(اس افسانے کے تمام کردار فرضی ہیں اس کے ساتھ کسی قسم کی مماثلت اتفاقیہ ہوگی )
یہ غالباً نوے کی دہائی کا زمانہ تھا ہم نے کہیں سے منت سماجت کرکے ہمارے گاؤں کے ایک دبئی پلٹ آدمی سے وی سی آر اور ٹی وی مستعار لیا، جس کے ساتھ ایک اکلوتی کیسٹ بھی عنایت کی گئی ۔ سپرلی گل ہم سے عمر میں کچھ بڑے تھے اس لئے اس نے گھر سے ایک عدد چھ گز والی چادر اٹھائی اور وی سی آر اور ٹی وی کو اس میں خوب اچھی طرح لپیٹ لیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس کو لے کر کیسے جائیں ۔ ہم کوئی درجن بھر چمچے سپرلی گل کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور فیصلہ ہوا کہ جب سبھی لوگ مغرب کی نماز کیلئے مساجد میں جائیں تو یہی موقع ہوگا جب ہم اس “بلا” کو بحفاظت اپنے حجرے میں لے جا سکتے ہیں ۔ اپنے حجرے سے میری مراد سپرلی گل کے گھر کے پاس ایک کچا کمرہ تھا جس میں ایک چٹائی ، ایک عدد پُرانا مٹکا اور ایک مرور زمانہ کی ماری ہوئی ٹیرھی میڑھی چارپائی تھی جس میں سپرلی گل کے مرحوم دادا استراحت فرماتے تھے ۔ وی سی آر کو بحفاظت حجرے میں پہنچانے کے بعد سپرلی گل گھر سے بجلی کا کنکشن لے آیا اور مجھے حکم دیا کہ گھر جا کر پہلے کڑک چائے لے آؤ۔
میں نے سپرلی گل جس کو ہم بھائی یعنی ورور کہہ کر پکارتے تھے، کہا کہ بھائی ایسا نہ ہو کہ میں چائے لاتے ہوئے فلم کے کسی سین کو مس کروں ، تواس نے کہا کہ بے فکر ہو جاؤ ہم تب تک فلم نہیں لگائیں گے جب تک تم واپس نہ آو بمع چائے جوش کے ۔
میں چائے لے آیا تو بھائی نے ہم سب چمچوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور حکم صادر فرمایا کہ کوئی آواز نہ آئے اور کوئی ٹی وی اور وی سی آر کو ہاتھ نہ لگائے ۔ ہم نے سر تسلیم خم کئے تو سپرلی گل نے وی سی آر کے ساتھ لائی گئی اکلوتی کیسٹ ” صنم بے وفا” لگائی۔۔ اور پورے کمرے میں قبرستان جیسی خاموشی تھی ۔ ہمارے ایک دوست گل نواز کی یہ عادت تھی کہ جب بھی خاموشی کی ضرورت ہوتی تو اس کو کھانسی کا دورہ پڑتا اور فطری طور پر بھائی کے حکم کے ساتھ ہی گل نواز کو کھانسی کا وہ دورہ پڑا کہ الامان و الحفیظ، ایسے میں بھائی کا پارہ ایسے چڑھا کہ جا کر وی سی آر کو بند کردیا۔ ہم سب نے بھائی کی خوشنودی کیلئے گل نواز کو کمرے سے باہر گھسیٹا تو بھائی نے ایک بے ضرر سی گالی نکال کر وی سی آر کو دوبارہ چالو کیا ۔
شاید ہماری زندگی کی یہ پہلی ہندوستانی فلم تھی اس لئے کمرے میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی اور فلم کے ایک سین میں جب سلمان خان اور اس کی محبوبہ کے گھروں سے نکلنے پر پابندی لگتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کی جُدائی میں تڑپ رہے ہیں تو ہم سب پر اداسی تو چھائی تھی لیکن ایسے میں بھائی کو دیکھا جس کے رخساروں پر آنسو کی ایسی لڑیاں برس رہی تھیں جیسے ساون کی بارش برس رہی ہو ۔ ہمارے ایک ڈھیٹ ٹائپ کے دوست ( نام نہیں لے سکتا کیونکہ آج کل وہ اچھا بھلا آدمی بن چکا ہے ) نے بھائی کو دیکھا تو اس کی ہنسی رُکنے کا نام نہیں لے رہی تھی لیکن شکر ہے کہ اس پر بھائی کی نظر نہ پڑی ورنہ اس کی خیر نہیں تھی ۔
فلم ختم ہو ئی تو بھائی کا موڈ تب بھی آف تھا لیکن اس کے بعد کسی نے جب “خوشحالہ کورنئی” والی کیسٹ لگایا تو بھائی کا موڈ موٹا گوشت دیکھ کر کافی سنبھل گیا۔
بھائی گوکہ ہم سے عمر میں بڑے تھے لیکن عادات و اطوار میں ہم سے بھی “بچے” تھے ۔ بھائی کی ایک بات جو اب تک برقرار ہے وہ اس کے بیک وقت نصف درجن معاشقے تھے جس کی ابتدا سات سال کی عمر میں ہوئی ۔
ہوا یوں کہ کھیتوں میں کام کرنے والی ایک دوشیزہ آیا کرتی تھی جس کی عمر شاید اٹھارہ سال کے لگ بھگ تھی اور بھائی کی عمر سات سال لیکن دیکھتے دیکھتے بھائی اس پر ایسے لٹو ہوا کہ اٹھتے بیٹھتے بس اسی کے گن گاتا تھا ۔ ایک دن رات کو کسی شرارت کی وجہ سے گھر میں خوب مارپڑی اور بات یہاں تک بگڑ گئی کہ رات کو ہی گھر سے نکال دیا گیا تو سیدھا بھائی کے حجرے میں وارد ہوا لیکن بھائی کو حجرے میں نہ پا کر اس کے گھر میں گھس گیا تو اس کی امی ( وادے) نے بتایا کہ سپرلائی تو عبادت و ریاضت میں مصروف ہے ۔ اندر جا کردیکھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔
( بھائی کے معاشقوں کی داستانِ ہوشربا آئندہ قسط میں ملاحظہ فرمائیں )
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں