گزشتہ ہفتے جموں کشمیر کی صورتحال کا جا ئز ہ لینے کے لئے نئی دِلی میں موجود 24 ممالک کے سفارتکاروں نے جموں کشمیر کا دو روزہ دورہ کیا۔ کشمیر میں وفد نے پہلے ضلع بڈگام کے ماگام علاقے کا دورہ کیا۔ جہاں ڈی ڈی سی ممبران سے وفد ملاقی ہوا۔ اسکے بعد سرینگر کے ایک ہوٹل میں ہند نواز سیاسی جماعتوں کے کچھ افراد سے ملاقات کی اور بعد میں درگاہ حضرت بل میں حاضری دی۔
دوسرے روز جموں میں سفارتکاروں نے پولیس اور فوجی افسران کے علاوہ ایل جی منوج سنہا اورڈی ڈی سی ممبران سے تبادلہ ء خیال کیا۔ سفارتکاروں کے دورے کے پیش نظر سرینگر2روز اور ماگام میں ایک دن کے لئے مکمل ہڑتال رہی۔کشمیر کی دو بڑی ہند نواز سیاسی جماعتوں پی ڈی پی اور این سی نے اس دورے کو ہدف تنقید بنایا۔ این سی نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ان کا اس وفد کے دورے سے کچھ لینا دینا نہیں اور وہ اس پر کوئی ردِ عمل نہیں دینگے۔۔ وہیں انہوں نے دوسرے بیان میں سفارتکاروں سے اپیل کی کہ اب وہ سیاحوں کو کشمیر بھیجیں۔
محبوبہ مفتی نے کہا ،بیرون ممالک کے سفارتکاروں کو یہاں بھیج کر یہ سرٹیفکیٹ حاصل کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کشمیری عوام بھارت سے ناراض نہیں، بلکہ خوش ہے۔ کانگریس نے سوال کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ اگر کشمیر میں حالات ٹھیک ہیں اور کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے تو سفارتکاروں کو یہاں مدعو کیوں کیا گیا۔۔
اُدھر پاکستانی دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ اس دورے کا مقصد عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے،جبکہ بھارتی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ دورے کا مقصد سفارتکاروں کو جموں کشمیر کی ترقی دکھانا تھا۔
دورے کا انعقاد بھارتی وزارتِ خارجہ نے کیا، جس میں فرانس، اٹلی، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے سفرا شامل تھے۔
واضح رہے اسی ہفتے فرانس نے مسلم مخالف بل پارلیمنٹ میں منظور کروایا ،جس کے مطابق اب فرانس کی مساجد، ان کے انتظامات چلانے والی تنظیموں اور بچوں کی گھر میں تعلیم سمیت مسلمانوں کی کڑی نگرانی کیلئے ریاستی اداروں کو کئی اختیارات دیے گئے ہیں۔
دورے سے قبل ۵ فروری کو جموں کشمیر میں ۴ جی انٹرنیٹ سروس بحال کی گئی تھی اور سرینگر شہر میں پانچ فورسز بینکر بھی ہٹائے گئے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب سفارتکاروں کو یہاں کشمیر کے حالات کا جائز ہ لینے کے لئے مدعو کیا گیا ہو۔
اکتوبر2020ء میں27 یورپی یونین کے ممبران نے کشمیر کا دورہ کیا۔ یہ یورپی ممبران دائیں بازو ں جماعتوں سے منسلک تھے اور انہیں مسلم مخالف تصور کیا جا تا ہے۔جبکہ یورپی پارلیمنٹ نے ان کے اس دورے کو خود سے الگ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ممبران اپنے نجی دورے پر تھے۔ اس دورے کا انعقاد مادی شرما نامی خاتون اور شری واستو گروپ نے کروایا۔
گزشتہ سال دسمبر میں برطانیہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم ڈس انفو لیب نے بڑا انکشاف کیا ،جس میں بھارتی حامی ۶۵۲ نیوز ویب سائٹس ۵۶ ممالک میں کام کرتی پائی گئیں۔ جن میں بین الاقوامی سطح پر بھارتی مفادات کو آگے بڑھانا اور پاکستان مخالف مہم چلانا ہے۔
گزشتہ سال جنوری میں ۵۱ ممالک کے سفارتکار اور فروری میں ۵۲ سفرا نے کشمیر کادو رہ کیا تھا۔ بھارت کشمیر کو اندروانی مسئلہ قرار دیتا ہے۔جموں کشمیر میں آج تک جتنے بھی دورے غیر ملکی سفارت کاروں کے ہوئے ہیں ان کیساتھ صرف حکومت نواز اور بھاجپا کے کچھ مخصوص لوگوں کو ملاقات کر وائی گئی ہے۔ جبکہ2019ء سے ہی دورے شروع ہوئے لیکن زمینی سطح پر کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔
تجزیہ نگا ر کہتے ہیں کہ ایسے دوروں سے جموں کشمیر میں کچھ بھی اب تک نہیں بدلا او ر بھارت صرف عالمی برادری کو ان سفارتکاروں کے ذریعے اپنی امیج بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔اور یہ دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
۵ اگست 2019ء کے فیصلے سے جموں کشمیر اور خاص طور پر کشمیر کی عوام خوش ہیں۔ لیکن زمینی صورتحال کچھ اور ہی بیان کرتی ہے۔
ادھر دورے پر آئے سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ۴ جی انٹرنیٹ کی بحالی اور حالیہ ڈی ڈی سی انتخابات کا جائزہ لینے کے علاوہ وہ مزید اقدامات کے منتظر ہیں ان میں اسمبلی انتخابات بھی شامل ہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس وفد کو کشمیر کے حالات دکھانے کے لئے لایا گیا ،اب انہوں نے اسمبلی انتخابات کا مطالبہ کیا ہے تو کیا اب اسمبلی انتخابات جموں کشمیر غیر ملکی سفارتکاروں کی مانگ پر کئے جائیں گے۔ تو کیا یہ بھارت کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں ہے؟۔
وہیں خصوصی پوزیشن کی منسوخی کے بعد کشمیری عوا م بھارت سے مزید دور چلی گئی۔ اور اسکے بعد اراضی قوانین، ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جیسے قوانین کے بعد کشمیری عوام اضطراب کا شکار ہو گئی ہے۔مزید دو سال تک انٹرنیٹ سروس معطل رہنے سے ای کامرس سیکٹر اور دیگر شعبوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ایسے حالات میں کشمیری عوام کس طرح سے بھارت سے خوش ہو گی؟۔
دوسری طرف سے عوام کا کہنا ہے کہ اگر بھارت کشمیر کو اپنا اندرونی مسئلہ قرار دیتی ہے تو غیر ملکی سفارتکاروں کو کشمیر کے حالات یا ترقی دکھانے کے لئے کیوں لایا گیا جو سوال کانگریس نے بھی بھارتی مودی سرکار سے پوچھا ہے۔سیاسی ماہرین مانتے ہیں کہ خصوصی پوزیشن کے بعد مسئلہ کشمیر ختم نہیں بلکہ عالمی سطح پر زیادہ اجاگر ہوا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں