• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بیوہ/مطلقہ کی عدت پر ایک سیکولرموقف۔۔۔(ساتویں ،آخری قسط)سلیم جاوید

بیوہ/مطلقہ کی عدت پر ایک سیکولرموقف۔۔۔(ساتویں ،آخری قسط)سلیم جاوید

میرے عزیزدوستو!

دعا کرتا ہوں کہ خدا ہر گھرکو بیوگی یا طلاق کی ابتلاء سے محفوظ رکھے-

عرض یہ کرنا ہے کہ “عدت” بارے ذہنی الجھن مجھے کم عمری سے شروع ہوگئی تھی جب ہماری بوڑھی نانی اماں کو ہمارے گھر آنے سے بھی روک دیا گیا تھا(جوکہ پڑوس میں ہی تھا)- گاؤں دیہات میں عدت کے نام پرجو سختیاں بیچاری عورتوں کو جھیلنا پڑتی ہیں، ان کا احساس بچپن سے ہوگیا تھا- شہرمیں آئے تو یہاں پڑھی لکھی جاب کرنے والی خواتین کی عدت کے مسائل دیکھے- بیرون ملک آئے توغریب الدیاری میں اچانک بیوہ ہونے والی خاتون کی مشکل کا اندازہ ہوا- ہمسائے، لاش کو سردخانے سے جلد واپس لانے کی کوشش میں ہیں – دوست احباب، تدفین کے کاغذات بنانے کیلئے دوڑدھوپ کر رہے- پیچھے پاکستان میں فیملی، میت کو بھول کر، بچوں کی واپسی سفری دستایزات کی فکر میں ڈوبی ہے اورپردیس میں اکیلی عورت، اپنے بچوں کو سینے سے لگائے”ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم” کی تصویربنی بیٹھی ہے- ایسے میں گاہے گاہے، ایک نہ ایک ہمسائی  اسکے کان میں یاددلاتی ہے” بہن جی!آپکی تو عدت شروع ہے- اچھا اللہ کی مرضی”-

ہوسکتا ہے کہ میرا مشاہدہ غلط ہو مگریوں لگتا کہ بیوہ ومطلقہ جو بیچاری پہلے ہی مری ہوتی ہے، اسکو پھرعدت میں باندھ رکھنا” مرے کو مارنے” والا کام ہوجاتا ہے-

بلاتکّلف عرض کرتا ہوں کہ عدت کے مسئلہ پرکوئی  آسانی تلاش کرنے کے لیے  ہی قرآن پرغور شروع کیاتھا- خدا نے قرآن میں فرمایا کہ دین اسلام، لوگوں کی زندگی آسان بنانے  کے لیے نازل کیا نہ کہ تنگ کرنے-خدا کے رسول نے فرمایا کہ لوگوں کیلئے آسانیاں تلاش کرو اور دشواریاں پیدا مت کرو- مگرکیا آپکوپتہ ہے کہ ہمارے مولوی صاحبان ہرنئی سوچ کیلئے کون سا جملہ استعمال کرتے ہیں؟۔۔ کہ”فلاں آدمی ایک نیا فتنہ ہے کیونکہ یہ دین میں آسانی فراہم کررہا ہے”- ( ہے نا عجیب بات کہ خدا آسانی پیدا کرنے کو کہتا ہے اور مولوی اسی سوچ کو فتنہ کہتا ہے)-

خاکسار نے جب اس مسئلہ پرقرآن میں غور کیا تویوں فہم میں آیا کہ عدت کا حکم فقط ایک انتظامی ایشو ہے- ایک عجیب کیفیت ہوگئی کیونکہ ایک طرف اپنے دلائل، اہل علم کے سا تھ ڈسکس کرتا تو اپنا مقدمہ مضبوط نظر آتا تھا جبکہ دوسری طرف ساری امت کے علماء کی تقریباً  متفقہ رائے تھی- کیا سنی اور کیا شیعہ، تھوڑے بہت فرق کے ساتھ، ہرہرمکتب فکر کے علماء، عدت کی روایتی ترتیب پہ متفق نظر آتے ہیں(حتی کہ قادیانی بھی)-

چنانچہ اسی بنا پر کافی عرصہ اس موضوع پرلکھنے سے احترازکرتا رہا کیونکہ کامن سینس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سب کے مقابلے میں اکیلا بندہ ہی غلط ہوگا-

برادران کرام!

خدا مجھ پروہ لمحہ نہ لائے جب میں صرف اپنی سوچ کو ہی “عین حق” اوردوسروں کی سوچ کوبالکل غلط قرار دوں- تاہم یہ تمنا ضرور ہے کہ خاکسار کی رائے کو بھی دوسروں کی رائے کے ساتھ شامل کرکے دیکھ لیا جائے، شاید انسانوں کیلئے کوئی  آسانی کی صورت نکل آئے- میری اس رائے کو بالکل ریجکٹ کردیا جائے تو بھی کوئی  رنج نہیں کہ اس پہ کی گئی محنت کا اجربقدرنیت بڑی محفوظ جگہ منتقل ہوچکا ہے-خاکسار نے اپنے دلائل قرآن کی بنیاد پر پیش کیےہیں- کوئی  دوست اگر قرآن ہی کی بنیاد پران دلائل کا رد کردے تومجھے اپنا مقدمہ واپس لینے میں ذرا تامل نہیں ہوگا ( کیونکہ ہردوصورت میں جیت، قرآن کی ہی ہوگی)-

زیرنظر مضمون اس لئے خاصا طویل ہوگیا کہ اپنی رائے ہرپہلو سے آپکے سامنے رکھنا تھی- مضمون لکھنے میں میرا انداز “جارحانہ” ہوتا ہے-ایک بار تبلیغی جماعت میں ایک امیرصاحب نے بتایا تھاکہ اپنا مشورہ “منوانے” کی نیت سے دیا کرو- فرمایا کہ ساتھیوں کی خیرخواہی کیلئے، اچھی طرح سوچ کراور پوری دیانتداری سے رائے دیا کرو- چونکہ اس رائے میں ہی سب کیلئے خیرسمجھتے ہوں گے تو پورے دلائل کے ساتھ دبنگ انداز میں بات پیش کیا کرو- فرمایا کہ مشورہ دیتے ہوئے “منوانے” کی نیت ہو، مگرمشورہ کی مجلس میں بیٹھتے ہوئے”ماننے ” کی نیت ہو (کہ جس بات پراہل مجلس متفق ہوجائیں گے، اسی کو مان لیں گے)-

یہ وہ پوائنٹ ہے جس کی طرف میں آپکو لانا چاہتا ہوں- پاکستان میں فکری انتشار کا عالم آپکے سامنے ہے- درجنوں فرقے، مسالک، مکاتب فکر ایک طرف رہے، زبان ونسل، علاقہ وقبیلہ اورکلچروکلاس کی تفریق نے ہم کو پارہ پارہ کرکھا ہے تو اب دینی معاملات میں بھلا کون ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا؟-

خوش قسمتی سے ہمارے آئین میں “اسلامی نظریاتی کونسل” نامی ادارہ موجود ہے- یہ خاکسار ، عرصہ دراز سے یہ مطالبہ کرتا آیا ہے کہ ہمارے سماجی، معاشی، اور دفاعی مسائل پر دینی فتوی سازی کیلئے صرف اسی فورم کو مجاز ہونا چاہیے-

میرا تاثریہ ہے کہ اس ادارےمیں سیاسی بھرتیاں ہوئی  ہیں- یہ بدگمانی بھی ہے کہ اس میں تعینات “ریسرچ سکالرز” میں سے اکثر کی علمی سطح بہت کمزور ہے- مگربھائی ، ترقی یافتہ سماج کسی ادارے کے تحت ہی چلا کرتے ہیں – آئینی اداروں کو مضبوط کریں گے تو ہم ایک مہذب قوم بن سکیں گے-

میں اپنے دوستوں سے عرض کرتا ہوں کہ ہم سب کو دو کام مسلسل کرتے رہنا چاہیئں-

ایک ، ہمیں اسلامی نطریاتی کونسل پر عوامی پریشرڈالتے رہنا چاہیے کہ زمانہ جدید کے مسائل پر قوم کو گائیڈنس فراہم کرے ( تاکہ یہ ادارہ فعال ہو)- کونسل کا پھریہ کام ہے کہ مختلف سوچ کے اہل علم کا مکالمہ کروائے-

دوسرے، ہمیں اپنے حلقہ احباب کو یہ سمجھانا چاہیے کہ اس ادارے کا تمسخرنہ اڑایا کریں بلکہ اس کا وقار بنانے کی کوشش کریں – جب اداروں کو بے وقعت کیا جاتا ہے تو قوم ، افراد کے پنجوں میں آجاتی ہے-

میں اپنا یہ مضمون، اسلامی نظریانی کونسل کی خدمت میں “اپنی بات منوانے کی نیت” سے پیش کرتا ہوں اور یہ کہ اس بارے اس کونسل کی جو بھی رولنگ ہوگی، اسے ماننے کی پہلے سے نیت رکھتا ہوں- والسلام

اس لنک پر کلک کرکے اس سلسلے کی باقی اقساط اور مصنف کی دیگر تحاریر پڑھی جاسکتی ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

سلیم جاوید کی دیگر  تحاریر

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply