پہلا نشہ، پہلا خمار(2،آخری حصّہ)۔۔شکور پٹھان

بھائی غفار کے کباب ایک ذرا بڑی عیاشی تھے۔ اس سے کم پیسے یعنی چار آنے جب میسر آجاتے جو کہ اکثر آجاتے تو ہم بہادر آباد پہنچ جاتے جہاں کے آلو چھولے، دہی بڑے، چاٹ وغیرہ ہمارے منتظر ہوتے۔ کراچی میں اور بھی کئی جگہ چاٹ چھولے بنتے تھے، خاص کر کیپیٹل سینما والی گلی میں اور طارق روڈ پر۔ اور بھی علاقوں میں بنتے ہوں گے۔ لیکن بہادر آباد کے ان چاٹ چھولوں کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی صفائی تھی اور ذائقے کے ساتھ صفائی کا امتزاج کم از کم کراچی میں ممکن نہیں۔
کیپیٹل سینما سے یاد آیا کہ اس گلی میں داخل ہوتی ہے بھاپ اڑتی، سبز چائے کی خوشبو کی لپٹیں مشام جاں کو معطر کر دیتیں، کیفے گلوریا کی چائے دور سے سی ہی دعوت دیتی کے اس گلی میں آئے ہو تو مرضی سے جا نہیں سکتے۔ دوچار گھڑی مجھے بھی پی کر دیکھو۔

اسی گلی سےآگے کسی نکڑ پر “ نمکو” کی دکان تھی( شاید اب بھی ہے ) جسے دنیا جانتی ہے لیکن شاید کم لوگوں کو اسی گلی سے آگے مین روڈ پر، پارسی آتشکدۂ والی گلی میں “ بھیل پوری “ کی دکان یاد ہو جو اس وقت شاید کراچی کی واحد بھیل پوری کی دکان تھی اور کراچی میں سوائے ممبئی والوں اور میمنوں اور بوہریوں کے کوئی بھیل پوری کا نام بھی نہیں جانتا تھا۔ اب دوبئی ، شارجہ میں بہت سی ہندوستانی ہوٹلوں میں بھیل پوری کھائی لیکن کراچی والی اس بھیل پوری کا جوڑ آج تک نہیں ملا۔ شاید پہلے نشے ، پہلی محبت کی طرح ۔
ذائقے ، چٹخارے اور خوشبو کے اس سفر میں ابھی تو میں یوں ہی ٹامک ٹوئیاں ماررہا ہوں ۔ ابھی اس جگہ تو پہنچا ہی نہیں جس کے بغیر ، گلستان کی بات رنگیں ہے نہ میخانے کا نام
جی ہاں ، ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے۔ میرا مطلب ہے کہ کراچی میں رہا ہو اور برنس روڈ سے لذت کام و دہن سے محروم رہا ہے ۔ میرا دعوا ہے کے دنیا بھر کے فوڈ کورٹ اور کھانے پینے کے علاقے لے آؤ اور ہمارے برنس روڈ سے “ لڑوالو”۔
یہ نام نہاد فوڈ کورٹ اور فوڈ اسٹریٹس صفائی ستھرائی ، وسعت، سجاوٹ، خوبصورتی اور نظم و ضبط وغیرہ ہر چیز میں بہت، بلکہ بہت ہی زیادہ آگے ہوں گی۔ لیکن جہاں تک ذائقے اور چٹخارے کی بات ہے کوئی مائی کا لال برنس روڈ کے وحید کے کباب، صابر کی نہاری، اپنے ممنون صاحب کے دہی بڑے، دہلی ربڑی ہاؤس کی ربڑی، حلوہ پوری، فریسکو کی مٹھائیاں اور نہ جانے کیا کچھ ہے کہ بس ذائقے اور مزے میں حرف آخر ہے۔ مجھے آپ جنونی سمجھیں یا نشے میں جانیں ، لیکن میراچیلنج ہے کہ اس سہرے سے کہدے کوئی بڑھ کر سہرا۔ اگر کوئی ذائقہ برنس روڈ کے ذائقے سے بڑھ کر ہے تو وہ ذائقے کی معنی سے ہی واقف نہیں۔
میرے کورنگی کے ایک پڑوسی جن کے والدین پاکستان چوک کے پاس جنرل پوسٹ آفس والوں کے فلیٹوں میں رہتے تھے، مجھے اپنا گھر دکھانے اور کراچی “ گھمانے” لے گئے۔ میری عمر اس وقت کوئی دس گیارہ سال کی ہوگی۔ کراچی انٹرکان، پولو گراؤنڈ، برنس گارڈن والے عجائب گھر، وہ کھڑکی جہاں سے لیاقت علی خان نے مکا دکھایا تھا، پاکستان چوک وغیرہ کی سیر کراتے ہوئے مجھے ایک دکان میں لسی پلانے لے گئے۔ اور یہ دکان تھی برنس روڈ کی “نیو پنجاب لسی ہاؤس”۔ تب یہ کراچی کی سب سے مشہور لسی کی دکان تھی۔ اس کے بعد کئی جگہ لسی پی لیکن وہ پہلا ذائقہ مجھے آج تک کہیں نہیں ملا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی کے پڑوس میں کہیں “ ہیومور “ Have More” آئس کریم تھی جہاں ہم نے سبز رنگ کی پستہ قلفی کھائی۔ جنہوں نے یہ قلفی کھائی ہے وہ میری بات کی گواہی دینگے کہ اس جیسی پستہ قلفی کہیں اور نہیں۔ گئے دنوں میں ہم کوکنیوں کی شادیاں بڑی سادہ ہوا کرتی تھیں اور اکثر شادیوں میں صرف ہیو مور کی پستہ قلفی سے ہی مہمانوں کی تواضع کی جاتی تھی اور مہمانوں کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔ بعد میں ان کی شاخ بہادر آباد میں بھی کھل گئی تھی۔
قلفی کی بات چلی ہے تو لگے ہاتھوں الحاج چودھری فرزند کی قلفی کی بات بھی ہوجائے جسے میں نے پہلی بار اس دعوت میں کھایا تھا جہاں بندو خان کے کباب بھی تھے۔ تب میں لونڈا سا تھا اور حیلے بہانوں سے تقریباً پانچ چھ قلفیاں اس دعوت میں اڑائی تھیں۔ کالج کے دنوں میں، میرا دوست اسلم اور میں اکثر فرزند علی کی قلفی کھاتے ( یہ اور بات ہے کہ پیسے شاید ہی کبھی دئیے ہوں۔ ان کا باہر سے ٹوکن لینے کا سسٹم تھا جس میں کچھ ایسے سقم تھے کہ ہم آسانی سے ڈنڈی مار لیا کرتے۔ اسے ہم جرم نہیں “ سمارٹنیس” یعنی ہوشیاری سمجھتے تھے)۔
واپس برنس روڈ چلتے ہیں جہاں ہم فریسکو کی بالو شاہیاں چھوڑ آئے ہیں اور جس کے سامنے نکڑ پر دہی بڑے کا وہ بڑا سا مٹکا ، جو برنس روڈ پر ہونے والے ہنگامے، پولیس فائرنگ اور آنسو گیس کے شیل، طلباء کا پتھراؤ جس کا بال بھی باکا نہ کرسکے اور اس مٹکے کے دہی بڑے آج بھی کراچی کے سب سے مشہور دہی بڑے ہیں۔
برنس روڈ سے بندروڈ کی جانب جائیں تو ڈاکٹر حمید کے ہومیوپیتھک دواخانہ سے متصل “ صابر “ کی نہاری ہے جہاں سے ایک بار کورنگی سے بہت سارے دوستوں کے ساتھ آکر “ نہاری” سے سحری کی تھی۔ اب آپ ہی بتائیے جس نے پہلی نہاری صابر کی اور پہلی لسی نیو پنجاب کی اور پہلے کباب بھائی غفار کے کھائے ہوں وہ کیسے اس نشے اور اس خمار کو بھول سکتا ہے۔ اب تو کراچی میں زاہد کی نہاری، جاوید کی نہاری، فرپو کی نہاری اور اللہ جانے کس کس کی نہاری مشہور ہوگئی ہے لیکن ایک زمانے میں صرف اور صرف صابر کی نہاری کا نام چہار دانگ عالم میں گونجتا تھا۔
بریانی کا مجھے کوئی خاص شوق نہیں تھا۔ایک بار پردیس سے چھٹی پر آیا تو دوست زبردستی مجھے جیکب لائنز کی جھگیوں میں بنے ایک ڈھابے میں لے گئے جہاں کچا فرش تھا۔ میلی چیکٹ میزیں تھیں اور ایلمونیم کی مڑی تڑی پلیٹوں میں بریانی کھلائی اور مجھے سمجھ آتی گئی کہ وہ مجھے گھسیٹ کر جیکب لائنز کے اس کیفے ڈی پھونس میں کیوں لائے جسے آج دنیا “ اسٹوڈنٹ بریانی” کے نام سے جانتی ہے اور جس کی شاخیں اب دوبئی، شارجہ، ابوظہبی، لندن، نیویارک، ٹورنٹو اور جنے دنیا بھر میں کہاں کہاں ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے مجھے اس وقت کوئی خاص مزہ نہیں آیا تھا لیکن اس کے تیس پینتیس سال بعد جب شارجہ میں اسٹوڈنٹ بریانی کھائی تو واقعی زبردست تھی۔
کراچی اور کراچی کے ذائقوں سے شناسائی میں میرے چھوٹا چچا کا بہت ہاتھ ہے۔ میں نے زیادہ تر کراچی ان کے ساتھ ہی دیکھا۔ کیفے گلوریا، پاک آئسکریم، کیفے جارج، آکسفورڈ کیفے وغیرہ میں ان کے ساتھ ہی گیا جن کی اپنی اپنی کہانیاں ہیں۔ یہی چچا مجھے ایک دن صدر میں جہانگیر پارک کے ایک گوشے میں بنے ایک ریسٹوران میں لے گئے۔ یہ حاجی گھسیٹے خان کی حلیم تھی۔ اس سے پہلے کورنگی میں یا تو محرم کے دنوں میں بنی حلیم اور کھچڑا کھائے تھے یا گلی میں ٹھیلوں پر بیچنے والوں کی حلیم بہ کراہت کھائی تھی کہ امی کو ان کی صفائی پر تحفظات رہتے تھے۔ لیکن گھسیٹے خان کی حلیم کا ایسا نشہ تھا کہ بعد میں جب ملازمت شروع کی اور جب کبھی جہانگیر پارک کے قریب سے گذرنا ہوا، گھسیٹے خان کی حلیم ضرور کھائی۔ ایک بار اسی حلیم کے بدولت ایسی شدید “ زہر خورانی” ( فوڈ پوائزن) ہوئی کہ جان ہی نکل گئی۔ اس میں قصور شاید حلیم کا نہیں بلکہ ان مرچوں کا تھا جو میں نے جذباتی ہوکر کچھ زیادہ چھڑک لی تھیں۔
ٹھیک سے یاد نہیں کہ “ اللہ کی رحمت کا محمدی ہوٹل” تھا یا “ سندھ اسلامیہ ہوٹل”۔ اتنا یاد ہے کہ بولٹن مارکیٹ کے آس پاس ان دو میں سے کسی ہوٹل میں چچا مجھے لے گئے تھے جہاں پہلی بار “ دال فرائی” سے آشنائی ہوئی۔ اچار کی ایک لکیر جو پلیٹ کے ایک سرے سے دوسرے تک چلی گئی تھی دال کو عجیب دوآتشہ بناتی تھی۔ گرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی۔۔لیکن مجھے وہ دال فرائی آج بھی مل جائے تو میں فائیو اسٹار ہوٹلز کے فل کورس ڈنر کو تج دینے کو تیار ہوں۔ وہی، بخشم سمرقند وبخارا والی بات۔
چچا کے ساتھ ہی منوڑا میں کلب روڈ کی گلی جو سمندر کی جانب جاتی ہے ، میں بنے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں مچھلی فرائی کھائی جس پر چھڑکے ہوئے مصالحوں نے اس لذیذ تر بنادیا تھا۔ ہم کوکنیوں کا دعوا ہے کہ ہم دنیا کی لذیذ ترین مچھلی بناتے ہیں۔ اگر منوڑا کی مچھلی پسند آئی تو یقیناً اس میں کچھ بات ضرور تھی ورنہ حسن اسکوائر پر رہتے ہوئے وہاں کی مشہور مچھلی کو میں نے آج تک منہ نہیں لگایا۔
صدر ٹرام پٹے پر دودھ دہی ایک دکان تھی جو شاید پارسی ٹیمپل سے متصل تھے یا اس کے کونے پر تھی۔ شاہراہ عراق سے سندھ سیکریٹریٹ اپنی پہلی ملازمت پر جاتے ہوئے اکثر وہاں رک کر اونٹے ہوئے دودھ کا پیالہ پیتا۔ اس دکان کی لسی بھی مشہور تھی لیکن نیو پنجاب جیسی نہ تھی لیکن دودھ بڑا مزیدار ہوتا۔
اب تو شاید کسی کو یاد بھی نہ ہو کہ پلازہ سنیما کہاں ہوتا تھا۔ اس پلازہ سنیما کے سامنے ایک چھوٹے سے کھوکھے پر ایک میلا کچیلا سا عمر رسیدہ میمن بوڑھا مٹر کے بھنے ہوئے دانے (جسے بمبئی کی زبان میں “ وٹانے” کہتے ہیں) کو ایک بڑی سی دیگچی میں ابال رہا ہوتا۔ اسے وہ “ رگڑا” کہتا تھا۔ اس رگڑے پر نمک مرچ چھڑک کر دیتا اور اگر آپ اپنی نفاست پسندی کو ایک طرف رکھ دیں تو آپ ایک ناقابل فراموش ذائقے سے آشنا ہوجاتے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بوڑھا اب نہیں ہوگا نہ اس کا رگڑے کا کھوکھا۔ پلازہ سنیما بھی نہیں رہا۔ مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے۔
ذائقوں کے اس سفر میں کئی چھوٹے موٹے مقام اور بھی ہیں کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔ یونائٹیڈ بیکری کے پف اور پیٹیز، ہانگ کانگ چائنیز کیفے کا چکن کارن سوپ، سلیمان مٹھائی والے کا کھاجہ، پاسپورٹ آفس کے پاس بکنے والا گنے کا رس، بحرین میں شکری کا شاورما اور بحرین میں ہی “ فش اینڈ چپس “کی واحد دکان کے فش اینڈ چپس جس کے کھانے کے بعد آپ گوروں کے فش اینڈ چپس کو نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ اور اوال سینما والی سڑک کے کونے پر ایرانی کا روٹی میں رول کئے ہوئے تکے اور کلفے والے سلاد والا سینڈویچ۔ بلیک برن ، انگلینڈ کی جہازی سائز کی بالو شاہی اور لندن کے انبالہ سوئیٹس کے گلاب جامن اور حبشی حلوہ۔
ان میں سے شاید ایک آدھ ذائقے سے آپ بھی آشنا ہوں۔ آپ کے اپنے تجربات ہوں گے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا ذوق ، اپنی اپنی پسند ہوتی ہے۔ بس یہ خیال رہے کہ کہ ان میں سائل اور محروم کا بھی حق ہے۔ ان سے لطف اندوز ہوں تو انہیں بھی یاد رکھیں۔ ساری دنیا میں یہ نعمتیں بکھری ہوئی ہیں۔ اور تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھلاؤگے۔ الحمدللّٰہ ، ثم الحمدللّٰہ

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply