امریکہ اور جنس/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے
کئی ماہ بیت گئے تھے، میں نے بس سیاہ فام نٹیشا کے گال پر اچٹتا ہوا بوسہ ہی لیا تھا۔ مجھے یوں لگتا تھا جیسے امریکہ میں دوسری جنس عنقا ہو۔ امریکہ کے ہالی ووڈ میں بنی فلموں میں تو حسین لڑکیوں کے جمگھٹ کے جمگھٹ دکھائے جاتے ہیں تو وہ لڑکیاں کیا ہوئیں؟ گلیوں بازاروں میں جو مخلوق تھی وہ انسان کی بجائے بڑے سے بیف برگر سے زیادہ مشابہ دکھائی دیتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے سب اپنے بدن کا بوچھ اٹھائے ہوئے چلتی تھیں۔

میرا جو دوست ماسکو سے آیا ہوا تھا، اس کا ذوق فربہ خواتین سے تعلق باندھنا رہا تھا۔ ایک روز جب میں نے اس سے کہا تھا،”چوہدری تم تو خوش ہوگے یہاں کی موٹی عورتوں کو دیکھ کے” تو وہ ایک لمحے کا توقف کیے بغیر بولا تھا،” نہیں جناب نہیں، یہ موٹی نہیں کہلا سکتیں۔ اس مخلوق کو تو کچھ اور ہی نام دینا پڑے گا”۔

میں نے ایک بار کسی امریکی سے پوچھا تھا کہ میاں یہ تو بتاؤ کہ وہ ساری نازک اندام حسینائیں کیا ہوئیں جو ہالی ووڈ کی فلموں میں دکھائی جاتی ہیں تو امریکی نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا کہ امریکہ کا سارا حسن کیلیفورنیا یعنی ہالی ووڈ منتقل ہو چکا ہے۔ مجھے یاد آیا تھا کہ ایک بار جب میں لڑکپن میں اپنے ایک پنجابی زمیندار ہم جماعت کے ساتھ اس کے گاؤں گیا تھا تو میں نے ازراہ تفنن اپنے دوست سے پوچھا تھا،”یار وہ کھیتوں اور باغوں میں ناچنے والی لڑکیاں کہاں ہیں جو پنجابی فلموں میں دکھائی جاتی ہیں” میرے پنجابی دوست نے خبردار کیا تھا کہ مجھ سے تو تم نے پوچھ لیا، گاؤں میں کسی اور سے مت پوچھ بیٹھنا، کہیں مار نہ کھانی پڑ جائے”۔ اسی طرح میں نے جب بہت بعد میں اپنے ایک امریکی دوست کو بتایا تھا کہ جب میں امریکہ گیا تھا تو یہی سمجھتا تھا اگر کسی لڑکی سے جان پہچان ہو جائے تو صاف گوئی سے یہ پوچھنا ہی کافی ہوگا آیا وہ شریک بدن ہونے پر رضامند ہے جس کا وہ اثبات یا انکار میں جواب دے دے گی لیکن وہاں جا کر معلوم ہوا کہ امریکہ کوئی عرب ملک ہے جہاں عورتیں بس حجاب نہیں کرتیں۔ جہاں سب ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیتے ہیں۔ ہائی کہنے کے بعد بائی کہہ دیتے ہیں۔ باہمی تعلقات بمشکل ہی بن پاتے ہوں گے۔ اس پر میرے امریکی دوست نے کہا تھا کہ بھائی میرے ملک کا معاشرہ بہت قدامت پسند ہے۔ ہماری قوم کی جنسی تسکین کا ذریعہ خود لذتی ہے۔

بہرحال حسن تو ہر جگہ ہویدا ہو ہی جاتا ہے۔ جن رشتے داروں کے ہاں میں مقیم تھا، ان کی ایک بچی ذہنی طور پر ایک حد تک معذور تھی جس کی دیکھ بھال کی خاطر ایک سوشل ورکر آیا کرتی تھی۔ تھی تو وہ خاتون یعنی لڑکی نہیں تھی، کوئی اڑتیس چالیس برس کی مگر سمارٹ اور نین نقش کی بہت بھلی۔ میں دل سے چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ سلسلہ جنبانی ہو تو امریکہ میں ٹکنے کا سبب بن جائے گا۔ میں اس سے باتیں کرتا تھا مگر اس کا رویہ ایسے ہوتا جیسے وہ کسی شریف پاکستانی گھرانے کی خاتون ہو۔ کوئی ایسا اظہار نہ کرتی جس سے کوئی ہلکا سا بھی اشارہ مل سکتا۔

ایک اور بات یہ بھی تھی شاید کہ امریکہ میں گورے اور دیسیوں بیچ بہت زیادہ مغائرت ہے۔ ایسی گوریاں خال خال ہوتی ہیں، وہ بھی یا تو نچلے طبقے سے یا بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگوں میں سے جو دیسی مردوں کے ساتھ بندھن باندھتی ہوں۔ مطلب یہ کہ امریکہ میرے لیے سوکھا ساون ثابت ہوا تھا۔

طغرل کی پرورش ایسے خاندان میں ہوئی تھی جہاں مرد رشتے دار آپس میں عورت مرد کے تعلقات بارے باتیں نہیں کرتے مثلاً  میں نے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ جو عمر میں دو ڈھائی برس چھوٹا تھا کبھی ایسی بات نہیں کی تھی۔ ندیم جو بھتیجے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا دوست بھی تھا، اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مجرا دیکھ لیا لیکن اگر کہیں معاملہ جنسی حدود میں داخل ہوتا تو ندیم خود اٹھ کر چلا جایا کرتا تھا۔

میرے چھوٹے بھانجے کو خیال آیا تھا کہ ماموں امریکہ میں کئی ماہ  سے تجرد کی زندگی بسر کر رہے ہیں چنانچہ ان کی تسکین کا کوئی بندوبست کرنا چاہیے۔ پہلے چپکے سے وڈیو فلمیں پکڑا جایا کرتا تھا یعنی ٹرپل ایکس۔ پھر ایک روز مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر نیویارک شہر لے جاتے ہوئے اس نے کھسیانی مسکراہٹ مسکرا کر کہا تھا،” ماموں مجھے تو یہاں ایسی جگہوں کا پتہ نہیں جہاں لڑکیاں ہوتی ہوں، میں نے ایک بنگالی نوجوان سے کہا ہے جو اس ریستوران میں ویٹر ہے جہاں میں کام کرتا ہوں۔ آج وہ ہمیں ایسی جگہ لے جائے گا، پھر آپ دیکھ لیں”۔ اس کے کہے کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

نیویارک شہر پہنچ کر ایک مقام پر تیز طرار سا خوبصورت بنگالی نوجوان ملا تھا جو گاڑی میں بیٹھ گیا تھا۔ نیویارک کی مشہور جگہ جیکسن ہائٹس جو دیسی کھانوں، مٹھائی، ساڑھیوں اور دیسی پوشاکوں کی دکانوں، پان، دیسی موسیقی وغیرہ کے لیے مشہور ہے، میں جا کر اس بنگالی نوجوان نے ایک سپینش شخص سے بات کی تھی اور پھر پیچھے آنے کو کہا تھا۔ پیدل چلتے ہوئے ایک گھر کے دروازے پر پہنچے تھے۔ ایک مرد نے آ کر دروازے کی زنجیر اتاری تھی۔ پھر سیڑھیاں اترتے ہوئے ایک تہہ خانے میں داخل ہو گئے تھے۔ وہاں ایک غنڈہ شکل ہسپانوی بیٹھا ہوا تھا اور ساتھ کی کرسیوں پر چھ نوجوان لاطینی امریکی لڑکیاں مختصر ملبوس میں بیٹھی تھیں۔ غنڈہ شکل مرد اونچی آواز میں کہہ رہا تھا، “سات لڑکیاں، ایک مصروف چھ فارغ”۔ اس نے بلند آواز میں ایسا کہنا شاید تب شروع کیا تھا جب اسے سیڑھیوں سے تین مرد اترتے دکھائی دیے تھے۔ لڑکیوں کی آنکھوں میں التماس تھا کہ ہمیں چن لو۔ مجھ سے یہ غیر انسانی رویہ برداشت نہیں ہو سکا تھا۔ میں نے اپنے بھانجے سے کہا تھا،”چلو، چلو، چلو، نکلو یہاں سے”۔ پیچھے سے “کیا بات ہے، کیا بات ہے؟” پوچھتا ہوا بنگالی نوجوان بھی ہمارے ساتھ ہی باہر نکل آیا تھا۔ باہر نکل کر میں نے بھانجے سے کہا تھا،” یہ تم مجھے کہاں لے آئے؟”۔ بھانجے نے سنجیدگی سے کہا تھا،”میرا خیال تھا کہ شاید آپ ۔ ۔ ۔” ۔۔۔۔ “مگر اتنے غیر انسانی ماحول میں نہیں جہاں آدمی انسان کو مال کی طرح ہانکیں لگا کر بیچ رہا ہو” اس پر میرے بھانجے نے ہنستے ہوئے کہا تھا،” اگر آپ کسی کے ساتھ چلے جاتے تو وقت تمام ہونے پر وہ اس کمرے میں الارم بھی بجا دیتا”۔ بنگالی نوجوان کو کچھ پلے نہیں پڑا تھا کہ کیا ہوا تھا۔ میرے بھانجے نے اس سے بس اتنا کہا تھا کہ انہیں کوئی پسند نہیں آئی۔ وہ بہت باتونی نوجوان تھا، بولا کوئی بات نہیں، ہم انکل کو کیلیفورنیا لے جائیں گے۔ میں نے پوچھا تھا ” لیکن کیلیفورنیا جائیں گے کیسے؟” اس نے جواب دیا تھا،” ام ٹرک سے چلے جائیں گے”۔ میں سمجھا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ ہم ٹرک سے چلے جائیں گے۔ میں نے کہا کہ میں ٹرک سے نہیں جا سکتا تو میرے بھانجے نے ہنستے ہوئے بتایا تھا کہ بنگالی نوجوان کے کہنے کا مطلب “ایم ٹریک” یعنی امیریکن ریل گاڑی تھا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply