وضاحت اپنی ذمہ داری پر۔۔ذیشان محمود

ہمارے عربی کے استاد محترم لفظ مَجَال کے بنیادی معنی بتاتے ہوئے یہ مثال دیتے تھے کہ اگر گھوڑے کو ایک سر سبز میدان میں ایک کِلِّی سے باندھا جائے تو کچھ دن بعد گھوڑا اس کلی کے اردگرد  کی گھاس اپنی  لگام کی ڈھیل کے مطابق ایک دائرہ کی شکل میں کھا جائے گا تو وہ دائرہ گھوڑے کی مجال کہلائے گا۔

اسی طرح میڈیا چاہے کسی ملک کا ہو شتر بے مہار کی طرح پورے سبزہ زار پر حکمرانی کے خواب میں ادھر اُدھر منہ مارتا ہے اور اپنی اس آزادی کو برتری خیال کرتے ہوئے دوسروں کو اپنی اپنی مجال میں رہنے کی دھمکی دیتا ہے۔

بھئی ہماری کیا مجال کہ ہم میڈیا کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوں۔ جیسے آپ کو فلم یا ڈرامے کے آغاز میں ایک وضاحت پڑھنے کو ملتی ہے۔ اسی طرح یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہاں پر بیان شدہ جملے کسی اور کی  زندگی سے مطابقت رکھتے ہوں تو رکھیں ہمیں کیا۔ میڈیا آزاد ہے۔

پھر بھی یاد رہے کہ آزاد میڈیا ہونے کے علم بردار اور نامور صحافیوں کے ٹاک شوز کے آغاز میں بھی چینل کو ڈس کلیمر لگانا پڑتا ہے کہ چینل ذمہ  دار نہیں۔

ویسے بھی آج کل جس نوعیت کے ٹاک شوز ہو رہے ہیں بعید نہیں کہ آئندہ یہ ڈس کلیمر بھی چلنا شروع ہو جائے کہ دوران مباحثہ جوتوں، تھپڑوں اور مکوں کے دلائل کا جواب مخالف قبل از وقت تیار کر کے لائے ورنہ ذمہ دار خود شاملین ہوں گے۔ باجی ڈاکٹر اعوان صاحبہ سے ہم نے اپنے کیمرے اور فیصل واوڈا کے جوتوں سے اپنے منہ بچانے ہیں لیکن ان پروگرامز سے ایسے نامور صحافیوں کا بھی پول کھل گیا کہ وہ اینکر پرسن بننے کے بجائے صرف کاغذی کالموں پر ہی حکمرانی   کر سکتے ہیں اور WWE کے ریفری نہیں بن سکتے۔

بھائی صاف بات ہے میڈیا تو ایک چھوٹا سا پلیٹ فارم ہے۔ جہاں یہ درازی ء  زبان کی خصوصیات کی حامل سیاسی مخلوق کسی خلائی مخلوق کی طرح حملہ کر کے دوسروں کا سر کھانا چاہتی ہے۔ (اس جملہ کو لکھنے کے بعد میرے ذہن میں وینم نامی سپر ہیرو ابھر آیا۔ جس کی زبان بھی دراز اور دوسروں کا سر بھی کھاجاتا ہے۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا )

ایک نوزائیدہ فرنگی دوست نے کہا کہ پاکستان آکر معلوم ہوا کہ پاکستان میں ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کی اصل وجہ ہی میڈیا ہے۔ ہمارے ہاں تو سوائے موسم کے ایسی کوئی بریکنگ نیوز نہیں ہوتیں۔ مقامی خبروں کے بجائے عالمی خبریں اہم ہوتی ہیں اور یہاں ہر منٹ میں بریکنگ نیوز۔۔۔ بلکہ ایک چینل نے تو سرخ ہیڈر لگا کر ہر لمحہ بریکنگ نیوز کا ریکارڈ قائم کر دیا۔لیکن اس زمانہ میں پاکستان کا میڈیا جتنا بھی آزاد ہو جائے، صبح مارننگ شوز میں کامن سینس کی دھجیاں اڑائے، شام کو رمضان ٹرانسمیشن اور گیم  شوز میں مداری بن کر اُچھل کود کرے اور رات ٹاک شوز میں  مغلظات بکے، تھپڑوں مکوں سے تواضع کروائے، جہاں اپوزیشن یا حکومت ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالیں، لیکن ایک لگام پھر بھی  ان کے گلے کا ہار ہے بلکہ پھندا ہے اور وہ ہے توہین کے قوانین۔

ایک سب سے بڑے میڈیا گروپ پر جب توہین قوانین کا الزام لگا تو انہوں نے کئی گھنٹے وضاحتی بیانات نشر کیے۔ بعد ازاں آئینی شقات ہوا ہو گئیں۔ پیمرا قوانین کے تحت معمولی سزا ملی۔ اس دوران ہونے والے نقصان کی بھرپائی اس نیٹ ورک نے سو گنا سے زائد کر لی ہوگی۔
اسی نیٹ ورک نے احمدیوں سے متعلق ایک خبر چلا دی جس پر اگلے دن بار بار انہیں اپنے مسلمان ہونے کی وضاحت دینا پڑی۔
پھر ایک پرنٹ میڈیا نے پاکستان کی دفاعی جنگوں کے احمدی ہیروز کی تصاویر شائع کر دیں جس پر ان سے وضاحتی توبہ کروائی گئی۔ لیکن شاید توبہ کرنے والے ان سرکاری کافروں کے  اشتہار کے لئے دی جانے والی رقم واپس کرنا بھول گئے کیونکہ عقید ے  کے مطابق وہ غصب کرنا جائز ہے ۔ مالِ مفت دلِ بےرحم۔

بات احمدی یا قادیانی ہونے کی وضاحت دینے کی ہو تو دور تک نکل جائے گی اور حکومتی وزراء مشیروں کے نام بھی آئیں گے۔ جنہیں اپنے عقیدوں کی وضاحت دینا پڑتی ہے۔ حتی کہ وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بھی عاطف میاں کے معاملے پر اپنے مسلمان ہونے کی وضاحت دینا پڑی۔ کیونکہ ہر بات کی طرح یہ بھی ان کے تو علم میں ہی نہیں تھا۔

بات سمیٹے ہوئے عرض یہ ہے کہ اپنی لگامیں کَس کے ہی رکھا کریں۔ لگام ڈھیلی ہو تو مجال بڑھ جاتی ہے۔ اگر مجال بڑھا لی جائے تو وضاحتیں دینی پڑتی  ہیں۔ گھوڑے کی تو لگام ہی کسنی پڑے گی لیکن آپ کو وضاحت دینا پڑے گی۔ پھر چاہے آپ ملک کا سب سے بڑا میڈیا ادارہ ہوں یا آپ ملک کےوزیر اعظم ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہماری جانب سے یہ وضاحت شرحاً و بسطاً درج ہے کہ تجاوز حدودد سے وضاحت کے دوران ہونے والے ہر قسم کے نقصان کے ذمہ دار آپ ہی ہوں گے۔

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply