جھگڑا نصاب کا۔۔کامران ریاض اختر

اکثر اوقات یہ شکایت کی جاتی ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب نفرت پھیلاتا ہے – خصوصاً مطالعہ پاکستان کے نصاب کو ہندوؤں اور بھارت سے دشمنی کے جذبات ابھارنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ہم تاریخ کو اپنے زاویے سے پڑھاتے ہیں۔ یہ اعتراض درست ہے اور بالکل اسی قسم کے اعتراضات چین اور کوریا کے نصاب میں جاپانی فوجی قبضے کے تذکرے، امریکی نصاب میں برطانیہ سے جنگ آزادی، اتحادی ممالک کے نصاب میں عالمی جنگوں میں محوری طاقتوں کے کردار کے بارے میں بھی کیے جا سکتے ہیں۔۔  لیکن فی الوقت نصاب کے قضیے کو اپنے ملک تک محدود رکھتے ہوئے چشم تصور سے یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ معترضین کے موقف کے مطابق نصاب کو تبدیل کرنے کے بعد کیا صورت بنے گی۔

ہمارے نصاب کے اندر شامل جس مواد کو ہندوؤں اور بھارت کے خلاف نفرت پھیلانے کا باعث کہا جاتا ہے اسے نکالنے کے بعد ہم بچوں کو جو تاریخ پڑھا رہے ہوں گے ، وہ کچھ اس قسم کی ہو گی :

برصغیر میں اسلام کی آمد

آٹھویں صدی عیسوی کے آغاز میں سندھ پر راجہ داہر کی حکومت تھی، داہر بڑا مہمان نواز تھا، سراندیپ سے مسلمان خاندانوں کا ایک بحری جہاز عرب کے لئے  روانہ ہوا، سندھ کے ساحل کے قریب سے گزرتے ہوئے راجہ داہر کے آدمیوں نے جہاز کو عزت و احترام سے روک لیا اور مسافروں کو شاہی مہمانداری سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا۔ عرب کے حکمرانوں کو ایک آنکھ نہ بھایا کہ راجہ داہر کی سخاوت اور مہمان نوازی کا شہرہ چار دانگ عالم میں ہو، لہٰذا انہوں نے محمد بن قاسم کی سرکردگی میں سندھ فتح کرنے کے لئے فوج بھیج دی۔

برصغیر میں اسلام کا فروغ کیسے ہوا

اسلام کی آمد سے پہلے موجودہ پاکستان کے علاقوں میں ہندوؤں کی اکثریت تھی – ہندومت بہت ہی کشادہ ظرف اور وسیع المشرب مذہب ہے جس میں نہ صرف ہر انسان کی ایک جیسی تکریم کی جاتی ہے بلکہ لوگوں کی “پروفیشنل ڈویلپمنٹ” کا خصوصی خیال رکھتے ہوئے انہیں “جاب ٹریننگ” کی غرض سے مختلف ذاتوں میں بھی بانٹا جاتا ہے۔ہندومت کی ان خصوصیات کی بنا پر اسلام کی آمد سے قبل یہاں کے لوگ مذہبی اور سماجی طور پر بہت مطمئن تھے، لیکن اسلام نے یہاں جو نئی چیز متعارف کروائی وہ قوالی کا فن تھا، چونکہ مقامی لوگ موسیقی کے بہت رسیا تھے لہٰذا وہ قوالی کے ساز و آہنگ سے بہت متاثر ہوئے اور ان میں سے اکثر قوالی سے بہتر طریقے سے لطف اندوز ہونے کے لیے مسلمان ہو گئے۔

اسلام کے فروغ کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ چونکہ مقامی لوگ نہایت رقیق القلب واقع ہوئے تھے لہٰذا یہ سوچ کر کہ کہیں عرب حملہ آور اجنبیت کا شکار نہ ہو جائیں، ان میں سے کئی نے اسلام قبول کر لیا اگرچہ ان کو ہندومت سے قطعاً کوئی شکایت یا مسئلہ نہیں تھا۔

مسلم لیگ کا قیام

1885 میں انڈین نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں آیا، اگرچہ کانگریس میں زیادہ تعداد ہندوؤں کی تھی لیکن وہ مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہوئے ان کے مسائل پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ لیکن مسلمان رہنماؤں کی اکثریت گائے کا گوشت کھانے کی بہت شوقین تھی، چونکہ کانگریس کے جلسوں میں انہیں بیف سینڈوچ دستیاب نہیں ہوتے تھے اس لئے انہوں نے ایک علیحدہ جماعت مسلم لیگ بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ گوشت خوری کا شوق پورا کیا جاسکے۔

تحریک آزادی اور قیام پاکستان

برصغیر میں ہندو مسلم ہمیشہ بھائی بھائی بن کر رہے ہیں۔ انگریز کے دور حکومت میں بھی دونوں یک جان دو قالب ہوتے تھے اور ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ سب لوگ گاندھی جی کی بے لوث قیادت میں متحد ہو کر آزادی کی جدوجہد کر رہے تھے۔ ایک صاحب ہوتے تھے محمد علی جناح نام کے، جن کا مشغلہ سگار پینا اور بلیرڈ کھیلنا تھا۔ایک دن وہ گھر بیٹھے بیٹھے بور ہو گئے تو اچانک ان کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ ایک نیا ملک بنایا جائے، اچھا شغل رہے گا، چونکہ مسلمان ہمیشہ سے “ایڈونچر اور تھرل” کے شوقین رہے ہیں اس لیے دیگر مسلمانوں کو بھی جناح صاحب کا یہ خیال پسند آیا۔ہندوؤں نے بہت سمجھایا کہ انگریز کے جانے کے بعد حکومت تو آپ مسلمانوں نے ہی کرنی  ہے، ہم ہندو تو بس مندروں میں بھجن گایا کریں گے ۔ پیر پڑے، التجائیں کیں کہ ایسا نہ کریں، لیکن گوشت خوری کی وجہ سے مسلمانوں کے دل سخت ہو چکے تھے لہٰذا اپنی ضد پر قائم رہے،بالآخر ہندوؤں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس سے نقصان آپ کا ہی ہو گا، لیکن اگر آپ مسلمان اسی میں خوش ہیں تو یونہی سہی ، چنانچہ پاکستان کے نام سے ایک نئے ملک کا قیام عمل میں آیا۔

قیام پاکستان اور ہجرت

پاکستان بنا تو جو علاقے پاکستان میں شامل نہیں ہوئے تھے وہاں کے مسلمانوں کے دل میں خیال آیا کہ ہم بھی پاکستان جا کر رہتے ہیں۔ گرمیوں میں سیر سپاٹے کے لیے جانا ہو تو یورپ قریب پڑے گا۔چنانچہ وہ بھی اپنا مال اسباب باندھ پاکستان روانگی کے لیے تیار ہو گئے، ہندوؤں نے بہت منتیں کیں، زار زار روۓ کہ ظالم کیا کرتے ہو، ہمیں چھوڑ کر کہاں جاتے ہو،لیکن مسلمان ٹھہرے سدا کے ضدی، نہ مانے،آخر دل پر پتھر رکھ کر ہندوؤں نے بڑی محبت سے مسلمان مہاجروں کے سفر کے انتظامات کئے اور انھیں اپنی حفاظت میں اس احتیاط سے پاکستان تک پہنچایا کہ کسی کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

٭امید ہے کہ اس طرح کے وسیع المشرب اور روشن خیال نصاب کے تحت تعلیم حاصل کرنے والی نسل تاریخ کو صحیح طریقے سے جان سکے گی اور انتہا پسندی کا مکمل خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو گی۔

Facebook Comments

کامران ریاض اختر
پیشہ: تزویراتی مشاورت ، شغل: جہاں گردی ، شغف: تاریخ عالم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply