• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(بیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(بیسواں دن)۔۔گوتم حیات

امرتا پریتم کا ناول “ایک تھی سارہ” پڑھ کر ہم کنفیوزڈ ہو گئے تھے، ہمیں یہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ “ایک تھی سارہ” محض ناول ہے یا اس نام کی کوئی “شاعرہ” واقعی میں کراچی کے علاقے ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن پر خودکشی کر کے ابدی نیند سو چکی ہے۔ ہمیں سارہ کی زندگی اور اس کی المناک موت پر بیحد دکھ تھا۔ وہ ناول پڑھنے کے کچھ ہی دنوں بعد ہم نے سارہ کو انٹرنیٹ پر تلاش کرنا شروع کیا اور یوں ہماری ملاقات عطیہ داؤد کی خودنوشت سے ہو گئی۔ محترمہ عطیہ داؤد نے اپنی خودنوشت میں پورا ایک مضمون “سارہ” پر لکھا تھا، مضمون کا عنوان تھا “سارہ میری دوست”۔ یہ پڑھنے کے بعد ہمیں یقین ہوا کہ سارہ ایک جیتا جاگتا وجود تھی۔ جس نے اس معاشرے کی بدسلوکیوں سے خائف ہو کر ایک اذیت ناک موت کو ترجیح دی۔

صدف کی انگلش بہت اچھی تھی۔ اس کی  سپیکنگ  سکلز کا تو کوئی ثانی ہی نہیں۔ مجھے اور صائمہ کو صدف  کے  جیسی اچھی انگلش کرنے کی ہمیشہ حسرت ہی رہی (باوجود کوشش کے ہماری  سپیکنگ  سکلز بہتر نہ ہو سکیں، صائمہ تم نے تو اٹلی جا کر انگلش  سپیکنگ میں کچھ مہارت حاصل کر لی لیکن میں ابھی بھی اُسی  سٹیج پر کھڑا ہوں)۔ صدف اُن دنوں سڈنی شیلڈن اور پاولو کوئیلو کو بہت رغبت سے پڑھتی تھی۔ الکیمسٹ ناول پڑھنے کے بعد صدف نے پاؤلو کوئیلو کو ایک عدد “ای میل” بھی بھیجی تھی۔ اس وقت مجھے یہ یاد نہیں آرہا کہ پاؤلو کوئیلو نے صدف کی بھیجی ہوئی ای میل کا کوئی جواب دیا بھی تھا یا نہیں۔۔۔

گورکی کے ناول “ماں” کے سو برس مکمل ہوئے تو اس کا ایک  سپیشل اردو ایڈیشن ہمیں اردو بازار سے ملا۔ میں نے اس ناول کا سرسری سا مطالعہ کر کے چھوڑ دیا تھا لیکن صائمہ نے اس ناول کو کچھ ہی دنوں میں پڑھ کر ختم کر دیا۔ اُن دنوں ناول “ماں” کے کرداروں کے سارے دکھ درد صائمہ کی شخصیت سے ٹپکنے لگے، صائمہ اکثر اوقات اس ناول کے کرداروں کے بارے میں مجھ سے اور صدف سے بات کرتی، مجھے اور صدف کو بھی “ماں” کے کرداروں پر دکھ تھا یہ الگ بات کہ ہم دونوں نے اس ناول کو نہیں پڑھا تھا بس صائمہ کی زبانی “ماں” کے کرداروں کا تعارف سُن سُن کر ہم بھی رنجیدہ رہنے لگے تھے۔

دسمبر کی ایک سرد شام ہم لوگ لائبریری کی  سیڑھیوں  پر بیٹھ کر گرم گرم چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ صائمہ نے “ماں” کے کرداروں کا پٹارا کھول دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ “وہ اس ناول کے کچھ پیراگراف کی فوٹو کاپی کروا کر یونیورسٹی کی دیواروں پہ چسپاں کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس کے علاوہ وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ  سٹوڈنٹس میں ان منتخب پیراگراف کی نقل کو بڑے پیمانے پر تقسیم کیا جائے”، مجھے اور صدف کو صائمہ کا یہ “خیال” ایک آنکھ نہیں بھایا تھا، اس شام جبکہ ابھی ہم چائے پی رہے تھے لیکن صائمہ چائے کے ساتھ ساتھ “ماں” کے کرداروں کو بھی “پی” رہی تھی اسی لیے وہ ہمیں اس قسم کے خیالات سے آگاہ کر رہی تھی۔ صدف نے صائمہ کا یہ “خیال” سُن کر کہا تھا؛
“تم کیا بیوقوف ہو جو ایک شائع شدہ ناول کے منتخب پیراگراف یونیورسٹی کی دیواروں پہ لگاؤ گی اور انہیں پھر  سٹوڈنٹس میں تقسیم کرتی پھرو گی، یہ کوئی عقلمندی نہیں، بہت ہی فضول قسم کی ایکٹیوٹی ہے، کم سے کم میں تو اس چیز میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتی، اگر کچھ کرنا ہی چاہتی ہو تو خود سے کچھ لکھو، اتنے موضوعات ہیں لکھنے کے لیے، یہ تو کوئی تخلیقیت نہ ہوئی کہ آپ ایک شائع شدہ ناول کے پیراگراف دیواروں پر چسپاں کرتی پھر رہی ہیں”، صدف کی لمبی تمہید سُن کر صائمہ نے اپنا یہ نیک “خیال” ہمیشہ کے لیے کہیں دفن کر دیا تھا۔

آج میں کرونا ڈائریز کی بیسویں قسط کو آدھا لکھ چکا ہوں۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ پچھلے اُنیس دنوں سے میں ہر روز ایک نئی قسط پڑھنے والوں کو مہیا کر رہا ہوں۔ اس وقت شام کے پانچ بج کر انتالیس منٹ ہوئے ہیں، عصر کی اذان کچھ دیر پہلے ہی اختتام پذیر ہوئی ہے۔ میں نے آج پورا دن سو کر گزارا، گرمی بہت زیادہ تھی اور میرے کمرے کا پنکھا بھی خراب ہے اس لیے میں گزشتہ رات چار بجے کے وقت نیچے امی کے کمرے میں جا کر سو گیا تھا، صبح سے شام تک وہیں سوتا رہا، درمیان میں اُٹھ کر ایک کپ چائے پی اور دوبارہ لیٹ گیا، دن کے وقت اُٹھ کر نہایا، گرمی مزید بڑھ چکی تھی بغیر پنکھے کے اپنے کمرے میں بیٹھنا محال ہو گیا، اس لیے امی کے بیڈ پر جا کر دیر تک سوتا رہا، ساڑھے چار بجے کے قریب میری آنکھ کھلی، امی نے چائے بنائی ہوئی تھی میں نے چائے کے دو کپ پیے اور فریج سے حلوہ نکال کر کھایا، اس کے بعد میں اپنے کمرے میں بیٹھ کر ڈائری لکھنے لگا۔

سورج اب ڈھلنے کو ہے، مغرب کے بعد موسم خوشگوار ہو جائے گا اور یقیناً گرمی کا زور بھی ٹوٹے گا۔ ان دنوں سورج ڈوبنے کے بعد رات بھر ہلکی ہلکی فرحت بخش ہوائیں چلتی ہیں، لگتا ہی نہیں کہ دن کو گرمی تھی۔

اپنے موبائیل پر میسج موصول ہونے کی آواز سے چونک کر، لکھنے کا سلسلہ عارضی طور پر روک کر، میں میسج چیک کرنے لگتا ہوں۔
ایک دوست کے تین میسیجز آئے ہوئے تھے، اس نے مجھ سے پوچھا تھا۔۔
“عاطف ملیر کا علاقہ مکمل طور پر بند کیا جا رہا ہے، تمہارا یُو سی کون سا ہے؟؟؟ سب خیریت ہے؟”

میسیجز پڑھ کر میں پریشان ہو جاتا ہوں۔ ملیر تو بہت بڑا ہے، یہ مکمل طور پر کیسے بند ہو سکتا ہے۔۔۔ مجھے تو اپنے یُو سی کا بھی علم نہیں کہ کون سا ہے، شاید ملیر کے کچھ مخصوص علاقے کرونا کی وجہ سے بند کیے جارہے ہوں گے۔ تو اب کرونا کی وجہ سے علاقوں کو “سِیل” کرنے کی گھڑی آپہنچی ہے، علاقوں کو مکمل طور  پر سِیل کرنے کی باتیں تو کرفیو کے دنوں میں ہوا کرتی تھیں، اُس زمانے میں دہشت گردوں (شاید وہ دہشت گرد تھے بھی یا نہیں، عام انسان تو کسی بھی طاقتور کو دیکھ کر دہشت میں مبتلا ہو جاتا ہے، چاہے وہ دہشت گرد عام لباس میں ہو یا وردی میں ہو) سے نمٹنے کے لیے وردی والے مختلف علاقوں کو مکمل طور پر بند کر لیا کرتے تھے، سخت پہرے ہوتے تھے، شہریوں کی نقل و حرکت مکمل طور پر مفلوج کر دی جاتی تھی، بس سانس لینے کی آزادی تھی، اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں تھی کہ اگلی سانس آپ اندھی گولی لگنے کی وجہ سے بستر مرگ پر لیں گے یا اپنے گھر والوں کے ساتھ ہنسی خوشی چائے نوش کرتے ہوئے لیں گے۔ کیسا وحشیانہ زمانہ تھا وہ اور اب اس کرونا کی وجہ سے علاقوں کو مکمل طور پر سیل کرنا؟۔

یہ وائرس تو دن بہ دن طاقتور ہوتا جا رہا ہے۔ شہر میں گزشتہ بیس، بائیس دنوں کے لاک ڈاؤن کے بعد کرونا کی وبا نہیں رک سکی تو اب علاقوں کو سیل کرنے کی نوبت آپہنچی ہے۔۔۔۔ اس لمحے میرے اندر ہمت نہیں ہوتی کہ میں اپنے کمرے سے نکل کر نیچے جاؤں اور ٹی وی پر خبریں دیکھ کر اس بات کی تصدیق کروں کہ یہ خبر درست ہے یا نہیں۔۔۔ اب تو ہر گزرتا ہوا لمحہ تباہی و بربادی کی المناک خبریں ہمیں سونپتا ہوا رخصت ہو رہا ہے۔

کل رات میرے ایک دوست “ڈاکٹر طارق کاکڑ” نے امریکہ سے فون کر کے مجھے یہ افسوسناک خبر سنائی کہ”اس کی ایک امریکن دوست کرونا کی وجہ سے ختم ہو گئی ہے، اس بدنصیب کے دو چھوٹے بچے بھی ہیں۔۔۔”

کراچی سمیت ملک بھر میں کرونا کے کیسز دن بہ دن بڑھ رہے ہیں۔ یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ کرونا کا ٹیسٹ کرنے کی سہولت نہایت ہی محدود ہے، ہسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے۔ اگر کرونا کے ٹیسٹ کرنے کی سہولیات میں اضافہ کر دیا جائے تو بہت سے مریضوں کا نتیجہ مثبت ہی نکلے گا۔

ایک چھوٹے سے وائرس نے چاند اور مریخ پر کمندیں ڈالنے والے بہادر انسان کو صدیوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ایک طویل و تاریک دُھند کی دبیز تہوں میں پھنسے  ہوئے  ہم سب کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں۔ کیا کوئی مسیحا آئے گا۔۔؟؟؟ گزرے زمانوں کے صحیفوں میں تو یہی درج ہے۔۔۔ یا اُن صحیفوں میں درج باتیں محض ہمیں خوش فہمیوں میں مبتلا کرنے کے لیے گھڑی گئیں تھیں اور ہم اُن حرفوں کی صداقت پر اپنے جسمانی وجود سے بھی بڑھ کر ایمان لے آئے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply