عرفان جاوید کا عجائب خانہ۔۔ایازمورس

اردو ادب میں اگر اس وقت چند لکھاریوں کی فہرست بنائی جائے جو اردو ادب کو اس عہد میں زندہ و جاوید رکھے ہوئے ہیں تو ان میں عرفان جاوید کا نام سرِفہرست ہو گا۔وجہ بڑی سادہ اور آسان ہے۔عرفان جاوید کا طرز ِتحریر، انداز بیان اور موضوعات کا انتخاب اُنہیں منفرد بناتا ہے۔عرفان جاوید کو پڑھنے کیلئے آپ کو محنت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔آپ کو صرف ان کے ساتھ اس سفر کا آغاز کرنا ہوتا ہے باقی ساری محنت عرفان جاوید خود کرتے ہیں۔

وہ دُنیا بھر کے مفکرین، ماہرین اور مصنفین سے آپ کی ملاقات کرواتے ہوئے آپ کو اتنے دلچسپ انداز میں علم، سوچ وفکر اور شعور کی دُنیا میں لے جاتے ہیں جہاں آپ ان کی مہارت کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتے۔بالکل ایک جادوگر کی طرح جو اپنے فن سے آپ کو سحر  میں جکڑ  لیتاہے۔لیکن عرفان جاوید کا فن یہ ہے کہ یہ آپ کو اپنے سحر میں قید نہیں کرتے بلکہ آپ کو اپنے محدود حلقے سے نکال کر وسیع دُنیا میں آزاد چھوڑتے ہیں۔

آج میرے ہاتھ میں عرفان جاوید کی چند ماہ قبل شائع ہونے والی کتاب ”عجائب خانہ“ ہے جس کے بارے میں مَیں اپنی رائے کا اظہار کروں گا۔اس کتاب کی اشاعت کے کئی ماہ بعد اس پر کالم لکھنے کی دو وجوہات ہیں۔ایک تو میری کئی ماہ سے کراچی سے باہر کی مصروفیات تھیں جس کی وجہ سے اس کتاب کو بطور تحفہ عرفان جاوید سے موصول ہونے کے باوجود نہیں پڑھ سکا۔ دوسری وجہ جب میں نے عرفان جاوید صاحب کو کتاب موصول ہونے کے بعد شکریہ کیلئے فون کیا اور وعدہ کیا کہ میں جلد کتاب پڑھ کر اپنے خیالات کا اظہار کروں گا تو اُنہوں نے کہا کہ ”ایازمیں نے یہ کتاب 4سے 5سال کی محنت اور ریسرچ کے بعد لکھی ہے اس لئے آپ اس کتاب کو آرام سے اور تسلی کے ساتھ پڑھیں تاکہ آپ کو میرے کتاب لکھنے کا مقصد سمجھ آسکے “۔عرفان جاوید نے اپنی طبیعت کے برعکس دعویٰ  کیا کہ اگر آپ نے اس کتاب کو مکمل پڑھ لیا تو پھر آپکو کو ئی بھی کتاب مشکل نہیں لگے گی۔یقین مانیے مجھے اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یہ احساس رہتا تھا کہ میں ایک سنگ میل طے کررہا ہوں۔آج یہ الفاظ لکھتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ عرفان جاوید نے واقعی ہی اس کتاب پر بہت محنت کی ہے۔

عجائب خانہ میں عرفان جاوید نے دُنیا کی دل چسپ،علمی وفکری،چشم دیدہ ونادیدہ حقیقتوں کو بڑی مہارت سے قلم بند کیا ہے۔
264صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایک مکمل عجائب خانہ ہے۔علم،فکر،حکمت،زندگی اور شعور کی دُنیا کا عجائب خانہ اور عرفان جاوید اس عجائب خانے کا شہنشاہ ہے۔
ادب انسان کو مرنے کہاں دیتا ہے۔یہ قبروں میں جانے کے بعد دلوں اور ذہنوں میں زندہ رہتا ہے۔عرفان جاوید قاری کو روایت سے ہٹ کر جدت کی ایسی بلند یوں کی سیر کرواتے ہیں،کہ قاری کئی ہزارسالوں کا سفر چند لمحوں میں طے کر لیتا ہے۔ان کی کتاب کا مطالعہ کرنے کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ انسان کئی ایسے عہدوں میں جا سکتا ہے جہاں وہ رہ نہیں سکتا ہے۔

عرفان جاوید نے ایک خوبصورت اور قابلِ تقلید روایت کوقائم کیا ہے جس کی ہمارے ہاں بہت شدت سے ضرورت ہے۔اُنہوں نے ہر موضوع سے قبل مفکرین،ماہرین اور مصنفین کی رائے کو بڑی عمدگی اور ایمانداری کے ساتھ پیش کیا ہے اور ہر جگہ اپنی دانشوری کو ثابت کرنے کی بجائے اپنا نقطہ ء نظر بیان کیا ہے اور حوالوں کا خصوصی ذکر کیا ہے جس کا ہمارے ہاں بالکل بھی خیال نہیں رکھا جاتا۔ہمارے ہاں یہ سلسلہ چل نکلا ہے کہ کسی بھی دوسری زبان کے مصنف کے کام کا اردو میں ترجمہ کرو اور بغیر کسی اجازت اور حوالے کے اپنے نام سے چھاپ دو۔کتاب میں مجھے بے شمار حوالے،واقعات،تجربات اور فقرے پسند آئے ہیں کہ اگر اُنہیں یہاں لکھوں تو آدھی کتاب بن جائے گی۔

اس کتاب کو اُنہوں نے اپنی بیٹی کے نام منسوب کیا ہے جو ایک باپ کی اپنی بیٹی سے محبت کی عمدہ مثال ہے۔کتاب میں دس انتہائی اہم،دلچسپ اور شاندارموضوعات شامل ہیں۔مجھے تو سارے ہی پسند ہیں لیکن

زندگی کی گود سے زندگی سے سیکھے سبق
خیال کہاں سے آتا ہے؟
اخبارمیں لپٹی بوتل،جنس-زندگی،فن و ادب
فکشن کیوں پڑھا جائے؟“بہت ہی زیادہ پسند ہیں۔
میں نے تقریباًہر دوسرا صفحہ رنگین کیا ہوا ہے لیکن پھر بھی میر ے پسند یدہ چند فقرے آپ کے ساتھ شیئر کررہا ہوں۔

”دُنیا میں بے شمار لوگ اپنے انوکھے اور یادگار تجربات قبر میں لے کر چلے جاتے ہیں۔بعض اوقات صحافیوں اور ادیبوں کی نسبت عام لوگوں کے پاس بیش بہا منفرد خیالات،تجربات،مشاہدات اور تجزیات ہوتے ہیں۔“(صفحہ36)

”کامیاب لوگوں کی زندگیوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اُنھیں زندگی کے فیصلہ کن مراحل میں کوئی ہمدرد راہ نما،شفیق استاد،مہربان ہم سایہ یا زندگی میں تحفتاً مٹھی بھر ملنے والے خوش نصیب لمحات میں سے کوئی ایک ایسا لمحہ نہ صرف میسر آجاتاہے بلکہ وہ اسے پہچاننے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں جو انھیں مادی یا روحانی و ذہنی کامیابی و کامرانی تک لے جاتا ہے۔“(صفحہ105)
”ویسے تو متعلقہ ماہرین نے یہ انکشاف بھی کیا کہ جس شخص کا دماغ جتنا زیادہ بے ترتیب خیالات کی آماجگاہ اور افراتفری کا شکار ہو گا اُس کے تخلیقی ہونے کا امکان اتنا زیادہ ہوگا۔یعنی ہربے ترتیب خیالات کا حامل شخص تخلیقی نہیں ہوتا مگر تخلیقی ذہن کا مالک آدمی بے ترتیب خیالات ضرور رکھتا ہے۔“(صفحہ139)

Advertisements
julia rana solicitors london

”زوال پذیر لوگوں میں فن پارے کو وحدت میں نہیں دیکھا جاتابلکہ وہ ”اسے مختلف ٹکڑوں کا مجموعہ سمجھنے لگتے ہیں۔“ہر حصے کو علیحدہ طور پر دیکھاجاتا ہے۔
آرٹ اور ادب رُوح سے پھوٹتے ہیں۔یہ جسم سے ماورا معاملہ ہے۔“(صفحہ 178)
آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر آپ انسانی نفسیات،پاکستانی سماج،ہمارا مزاج اور کام کرنے کا انداز سمجھا ناچاہتے ہیں تو عرفان جاوید کے عجائب خانے میں تشریف لے جائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply