• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کا اسٹیکرلگاؤ مہم، اورخطے کے سُلگتے مسائل /شیر علی انجم

چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کا اسٹیکرلگاؤ مہم، اورخطے کے سُلگتے مسائل /شیر علی انجم

چیف سیکرٹری گلگت بلتستان نےحال ہی میں ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت تمام سرکاری افسران،مختلف محکموں کے ہیڈ کے زیراستعمال بڑی اور قیمتی گاڑیوں پرسٹیکر لگائیں، جس پر لکھا ہے  کہ یہ گاڑی عوامی ملکیت ہے۔ اسٹیکرز لگے بڑی بڑی لگژری گاڑیاں دیکھ کر سوشل میڈیا پر اس حوالے سے  خوب بحث تکرار جاری ہے ۔لوگ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ ان گاڑیوں پر عوامی ملکیت کا اسٹیکرز لگانے کے بعد کیا ایسا ممکن ہوگا کہ یہ بڑی اور قیمتی گاڑیاں عوام کیلئے بھی قابل استعمال ہونگی؟یا اُن اضلاع میں جہاں آج بھی سرکاری سطح پر ایمبولینس جیسی بنیادی سہولت میسر نہیں ہے اُ س ڈسٹرک کےاسسٹنٹ کمشنر،ڈپٹی کمشنر کی گاڑیاں ایمبولینس کے طور پر استعمال میں لایا جا سکے گا؟    یقیناً ایسا نہیں ممکن، بلکہ اس قسم کی باتیں اُن سرکاری اشرافیہ کے سامنے کرنا جرم تصور ہوگا۔ ایسے میں اس قسم کی بچگانہ حرکتیں بیوروکریسی کا  بیوقوفانہ اقدام ہے  جو آج  اکیسویں صدی میں بھی گلگت بلتستان کے عوام کو بیوقوف  اور سادہ لوح سمجھتے ہیں۔لہذا چیف سیکرٹری کو اپنی اصل ذمہ داریوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس کیلئے اُنکو  اسلام آباد  میں اچھی تنخواہ اور مراعات  ملتی  ہیں۔

اس وقت خطے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنا اولین مسئلہ ہے لیکن حکومت نے انٹرنیٹ سروس بند کرکے اس وباء سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی  ناکام کوشش کی، حالانکہ خطے کی صورتحال آج بھی اس حوالے سے انتہائی قابل تشویش ہے، قاضی نثار کوہستان تک سے لشکر تیار کر رہا ہے، اُدھر بلتستان سے کارگل جانے کی دھمکیاں آرہی ہیں ۔اگرچہ پاکستان میں فرقہ ورانہ گریٹ گیم ضیاء الحق کی مرہون منت ہے ۔ جنہوں نے مُلک کو فرقوں کی بنیاد پر تقسیم کیا، مذہبی انتہاء پسند طبقے کی خوب پشت پناہی کی، جس کے نتیجے میں ہزاروں انسان متاثر ہوئے اورگلگت بلتستان بھی آج تک اس آگ میں جل رہا ہے۔

چند ماہ قبل پاکستان کی  قومی اسمبلی میں توہینِ  صحابہ بل کے نام سے ایک بل پاس ہُوا ، جسے بعد میں صدر پاکستان نے اعتراض لگا  کر واپس کردیا۔ اس بل کو لانے والوں کی تاریخ اگر پڑھیں تو انکی بھی کڑیاں ضیاء الحق سے ملتی ہیں ، اور پاکستان  میں مذہبی انتہاء پسندی کے روح رواں کی جانب سے باقاعدہ طور پر کہا گیا کہ ہم نے جماعت اسلامی کے ذریعے بل جمع کرایا ،یہ الگ بات ہے بل مسترد ہوگیا۔اگر یہ بل مسترد نہیں ہوتے تو آج پورے پاکستان کا وہی حال ہونا تھا جو گلگت بلتستان کا ہے۔ اس بل پر جہاں اہلسنت حنفی، بریلوی اور معتدل دیوبند مکتب فکرکو اعتراض ہے وہیں اہل تشیع نے بھی شدید خدشات کا اظہار کیا اور اس بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کے ذریعے لانے کا مطالبہ کیا۔لیکن گلگت بلتستان میں اس بل کی آگ پہلےسے لگ گئی اور سکردو میں ایک شیعہ عالم دین نے نجی محفل میں اپنے عقیدے کا اظہار کیا، ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ،حالانکہ اس حوالے سے  بخاری شریف صحاح ستہ جیسے اہل سنت کی معتبر کتابوں میں تمام تفصیلات درج ہیں، مولانا سید ابواعلیٰ موودی کی کتاب خلافت اور ملوکیت  میں جو کچھ درج ہے وہ قابل بیان بھی نہیں۔لیکن اہل تشیع کا بنیادی عقیدہ ہے کہ وہ بنو امیہ کو نہیں مانتے اور اس بات کا یہ لوگ برملا اظہار کرتے ہیں اور تاریخ اسلام میں اس حوالے سے سب کچھ لکھا  ہوا  ہے۔

البتہ گلگت بلتستان میں مختلف عقائد کے لوگ بستے ہیں اُن کے عقیدے کا احترام   نا  صرف اسلا م کا حکم ہے بلکہ معاشرے کی ضرورت اور مجبوری ہے۔ ایسا نہ کرنے سے ہم نے دیکھا کہ چلاس سے اعلانِ جنگ  ہوگیا، شاہراہ قراقرم سے اہل تشیع کو نہ گزرنے اور ماضی کے واقعات  دہرانےکا یاد دلایا ، گلگت بلتستان امام مہدی   کی شان میں گستاخی ہوئی۔ ان تمام معاملات کے دوران   چیف سیکرٹری کی  زیادہ تر توجہ لڑکیوں کے کالجوں اور عورتوں کے پروگراموں   پر  مرکوزرہی ۔ حالانکہ اُن کی ذمہ داری تھی کہ پاکستان بھر سے مختلف مسالک کے جید علما  اور مذہبی سیاسی دانشوروں کو دعوت دیتے، گلگت بلتستان میں بین المسالک ہم آہنگی کیلئے گرینڈ جرگے کا انعقاد کرتے۔ لیکن ایسا نہیں کیا اور نہ کرنے سےسیاحت پر بہت زیادہ منفی اثر پڑا، جو پہلے ہی عدم توجہی کے سبب خستہ حالی کا  شکار ہے،

گلگت بلتستان دنیا میں سیاحت کے حوالے سے وہ خوبصورت خطہ  ہے،جہاں سو فیصد قدرتی سیاحت کے ہزار فیصد مواقع موجود ہیں۔لیکن بدقسمتی کہ  بے اختیارا سمبلی اور باختیار بیوروکریسی کے درمیان اس خطے میں آج تک معاشی انقلاب نہیں آسکا۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم اور روزگار کیلئے یہاں سے شہروں ،خاص طور کراچی کی طرف ہجرت میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے اور کراچی کی کچی آبادیاں منی گلگت بلتستان بن گئی  ہیں ۔ کاش چیف سیکرٹری کو  اس بات کا بھی ادارک ہوتا  کہ انفراسٹرکچر  کی بحالی آج بھی سنگین مسئلہ ہے اور اسکا ثبوت اُن سرکاری افسران کے بنک بیلنس عالیشان عمارتیں،لگژری لائف  اسٹائل ہے، سڑکوں  کی تعمیر  ہو یا سرکاری بلڈنگ بنانے کا عمل، مقامی پٹواریوں اور متعلقہ ادارے کے افسران کی ملی بھگت سے   جعلی معاوضوں کا حصول کم ازکم ضلع کھرمنگ کی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ  باقاعدہ کاروبار بن  چکا  ہے۔یقیناً دیگر اضلاع کا بھی یہی حال ہے۔

شاہراہ بلتستان کو تعمیر ہوئے ابھی چند سال گزرے  ہیں،  لیکن یہ شاہراہ آج بھی عوام کیلئے درد سر بنی  ہوئی ہے، معمولی بارش سے اس سڑک پر پہاڑ گر جاتے ہیں ، جس کی  بنیادی وجہ اس سڑک کو عالمی میعار پر بنانے کے بجائے ایف ڈبلیو او نے اپنی مرضی سے جب جہاں جہاں چاہے بلاسٹنگ کی اور پہاڑوں کی بنیادوں کا ہلا کر رکھ دیا ہے۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ شاہراہ بلتستان کی دیکھ بھال اور شاہراہ قراقرم کی دیکھ بھال کیلئے گلگت بلتستان کی سطح پرخصوصی ادارہ قائم کریں یا براہ راست این ایچ اے اور گلگت بلتستان اسکاؤٹس کے سپردکریں۔اگر ان سڑکوں کو ایف ڈبیلو او کے رحم  و کرم پر  رکھا گیا تو گلگت بلتستان میں سیاحت کا کوئی مستقبل نہیں۔ مقامی لوگوں کو  درپیش مسائل  یا عوام  کی اسلام آباد کے نزدیک کوئی حیثیت  نہیں ہے۔ ایف ڈبلیو او کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اُن کی نااہلی کے سبب گلگت بلتستان کے عوام اور شعبہ سیاحت ، جس سے علاقے کی معیشت جڑی ہوئی ہے ، کو کس قدر نقصان پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح کاش چیف سکرٹری کو اس بات کا احساس ہوتا  کہ خطے میں زرعی شعبہ بھی بدترین زوال کا  شکار ہے، لوگ گندم سبسڈی کی بنیادی پر پاکستانیت اور متنازع  ہونے کا ماتم کرتے ہیں ۔اس شعبےپر تھوڑی سی توجہ دیکرگندم کی کاشت کیلئے مواقع اور وسائل پیدا کر سکتے ہیں ۔مگر بدقسمتی سے خطے کی زیادہ تر زمینیں آج نیشنل پارک اور خالصہ کے نام پر عوام سے چھینی جارہی ہیں ۔ یعنی حالیہ سرکاری اسٹیکر مہم بھی بالکل اسی طرح ہے جس طرح کے یہاں زمینوں کے  مالک تو عوام ہیں  لیکن حق تصرف عوام کے پاس نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چیف سیکرٹری کو اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ پاکستان کا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ریاستی موقف ،آئین کے آرٹیکل 257 ،سلامتی کونسل کے متفقہ قراردادوں اور سپریم کورٹ آف پاکستان کےتین فیصلوں روشنی میں   اٹھائیس ہزار مربع میل اور30 لاکھ کی آبادی پر مشتمل گلگت بلتستان متنازع  خطہ ہے اور اس خطے میں معطل سٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کوبحال کرنا مودی کو جواب دینے کے مصداق ہے ،نام نہاد معاہدہ کراچی ، جس کے حوالے سے حال ہی میں سینئر صحافی حامد میر نے انکشاف کیا ہے کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے معاہدہ کراچی پر آزاد کشمیر کے اُس وقت کے صدر کے  دستخط بھی جعلی تھے، کو ختم کرکے گلگت بلتستان میں سلامتی کونسل کی  قرارداد 13 اگست 1948 پر عمل درآمد کرکےآئین ساز اسمبلی کے  قیام کو عمل میں لاکر مسئلہ کشمیر کے  حل تک کیلئے اس خطے کے ساتھ عمرانی معاہدہ کرنااور خطے کے قدرتی وسائل، معدنیات ،  ڈرائی پورٹ کی آمدنی ،دیامر بھاشا ڈیم اور سی پیک  کی رائلٹی تقسیم کیلئےاین ایف سی طرز کے  ادارے کی  تشکیل ، وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ گلگت بلتستان کو برابری کے حقوق مل سکیں اور خطے میں بیوروکریسی راج کے بجائے عوامی نمائندوں کو اپنے فیصلے کرنے کا حق ملنے کے ساتھ انسانی  حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں تدارک، قوانین کا غیر قانونی استعمال اور عوامی زمینوں چراگاہوں کی بندر بانٹ اور غیر مقامی لوگوں کو ڈومیسائل جاری کرنے اورخطے کی تیزی سے تبدیل ہوتی ڈیموگرافی رُک سکے۔ اسی طرح سکردو کرگل روڈ سمیت دیگر تمام قدیم تجارتی راہدریوں کیلئے اسمبلی سے بل بھی متفقہ طور پر پاس ہوچکا  ہے اس حوالے سے مزید اقدامات اُٹھانا چیف سیکرٹری کا اصل کام ہے ۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply