آہ! مولانا وحیدالدین۔۔سعید چیمہ

کچھ سگِ آزاد ہیں جو ہر تعزیت کے موقع پر باز نہیں آتے، جو جبلت سے مجبور ہیں، دکھ اتنا ہے کہ بیان سے باہر ہے، آنکھوں سے برسات ہوئی جاتی ہے، مولانا وحید الدین خان انتقال فرما گئے، تعصب کا ایک تالا ہمارے دماغ پر پڑا ہوا تھا، اپنے ہی کنوئیں کے مینڈک تھے، سوچنے کی صلاحیت بہت محدود تھی، مولانا کو پڑھنا شروع کیا تو ایک نیا عالم آشکار   ہوا، “مذہب اور سائنس” پہلی کتاب تھی جو پڑھی، جس کے متعلق انجنیئر محمد علی مرزا کہتے ہیں کہ اگر برٹرینڈ رسل بھی یہ کتاب پڑھ لیتا تو ایمان لے آتا، مولانا نثر نگار بھی خوب تھے، ہر واقعے میں سے عبرت کا پہلو نکال لیتے تھے، ان کی وفات نے ایسا ستم ڈھایا ہے کہ جگر خون ہوا چاہتا ہے، مولانا ایسا صبر بھلا کون کر سکتا ہے، ان کی زندگی میں ہی ان کو ایجنٹ کہا جاتا تھا، مگر مجال ہے جو مولانا نے ایسی کسی گٹھیا بات کا جواب دیا ہو۔

آج صبح کوئی ان کو سرکاری مولوی کہہ رہا تھا، جب کسی کی عقل پر تعصب کا پردہ پڑ جائے تو حق واضح نہیں ہوتا، موصوف سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے مولانا کی کوئی تحریر پڑھی ہے، فرمانے لگے کہ ضرورت ہی نہیں ہے، لوگوں کا رحجان دیکھیے کہ مولانا کو بنِا پڑھے فتوے صادر کر رہے ہیں، یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی جج کیس سنے بغیر ہی فیصلہ صادر کر دے، ویسے بھی مولانا نے ساری زندگی کبھی مولوی ہونے کا دعویٰ  نہیں کیا۔

دکھ اور بھی زیادہ ہو گیا جب لوگ ان کی شخصیت پر حملہ آور ہوئے، لوگ خوب جانتے ہیں کہ دلیل کے میدان میں مولانا کو شکست نہیں دی جا سکتی اس لیے بہتر ہے کہ ان کی شخصیت کو ہی نشانہ بنایا جائے۔

جی بہت چاہ رہا تھا کہ ایسوں کی دل کھول کر تواضع کی جائے، پھر خیال پیدا ہوا کہ سگوں کے چاند کی طرف منہ کر کے بھونکنے سے چاند کی خوبصورتی پر تو کچھ حرف نہیں آتا، الٹا سگوں کے اپنے حلق ہی خشک ہو جاتے ہیں اور وہ تھک ہار کر منہ لٹکائے دوڑتے پھرتے ہیں۔

مولانا نے جب ساری زندگی ایسوں سے احتراز برتا ہے تو کیسے ممکن ہے وہ شخص جو خود کو مولانا کا شاگرد سمجھتا ہے، جس نے مولانا کی کتابوں سے فیض حاصل کیا ہے وہ مولانا پر ہونے والے ذاتی حملوں کا جواب دے کر وقت ضائع کرے۔

گزشتہ صدی میں مسلمانوں میں دو مفکر پیدا ہوئے ہیں، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا وحیدالدین خان، لیکن یہ دونوں جلیل القدر شخصیات نظریات  کے معاملے میں ایک سو اسّی ڈگری پر کھڑی ہیں، سید مودودی نے اسلام کی سیاسی تشریحات کیں، اب سید صاحب کی تحریروں کا جواب دینا آسان نہ تھا، کیوں کہ مصر سے سید قطب بھی مولانا مودودی کے ہم نوا تھے، مگر مولانا وحیدالدین نے جب قلم اٹھایا تو مخالفوں کے نظریات کے پرخچے اڑا دیے۔

جاوید احمد غامدی درست کہتے ہیں کہ مولانا اپنی ذات میں ایک امت تھے، مسلمان جو ردِ عمل کی نفسیات میں جی رہے تھے، جن کی سوچ تخریب کارانہ تھی، مولانا نے اس طرف توجہ دلائی کہ مسلمانوں کی سوچ  تعمیری  ہونی چاہیے، اور مسلمانوں کو اب ردِ عمل کی نفسیات سے باہر آنا چاہیے، اس پیغام کو ربع صدی مولانا دہراتے رہے، ظلمت کدے میں فقط ایک چراغ روشن تھا، مگر روح کے جسدِ خاکی سے پرواز کرنے سے موت کب آتی ہے، موت تو صرف جسم کو آتی ہے، نظریات بھلا کب مرتے ہیں،  مولانا نے جتنا لٹریچر تحریر کیا ہے شاید دس آدمی سو سالوں میں اتنا  ادب تحریر نہ کر سکیں، ادب اور مذہب کو جس طرح یکجا مولانا نے کیا ہے، بے مثال ہے، تحریریں مولانا کی ایسی پُر اثر ہیں کہ قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

مولانا جب کوئی واقعہ بیان کرتے ہیں تو سامع اور قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے، مولانانے فقیرانہ زندگی بسر کی، تمام سادہ کپڑے  پہنے، سر پر معمولی کپڑے کی پگڑی، مولانا   ایسی خدمت اسلام کی شاید کوئی بھی نہ کر سکے، مولانا اکثر کہا کرتے تھے کہ میرے لیے زندگی اس دن شروع ہو گی جب خدا تعالیٰ اساب کا پردہ پھاڑ کر مخلوق کے سامنے ظاہر ہوں گے، اور میں حیرانگی اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اپنے رب کا دیدار کروں گا، شاید مولانا کے لیے ہی شاعر نے کہا تھا کہ

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply