں نے فیصل آباد کے مشہور ٹریکر ڈاکٹر احسن اختر کے نقشِ قدم پر چلنے کا شارٹ کٹ یہ اپنایا کہ بس فیس بُک پر چند ہم خیال اکٹھے ہوتے ہیں اور سنو لیک جیسے مُشکل ٹریکس پر جانے کی ٹھان لیتے ہیں اور وہ بھی بغیر ضروری تیّاری کے۔ یاد رکھیں دیگر شُعبہ جات کی طرح ٹریکنگ اور کوہ پیمائی بھی تھیوری اور پریکٹیکل کا امتزاج ہے۔ اگر آپ کے پاس اس کھیل سے متعلق مناسب علم نہیں تو اس میں کودنا نہ صرف حماقت ہے بلکہ جان لیوا بے وقوفی بھی ہے۔ اگر آپ فیصل آباد کی ٹریکنگ کمیونٹی سے واقعی مُتاثر ہیں اور ڈاکٹر احسن اختر کو آئیڈیلائز کرتے ہیں تو پھر آپکو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ فیصل آبادی گروپ کے پیچھے انکا تھنک ٹینک بھی موجود ہے جس میں ذیشان اور مُحمّد عبدہُ جیسے زیرک ریسرچرز موجود ہیں۔ جو ہر ٹریک سے متعلق انتہائی اہم معلومات جمع کرکے اُس کی فیزیبیلٹی دیکھتے ہیں۔ مہینوں پیپر ورک کرتے ہیں اور تب جا کر ٹریک کا عملی آغاز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹریکنگ کے میدان میں ان لوگوں کا فی الحال کوئی ثانی نہیں۔ اور اِدھر اُن سے انسپائرڈ لوگوں کا یہ عالم ہے کہ وہ صرف سوشل میڈیا پر ہی چِٹ چَیٹ کر کے ٹیم بناتے ہیں اور ٹریک کی صرف cast اور cost کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں اور بغیر کسی تربیت کے چل پڑتے ہیں۔ نتیجہ آپ لوگوں کے سامنے ہیں۔
اس سے قبل کہ مَیں حالیہ سنولیک کے حادثے کا تجزیہ کروں مَیں چاہوں گا کہ سب سے پہلے hardcore trekking سے متعلق اپنی گُزارشات پیش کروں۔

صحت اور فٹنس:
دوستو! سب سے پہلے آپ کو چھوٹے یا بڑے، آسان یا مُشکل ٹریک کی بحث سے نکل کر صرف یہ سوچنا ہے کہ ٹریکنگ ایک دیدنی سے نادیدنی یعنی seen سے unseen کی طرف جانے کا سفر ہے جو کسی بھی لمحے کسی بھی قدم پر جان لیوا ہو سکتا ہے، لہٰذا سب سے پہلے آپ نے اپنی صحت اور فٹنس کا جائزہ لینا ہے کہ کیا مَیری صحت اس ٹریک کےلیے مناسب ہے اور کیا میری جسمانی فٹنس اس ٹریک کےلیے معیاری ہے۔ صحت کا معیار جانچنے کےلیے اپنے وائٹل آرگنز (اعضائے رئیسہ) دل، جگر اور دماغ کا معائنہ کروائیں۔ کسی مُستند لیبارٹری سے اپنے دل سے متعلقہ lipid profile اور خون سے متعلقہ CBC ٹیسٹ کروائیں جگر کی رطوبتوں سے متعلقہ LFT ٹیسٹ اور گُردوں سے متعلقہ RFT ٹیسٹ بھی کروائیں۔ آجکل COVID کی بیماری کی وجہ سے آکسی میٹر بھی کافی عام ہو چُکا ہے جو آپکے آکسیجن سیچوریشن لیول کو چیک کرنے کےلیے ہے۔ اُسکا بھی استعمال کریں جو آپکی دماغی صلاحیت کو جانچنے کا بھی ایک پیرامیٹر ہے کیونکہ اگر آکسیجن سیچوریشن لیول درست ہے تو آپکے دماغ کو آکسیجن کی فراہمی بھی ٹھیک ہی ہو رہی ہوگی۔ اگر فٹنس کی بات کی جائے تو مَیں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ کسی بھی عُمر میں اگر آپکا BMI یعنی Body Mass Index آئیڈیل ہے تو آپ ٹریک کےلیے فٹ ہیں۔ تاہم اگر آپ پھر بھی جِم میں جا کر فٹنس حاصل کرنا چاہتے ہیں تو صرف ٹریڈمِل پر انکلائنڈ واک کم از کم 30 منٹس کےلیے کریں۔ زیادہ مَسلز بنانے کی ضرورت نہیں اور اُن کےلیے کوئی سٹیرائیڈز بھی ہرگز استعمال نہ کریں۔

ٹیم کا انتخاب:
ٹیم کا انتخاب ٹریکنگ کا انتہائی اہم جُزو ہے۔ آجکل کی سوشل میڈیائی نسل اس اہم بات کو نظرانداز کر رہی ہے کہ ٹیم بلڈنگ بھان مَتی کا کُنبہ جوڑنے کا نام نہیں ہے۔ یہ نہیں کہ آپ صرف انباکس میں گفتگو کر کے ٹیم بنا لیں اور ٹریک پر روانہ ہو جائیں۔ کسی بھی ٹریک کی کم از کم 6 ماہ پہلے کی پلاننگ ہونی چاہیے۔ اگر ٹیم ممبرز پہلے سے ایک ساتھ ٹریک کر چُکے ہیں اور اگر باہمی باڈی کیمسٹری اور مینٹل اٹیچمنٹ موجود ہے تو بہترین ہے وگرنہ پھر بہتر ہے کہ پہلے ٹیم ممبرز چند مُلاقاتیں کریں اور ہو سکے تو ایک وارم اپ ٹریک مثلاً مشکپوری، میرانجانی، مکڑا ٹاپ یا کوئی ایک اسٹیبلشڈ لیک ٹریک اکٹھے کر لیں اُسکے بعد بڑے ٹریک کے مشن پر جائیں۔

ٹیم لیڈر کا انتخاب:
ہمارے ہاں عام تصوّر یہی ہے کہ جس نے ٹریک کرنے کا آئیڈیا دیا ہے وہی پیسے جمع کرتا ہے اور ممبران کا واٹس ایپ گروپ بنا کر ٹیم لیڈر بن جاتا ہے۔ ٹریک کے خرچ کا حساب کتاب رکھنے والا اچھا مینیجر تو ہو سکتا ہے لیکن ٹریک کےلیے ٹیم لیڈر وہی ہونا چاہیے جس کے پاس اس متعلق سب سے زیادہ تجربہ، علم اور ٹریک کی جانکاری ہو۔ اس کے علاوہ اُس کے اندر ڈیزاسٹر مینجمنٹ سکِلز موجود ہوں۔ جو ہر قدم پر ہر سٹیج پر ممبرز کی حوصلہ افزائی کرنا اور ٹریک کے دوران اُنکی ذاتی صحت اور فٹنس سے متعلق مُشکلات حل کرنا جانتا ہو۔ اُسےمیڈیکل ایمرجنسی کو ٹریٹ کرنے کا ہُنر آتا ہو۔ فرسٹ ایڈ دینا جانتا ہو۔ ممبرز کی panic management کر سکتا ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ decision-making بہترین انداز میں کر سکے۔ ٹریکنگ اور کوہ پیمائی کے دوران فیصلہ سازی زندگی اور موت کے درمیان ایک حتمی لکیر ہوتی ہے۔ کب چلنا ہے، کب رُکنا ہے، کب واپس مُڑنا ہے یہ سب فیصلے زمینی حقائق اور معروضی حالات کے تحت کیے جاتے ہیں نہ کی ذاتی یا کسی ممبر کی خواہش پر۔ علاوہ ازیں ٹیم لیڈر کی اہم ذمّہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ متعلقہ ٹریک کے متعلق مُکمّل ریسرچ اور پیپر ورک یا تو خُود کرے یا اُس سے مُکمّل آگاہ ہو

ایکلائماٹائزیشن کے عمل سے مُکمّل آگاہی:
کسی بھی ٹریک پر جانے سے قبل تمام ممبران کو ایکلائماٹائزیشن سے متعلق مُکمّل آگاہی دینا ٹیم لیڈر کے اوّلین فرائض میں سے ایک ہے۔ ایکلائماٹائزیشن کیا ہے اس بارے میں مَیں نے کچھ عرصہ قبل ایک مُکمّل مضمون لکھا تھا جس کا عنوان “کوہ پیمائی میں بُلندی کے انسانی جسم پر اثرات” ہے جو آپکو میری فیس بُک پروفائل کی وال پر بھی مُیسّر ہے علاوہ ازیں اُردو ویب سائیٹ www.mukaalma.com پر بھی موجود ہے جس میں ہر چیز تفصیل سے درج ہے۔

موسمی تغیّرات سے متعلق جانکاری:
ٹیم لیڈر اور تمام ممبران کو موسمیات کی پیشین گوئیوں اور ہر لمحہ تغیّر پذیر ہوتے موسمی حالات سے متعلق مُکمّل جانکاری ہونی چاہیے۔ پہاڑوں پر آنے والی قُدرتی آفات مثلاً برفانی طوفان (snow storm), برفانی جھکّڑ (Blizzard), برفانی کھائیوں (crevasses and bergschrunds) اور برفانی سیلاب (Avalanches) کے بارے میں مناسب معلومات ہونی چاہییں۔

ٹریکنگ اور کوہ پیمائی کی بُنیادی تربیت:
ٹریکنگ اور کوہ پیمائی کےلیے وضع کی گئی بین الاقوامی معیار کی بُنیادی تربیت جس میں
Rope Management
Basic Climbing Knots
Usage of Harness, Carabiner, Crampons and Ice-Axes
Glacier Travel
Anchor Building
Rope Fixation
اور Path Navigation شامل ہے ان سب کی بُنیادی تربیت ضرور حاصل کرنی چاہییے۔

ٹیم لیڈر کی حُکم عدولی سے اجتناب:
یاد رکھیں اگر آپکا ٹیم لیڈر مندرجہ بالا تمام اہم مراحل سے گُزار کر بنایا گیا ہے اور پُوری ٹیم کا متفقّہ ہے تو پھر ٹیم لیڈر کی حُکم عدولی ٹریکنگ اور کوہ پیمائی میں ایک criminal act کے ساتھ ساتھ جان لیوا بھی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اگر ٹیم لیڈر اپنے فیصلے صادر کرکے اُن پر عملدرآمد نہیں کرواتا تو یہ ٹیم لیڈر کی جانب سے مجرمانہ غفلت یعنی criminal negligence شُمار ہوتی ہے اور قابلِ مواخذہ ہے۔
یہ تو تھا ٹریکنگ کی مُہم جُوئی سے متعلق چند ضروری گُزارشات۔ اب آتے ہیں سنو لیک ٹریک پر ہونے والے حالیہ حادثے کی طرف جس میں طلحہ شکیل نامی ایک ٹریکر کی موت واقع ہوئی۔

فارسی کی ایک کہاوت ہے کہ ” عُذرِ گُناہ بدتر ازگُناہ”. میرے سمیت تمام ٹریکنگ کمیونٹی کو اس حادثے کے اصل اسباب معلوم ہی نہ ہو پاتے اگر اس مُہم جُوئی کے ٹیم لیڈر سرمد علی سیّد اپنی ایک ویڈیو اپلوڈ نہ کرتے۔ دو دن قبل مَیں نے وہ ویڈیو دیکھی تو افسوس ہوا کہ ایک انسانی جان کو کتنا ارزاں سمجھ کر محترم ٹیم لیڈر صاحب چشمے چڑھا کر اور بن سنور کر اپنی جہالت کا سرِعام پرچار کر رہے ہیں۔ یہ ویڈیو بیان دراصل موصوف کے اپنے خلاف ہی ایک چارج شیٹ ہے۔ اس ویڈیو بیان کو سُن کر ٹریکنگ کمیونٹی کےسنجیدہ حلقوں کے اندر یقیناً ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ کس بھونڈے انداز سے ہمارے مُلک میں شُترِ بےمُہار کی طرح ٹریکنگ کی جارہی ہے اور متعلقہ ادارے اس بابت اب بھی قانون سازی کرنے کی بجائے چُپ سادھے بیٹھے ہیں۔

محترم سرمد سعید صاحب سے میرے اُنکے اپنے ویڈیو بیان سے اخذ شُدہ چند بُنیادی سوالات ہیں جن کے جوابات شاید وہ عُمر بھر نہ دے پائیں
1. بطور ٹیم لیڈر کیا آپ کے پاس سب ممبران کی ہیلتھ پروفائل سے متعلق معلومات موجود تھیں جو آپ نے تحریری شکل میں ہر ممبر کے نام کیساتھ جمع کر کے رکھی ہوں تاکہ اُسے اُسکے ہیلتھ ایشوز کے مطابق ٹریٹ کیا جا سکے

2. آپ نے بتایا کہ فلاں کیمپ سائیٹ پر طلحہ شکیل پر سانس لینے میں دُشواری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں تو پھر آپ نے اُنہیں ایکلائماٹائزیشن کے یونیورسل رہنما اُصول “Climb High, Sleep Low” کے تحت ایکلائماٹائزیشن روٹیشن پر عمل کیوں نہیں کروایا۔

3. کیا آپکو اس بارے میں علم تھا کہ جس ٹریکر کو hypoxia یعنی آکسیجن کی کمی کا مسئلہ درپیش ہو اُسے کچن ٹینٹ میں نہیں بٹھاتے کیونکہ آگ سے ہونے والی گیسوں اور دھوئیں کا اخراج مریض کے پھیپھڑوں کے air sacs کو مزید congested کر دیتا ہے اور آکسیجن کی سپلائی کو مزید کم کر دیتا ہے۔

4. کیا آپ کو علم تھا کہ hypoxia کا علاج صرف quick descending ہے اور ایسے مریض کو مزید بُلندی پر لے جانا confirm death ہوتی ہے

5. کیا آپ نے ایمرجنسی استعمال کےلیے supplemental oxygen کا سلنڈر اور ماسک اپنے پاس کیوں نہیں رکھے اور اگر رکھے تو استعمال کیوں نہیں کیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مُجھے سو فیصد یقین ہے کہ آپ کے پاس ان تمام سوالوں کے جوابات بالکل نہیں ہونگے۔ اور اس لحاظ سے آپ مجرمانہ غفلت کے مُرتکب ہوئے ہیں۔ اگر آپ نے یہی جُرم کسی یورپی مُلک میں کیا ہوتا تو وہاں آپکے خلاف کیس دائر ہو جاتا اور آپکا پہاڑوں میں داخلہ ہمیشہ کےلیے بند کرکے آپ کی ممبرشپ کینسل کر دی جاتی۔ لیکن آپ خُوش قسمت ہیں کہ آپ پاکستانی پیں جہاں انسانی جان کا خراج محض ایک پوسٹ یا کمنٹ میں ” انا للہ و انا الیہ راجعون” کہہ کر دُعائے مغفرت کرنے اور حُکم ربّی کہنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ موت کا وقت اور مقام متعیّن ہے لیکن کیا موت کے وقت اور معیّن مقام تک صحت مندی اور تکلیف کے بغیر پہنچنا انسانوں کے اختیار میں نہیں؟ طلحہ شکیل کی زندگی اتنی ہی تھی اور اُس نے اسی جگہ جا کر مرنا تھا لیکن اُنہیں یہاں تک پہنچانے کے دوران اُسکی زندگی کے آخری دو تین دن کی تکلیف کے سرمد علی سیّد ذمّہ دار ہیں یا پھر وہ محکمے اور ادارے جن کے ذمّے پاکستان میں سیاحت و کوہ پیمائی کے شُعبے کو ریگولیٹ کرنا ہے، اس بات کا فیصلہ مَیں اپنے تمام قارئین پر چھوڑتا ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply