• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اوّل سربراہ بین العسکری الخدماتی مخابرت (DG ISI) میجر جنرل سید شاہد حامد۔۔ بلال شوکت آزاد

اوّل سربراہ بین العسکری الخدماتی مخابرت (DG ISI) میجر جنرل سید شاہد حامد۔۔ بلال شوکت آزاد

پاکستان کی اور دنیا کی اوّل عدد کی طاقتور ترین ایجنسی آئی ایس آئی کسی تعارف اور  تعریف کی محتاج نہیں۔

یہ وہ واحد ادارہ ہے جس پر اپنے پرائے وقت بے وقت انگلی اٹھا کر سستی شہرت کما لیتے ہیں پر تنہائی میسر آتے ہی اس کی اہمیت اور اہلیت کے گرویدہ ہوجاتے ہیں کہ جو بھی ہے بین الخدمت مخابرت مطلب آئی ایس آئی کی ٹکر کا کوئی نہیں۔

پوری دنیا جو کہ گول ہے گھوم پھر کر آجائیں, آپ کو ایسا کوئی نہیں ملے گا جو آئی ایس آئی سے واقف نہ ہو اور آئی ایس آئی سے ٹکر لیکر پچھتایا نہ ہو؟

یہ ایجنسی اندرون بیرون کسی دشمن کو معاف نہیں کرتی۔

دشمن ایجنسیوں کے ٹریننگ سکولز میں پاکستان اور آئی ایس آئی پر مخصوص اسباق پڑھائے اور رٹائے جاتے ہیں اور بار بار تربیت حاصل کرنے والے ایجنٹس کو وارننگ کے ساتھ یہ بات ازبر کروائی جاتی ہے کہ

“کبھی بھی, کبھی بھی کسی مشن میں پاکستان کی آئی ایس آئی کو انڈر اسٹیمیٹ مت کرنا اور بھولنا بھی مت۔”

یہ جتنی طاقتور ایجنسی ہے اتنی ہی غریب ایجنسی بھی ہے مقابلے پر موجود دیگر ایجنسیوں کے لیکن اس کی کامیابیوں اور دشمن کو پہنچائی زک کی فہرست بہت لمبی اور محیر العقل ہے۔

بہرحال آج ہمارا موضوع آئی ایس آئی کی تاریخ, مشنز اور کامیابیوں کا ذکر کرنا نہیں بلکہ ان انسانوں کے بارے جاننا ہمارے اس سلسلے کی بنیادی اور اہم وجہ ہے جنہوں نے اوّل دن سے لیکر آج تک اس ادارے کی سربراہی کی اور اس کو آج اس مقام تک پہنچایا جو کہ اس کا حق تھا۔

ابتک اس ادارے کے 23 سربراہ آئے اور اب میجر جنرل فیض حمید صاحب 24ویں سربراہ مقرر ہوئے ہیں۔

ہم اس مختصر تحریر میں پہلے ڈی جی آئی ایس آئی کی مختصر تاریخ اور عسکری خدمات کا احاطہ کریں گے۔

مطلب یہ کہ آج اس تحریر میں ہم میجر جنرل سید شاہد حامد کی خدمات اور اعزازات کا تذکرہ کریں گے۔

میجر جنرل سید شاہد حامد کون تھے؟

میجر جنرل سید شاہد حامد, آئی ایس آئی کے بانیوں میں سے ایک اور پہلے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی تھے۔

یہ پاک فوج کے اولین جرنیلوں میں سے ایک ٹوسٹار جنرل اور سب سے بڑی بات اس وقت کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹو اور صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان کے نہایت قریبی تھے۔

یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ایوب خان کے مارشل لاء میں کھڑی رکاوٹیں دور کرنے اور ان کو طاقتور کرنے والے یہی میجر جنرل سید شاہد حامد تھے۔

ان کا ایک اور اعزاز بھی رہا ہے کہ یہ پاکستان آرمی کے پہلے ماسٹر جنرل آف آرڈیننس MGO بھی رہے ہیں۔

ان کی ذات سے جڑی متنازع باتوں میں ایک تو یہ کہ ان کی اور ایوب خان کی قربت بہت مشہور ہے اور دوسری بات یہ کہ یہ بدنام زمانہ ممبئی کی پیدائش اور برطانوی ناول نگار و گستاخ رسول ص سلمان رشدی کے رشتے میں انکل تھے جو خود ایک بہت بڑا ناقد ہے آئی ایس آئی کا ابتک۔

میجر جنرل سید شاہد حامد سترہ ستمبر 1910ء میں برٹش انڈیا کے لکھنوؤ میں پیدا ہوئے۔

شاہد صاحب علی گڑھ یونیورسٹی جانے سے قبل “کولوِن تعلقدار اسکول لکھنؤ” کے طالبعلم رہے 1923ء میں اور بعد از سکول آپ علیگڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہوئے ریاضی میں B.A اور M.A کی ڈگری کے ساتھ۔

تعلیم کی تکمیل کے بعد رائل آرمی میں شمولیت کی غرض سے رائل ملٹری کالج سینڈہرسٹ میں قبولیت ملی 1932ء میں اور پھر کمیشن ملا ان اٹیچڈ لسٹ کی بنیاد پر رائل انڈیا آرمی میں 1 فروری 1933ء میں۔

شاہد صاحب 16 فروری 1934ء کو واپس ہندوستان پہنچے جہاں انہیں مختصر عرصے میں 2nd بٹیلین آف دا پرنس آف ویلز والنٹیرز (ساؤتھ لنکاشائر) رجمنٹ کے ساتھ اٹیچڈ کردیا گیا الہ آباد بھارت میں۔

پھر 12 مارچ 1935ء کو شاہد صاحب کو رائل انڈین آرمی کے تحت 3rd کیولری میرت پوسٹ کردیا گیا۔

شاہد صاحب بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ سینئر تسلیم ہوئے 31 اگست 1933ء میں جو کہ ایک اور سنگ میل تھا ان کی زندگی کا۔

پہلے پہل شاہد صاحب کو رائل انڈین آرمی کور میں عارضی طور پر اٹیچ کیا گیا تھا پھر بعد میں 1940ء کے بعد پکی ٹرانسفر کردی گئی رائل انڈین آرمی کور میں ہی۔

شاہد صاحب نے فورٹ سینڈیمن, کوہاٹ میں اور بعد ازاں رسالپور میں اپنی عسکری خدمات انجام دیں رائل انڈین آرمی کے لیئے۔

شاہد صاحب کو بطور لیفٹیننٹ 30 نومبر 1935ء اور بطور کیپٹن 31 اگست 1941ء کو ترقی ملی۔

جنگ عظیم دوم کے دوران شاہد صاحب برطانیہ کی طرف سے رائل انڈین آرمی میں برما کے محاذ پر لڑے جہاں دوران جنگ ان کی آنکھوں کو زخم آئے اور بری طرح آنکھیں متاثر ہوئیں جہاں سے انہیں رنگون سے ہی پیچھے براستہ شوابو کلکتہ آنا پڑا بغرض علاج معالجہ۔

انہیں 1943ء میں مکمل علاج کے بعد فٹ قرار دیا گیا ڈیوٹی کے لیے  اور پھر یہ بطور سینئر انسٹرکٹر کمانڈ اینڈ سٹاف کالج, کوئٹہ میں ابھرے۔

فیلڈ مارشل کلاڈ آچنلیک نے شاہد صاحب کی قابلیت دیکھ کر انہیں 28 مارچ 1946ء میں اپنا پرائیویٹ سیکریٹری متعین کردیا اور شاہد صاحب نے اس ذمہ داری پر رہتے ہوئے فیلڈ مارشل کے بہت سے فیصلوں میں بنیادی اور اہم کردار ادا کیا۔

اور قابل فخر بات یہ بھی ہے کہ شاہد صاحب بھی تحریک آزادی کے گمنام کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے پاکستان کی آزادی تک آخری چند ماہ بہت اہم کردار ادا کیا قیام پاکستان کے لیے۔

قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پاکستان آرمی کو جوائن کرنے کے لیئے ترجیح دی۔

بطور لیفٹیننٹ کرنل شاہد صاحب نے 1948ء میں پہلا دفتر بین الخدماتی مخابرت یعنی آئی ایس آئی ہیڈ کواٹر کراچی میں قائم کیا اور وہیں سے ابتدائی کام شروع کیا ملک و ملت کے وسیع تر مفاد میں۔

اوّلین عسکری آپریشن کشمیر کی آزادی کے لیئے 1947ء میں شاہد صاحب نے ہی شروع کروایا جو پہلی پاک بھارت جنگ کی شکل اختیار کرگیا۔

ان کا اعزاز ہے کہ 1951ء میں یہ صرف 41 سال کی عمر میں پاکستان کے سب سے کم عمر جنرل بنے پاک فوج میں۔

شاہد صاحب 1958ء میں ایجوٹنٹ جنرل آف آرمی بنے بطور انعام فیلڈ مارشل ایوب خان کو طاقت دلانے اور نہایت قریبی ہونے کی وجہ سے۔

اسی طرح ترقی کرتے ہوئے 1960ء میں پاکستان کے پہلے ماسٹر جنرل آف آرڈیننس تعینات ہوئے جوکہ ان کا ایک اعزاز ہے۔

میجر جنرل سید شاہد حامد 1964ء میں ریٹائر ہوئے اور ان کو انکے ڈسچارج پر مکمل عزت اور اعزاز نوازے گئے ایک آرمی چیف کی طرح۔

دوبارہ 1978ء میں ان کو صدر جنرل ضیاء الحق نے سرکاری سمن دیکر بلایا اور ان کی بطور فیڈرل کیبنٹ منسٹر خدمات لیں تین سال تک۔

میجر جنرل ریٹائرڈ سید شاہد حامد نے ایک زبردست زندگی گزاری فوج اور پاکستان کی خدمت میں۔

بعد از ریٹائرمنٹ شاہد صاحب نے تعلیم و تربیت میں وقت گزارا دلچسپی کے ساتھ اور سرسید کالج بنانے میں مدد دی اور اس کے سربراہ رہے۔

اور جب شاہد صاحب نے پاکستان کے پہاڑی شہروں اور سیر گاہوں کی سیر کی خاص کر شمالی علاقہ جات کی تو وہاں کے لوکل عوام کی مدد کا بیڑا اٹھایا اور روڈز پروجیکٹ کے ذریعے اور سیاحتی مضامین و کتب لکھ کر ان خوبصورت سیرگاہوں کا تعارف کروایا عوام کو تاکہ پاکستان میں سیاحت کو فروغ مل سکے۔

اپنی عمر کے آخری بیس سال شاہد صاحب نے صرف کتابی اور تحقیقی کام کیا الگ الگ کتب لکھ کر اور تحقیق کرکے۔

شاہد صاحب نے لگ بھگ پانچ کتب لکھیں شمالی علاقہ جات, پاکستان موومنٹ کی سیاست اور پاک فوج کے متعلق جس میں سے ایک ان کی آب بیتی بھی ہے “ایک جنرل کی آپ بیتی” کے نام سے۔

شاہد صاحب 12 مارچ 1993ء میں 82 سال کی عمر میں راولپنڈی میں طبعی موت سے فوت ہوئے۔

شاہد صاحب کی زندگی کا کل سرمایہ ان کی پاکستان کے قیام میں زمین دوز محنت اور بعد از قیام آئی ایس آئی کا قیام کرکے ملک کو محفوظ ہاتھوں میں سونپنا اور کشمیر کی آزادی کی خاطر پہلا قدم اٹھانا ہے۔

شاہد صاحب نے برٹش رائل آرمی, رائل انڈین آرمی اور پاک فوج میں بطور کمیشنڈ آفیسر خدمات انجام دیں اور ان کو پاکستان کے اولین ٹو سٹار جنرل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

ایجوٹنٹ جنرل آف آرمی, اے ڈی جی آئی ایس آئی, ماسٹر جنرل آف آرڈیننس, ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس, کیبنٹ فیڈرل منسٹر ہونا ان کے اضافی اعزازات ہیں۔

شاہد صاحب نے بطور کمیشنڈ آفیسر دوسری جنگ عظیم برما کے محاذ پر پہلے 1941ء سے 1942ء اور پھر 1944ء سے 1945ء , 1947ء کی پہلی پاک بھارت جنگ اور لداخ ملٹری آپریشن کی کمانڈ کی اور حصہ لیا۔

شاہد صاحب کو ہلال جرات سے نواز گیا جبکہ ان کی زندگی کا تاریک پہلو یہ ہے کہ یہ بدقسمتی سے سلمان رشدی ملعون کے انکل تھے۔

بہرحال ہم آج جس نمبرون ایجنسی آئی ایس آئی کو جانتے ہیں اس کی تاریخ لکھتے وقت ہم میجر جنرل ریٹائرڈ سید شاہد حامد کو فراموش نہیں کرسکتے۔

شاہد صاحب نے جس ایجنسی کا بیج کراچی کے ایک چھوٹے سے دفتر میں بویا تھا آج وہ ایک تناور درخت بن کر پاکستان پر سائبان بن کر کھڑا ہے اور کسی کی جرات نہیں کہ وہ پاکستان کی طرف میلی نظر سے دیکھ سکے۔

اللہ میجر جنرل سید شاہد حامد کو جوار رحمت میں جگہ دے اور ہمیں ان کی خدمات یاد رکھنے کی توفیق دے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بیشک یہ قیمتی لوگ یاد رکھے جانے کے قابل ہیں جن کی وجہ سے ہم قصہ پارینہ بننے سے بار بار بچے ہیں۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply