طلب جہیز اور خواہش نمائش۔۔ولائیت حسین اعوان

سوشل میڈیا پر ان دنوں جہیز کے خلاف مہم زور و شور سے چل رہی ہے۔
یہ مہم اس وقت شروع ہوئی جب معروف ڈیزائنر علی ذیشان نے اپنے ایک فیشن شوٹ کو جہیز کے خلاف عوام میں شعور اجاگر کرنے کا ذریعہ بنایا۔
ایک تصویر آئی اور پھر سوشل میڈیا پر یہ تصویر لوگوں کے دلوں کو متاثر کرتی اور پگھلاتی چلی گئی۔

تصویر میں ایک دلہن خوبصورت لال لباس میں ملبوس جہیز سے لدی ایک گاڑی کو بمشکل گھسٹینے کی کوشش کر رہی ہے اور سجا سنورا دلہا بھی اسی چھکڑے پر سامان کے اوپر سوار ہے۔ اس
جہیز سے لدی گاڑی کو انتہائی کرب اور مردہ دلی کے ساتھ گھسیٹتی ہوئی دلہن کے چہرے کے تاثرات اور تصویر کے پیغام نے لوگوں کو دکھی کرتے ہوئے سوچنے پر مجبور کر دیا۔

“نمائش نہ لگا ؤ جہیز خوری بند کرو” کے عنوان سے یہ مہم دیکھتے ہی دیکھتے عروج پکڑتی گئی اور سماجی تنظیموں اور عوام نے اس مثبت اور عمدہ پیغام کو خوب سراہا۔

لوگ اس تصویر پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ تصویر لڑکی والوں کی پریشانی اور بڑے مسئلے کی حقیقی ترجمانی کر رہی ہے، کوئی مستقبل میں جہیز نہ لینے کا عہد کر رہا ہے۔
کوئی تصویر والے کو سراہ رہا ہے تو کوئی جہیز کو لعنت کہتے ہوئے اُن پڑھے لکھوں کو بھی کوس رہا ہے جو لڑکی سے جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں۔

جس معاشرے میں لڑکی کو وراثت میں حق دینے کے بجائے جھوٹی کاغذی کارروائی سے  بےخبر رکھ کر جائیدادیں اپنے نام کروا لی جاتی ہیں اور لڑکی کو جہیز دے کر اسکی شادی کر کے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ بس اب اسکا حق ادا ہو گیا ،اس معاشرے میں ایسی عوامی آگاہی مہم اور عوام کی پذیرائی حوصلہ افزا اور خوش آئند بات ہے۔

اگر اس طرع کی بیداری مہم سے معاشرے میں اصلاح ہوتی ہے اور غریب بچیوں کے والدین کو جہیز کی فکر سے آزادی ملتی ہے تو شعور اجاگر کرنے اور احساس دلانے کے ایسے جہاد معاشرے میں ضرور ہونے چاہیئں۔

ایک بات اور بھی موضوع ِ بحث ہے کہ جس فیشن ڈیزائینر نے اس مہم کو پروموٹ کیا اسکے اپنے ڈیزائین کیے گئے ڈریسز کی قیمت لاکھوں میں ہے۔اب وہ دلہن والے خود خریدیں یا دلہا والے خرید کر دلہن کو دیں ،ایک دن میں چند گھنٹوں کے لیے پہننے والے لاکھوں کے لباس بھی تو کسی لعنتی  نمائش اور برائی سے کم نہیں۔اس کے خلاف بھی آواز اٹھانی چاہیے اور عملی اقدامات  کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جس کو سوشل میڈیا کے ٹرینڈ فالورز نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ ذہن میں رہے جہیز لعنت نہیں سنت ہے،ہمارے پیارے آقا خاتم النبین صلی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی سیدہ کائنات بتول علیہ السلام کو بھی اپنی استطاعت کے مطابق کچھ عطا فرما کر رخصت فرمایا۔اور یہ جہیز انھوں نے اپنی خوشی سے عطا فرمایا۔اسکا مطالبہ نہیں کیا گیا۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جہیز لعنت ہے یا لڑکی والوں سے جہیز کے نام پر فرمائشیں کرنا اور اپنی پسند کی چیزیں مانگنا لعنت ہے؟

جہیز چونکہ ٹھوس خرچہ ہے اسی لئے صدیوں تک نظر اور ذکر میں رہا ہے لیکن جو خرچہ شادیوں پر دونوں طرف سے بےکار کے رسم و رواج اور برادری میں ناک اونچا کرنے کے لیئے کیا جاتا ہے وہ جہیز سے دوگنا ہوتا ہے لیکن اس کا نہ ذکر ہوتا ہے نہ وہ نظر آتا ہے۔کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

کیا ہمارا اسلام کسی طرح بھی ان مہنگی اور فضول خرچ جملہ رسم و رواج کی ہلکی سی بھی اجازت دیتا ہے جنہیں ہم جہیز، مایوں، مہندی، بینڈ باجا، آتش بازی، ناچ گانے،لمبی چوڑی بارات، بَری، بِد، شادی کی رسمیں (جوتا چھپائی, راستہ رکوائی, دودھ پلائی, شیشہ دکھائی وغیرہ وغیرہ), سلامی، بھاری بھرکم حق مہر، حق مہر کے علاوہ اضافی مال و زر کی ضمانت لکھوانا، طلاق کی شرائط میں مال و زر لکھوانا، منہ دکھائی، نمائشی ولیمہ، نیوندرا اور نجانے کیا کیا ہے جو دونوں طرف برابر اخراجات کا موجب بنتا ہے۔

تصویر کے صرف ایک رخ پر بات ہوتی ہے جبکہ اس دور میں لڑکی والوں کے ساتھ لڑکے والے بھی مصیبتیں جھیل رہے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔ لڑکی والوں سے جہیز مانگنا حرام ہے لیکن لڑکے والوں سے لڑکی کے لیئے کوٹھی کار لاکھوں کا حق مہر اور زیورات وغیرہ کی فرمائشیں کرنا کیا حلال ہے ؟

بےشک لڑکے والوں کی جانب سے جہیز کا مطالبہ لعنت ہے ، لیکن شادی سے پہلے لاکھوں کی تنخواہ پانے والا یا کامیاب کاروبار کرنے والا رشتہ ڈھونڈنا ، عالیشان گھر ، کار, پرکشش ملازمت جیسی سوچ اور فرمائشیں بھی قابل تعریف نہیں۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ لڑکی والے بھی یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں لڑکے کا گھر اپنا ہونا چاہیے۔ لڑکے کی جوائنٹ فیملی نہ ہو،سسرال ہو تو بہت مختصر ہو شادی کے بعد الگ گھر ہونا چاہیے،شادی کا لہنگا لڑکے والے قیمتی سے قیمتی لے کر دیں، بارات کم افراد کے ساتھ لائی جائے لیکن ولیمہ بڑا اور شاندار ہو۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لڑکا لڑکی دونوں اطراف سے سوچنا ہو گا کہ شادی ایک خاندان کی بنیاد ہوتی ہے اور اس بنیاد کو خلوص نیت ایثار اور احساس سے شروع کرنا چاہیے نہ کہ لالچ خودغرضی اور دھوکے سے۔اس دور میں نہ صرف لڑکیاں بلکہ لڑکے اپنی جوانیاں شادی کے انتظار میں ختم کیے بیٹھے ہیں لیکن ہمارے فضول رسم و رواج غیر اسلامی اور غیر انسانی سوچیں اور توقعات لڑکی کو ساری عمر والدین کی دہلیز پر بٹھائےرکھتے ہیں اور لڑکے کو کسی غلط راستے کا مسافر بنا دیتے ہیں۔

Facebook Comments

ولائیت حسین اعوان
ہر دم علم کی جستجو رکھنے والا ایک انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”طلب جہیز اور خواہش نمائش۔۔ولائیت حسین اعوان

  1. ولائیت صاحب بہت ہی نفیس الطبع اوعر سلیم الفطرت انسان ہیں۔ ذاللہ تعالی سے اعوان سصاحب کی درازی عمر کیلئےے دعا ہے۔ آمین۔

Comments are closed.