نومبر 1900 کی طوفان صبح تھی جب نیویارک کی بندرگاہ سے جرمنی کے لئے بحری جہاز دو ہزار مسافر لے کر نکلا۔ اس میں چار مسافر جیمز کولووے، جان رابنسن، ایلن برکس اور شیپرڈ ہیرس تھے۔ یہ چاروں الابامہ کے غلاموں کے بیٹے تھے۔ اور یہ انہیں جرمنی نے اہم کام کے لئے بلایا تھا۔
جرمنی نے مغربی افریقہ کے علاقے ٹوگو پر 1884 میں قبضہ کر کے اسے اپنی کالونی بنایا تھا۔ ان چاروں سیاہ فام امریکیوں کے ذمے جو کام لگایا گیا تھا وہ اس علاقے میں کاٹن کلچر بنانے کے طریقے دیکھنا تھا۔
اگلے آٹھ سالوں میں ان ماہرین نے جرمن کالونیل حکومت کی راہنمائی کی۔ تجرباتی فارم بنائے گئے۔ کپاس کے نئے ریشے اس علاقے میں لائے گئے۔ کاٹن سکول کھولا گیا۔ انفرا سٹرکچر بنایا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرمن خود کپاس میں مہارت نہیں رکھتے تھے اور اس لئے انہیں امریکی ماہرین کی مدد کی ضرورت پڑی تھی۔ اس کے لئے جرمن زرعی اتاشی 1900 کے موسمِ گرما میں امریکہ گئے تھے۔ یہاں کے سیاہ فام ماہرین سے بات کی تھی اور انہیں قائل کیا تھا کہ “ٹوگو کے نیگرو کو سائنسی اور عقلی طریقوں سے کپاس کی پیداوار سکھائی جائے”۔ ستمبر تک ان ماہرین کا انتخاب ہو چکا تھا۔
جب یہ چاروں ٹوگو پہنچے تو ٹوو کے بادشاہ کے علاقوں پر ان کا اچھا استقبال کیا گیا۔ دو سو مقامی آدمیوں کی مدد سے اونچی گھاس اور درختوں کو صاف کر کے زمین ہموار کی گئی۔ خواتین اور بچوں نے جڑیں چن کر انہیں آ لگائی۔ مئی میں پچیس ایکڑ زمین صاف کر کے کپاس لگائی جا چکی تھی جبکہ جولائی میں ایک سو ایکڑ پر۔ مختلف قطعات میں الگ پودے اگا کر تجربہ کیا گیا۔
نتائج حوصلہ افزا تھے لیکن جلد ہی مسائل نے آن لیا۔
مثال کے طور پر ماہرین کے لئے یہ ناقابلِ تصور تھا کہ کامیاب کاٹن فارم باربرداری کے جانوروں کے بغیر بنایا جا سکتا ہے۔ جبکہ ٹوو کے دیہاتی بیل یا گھوڑے سے خوفزدہ تھے۔
اور نہ صرف یہ کہ یہاں کے کاشتکار خوف زدہ تھے بلکہ لائے گئے جانور بھی زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے۔ مقامی بیماریوں نے انہیں آن لیا۔
بارش کے پیٹرن بھی توقع کے مطابق نہ تھے۔ جولائی میں بارشوں نے لگائی گئی فصل کو خراب کر دیا۔ امریکی ماہرین مقامی آبادی سے سیکھ لیتے لیکن ایک مسئلہ زبان کا تھا۔
اگلا مسئلہ انفراسٹرکچر کا تھا۔ چوڑی ویگن کے لئے راستہ نہیں تھا۔ کپاس سے بیج الگ کرنے کے لئے جو سامان لائے تھے، وہ بندرگاہ پر پڑا تھا۔ بعد میں ان کی منتقلی کے لئے تیس آدمی بھرتی کئے گئے جو دو ہفتوں میں اسے کھیت تک لائے۔
انسانی قوت پر انحصار کپاس کے لئے مسئلہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان رکاوٹوں کے باوجود گرمیوں تک یہ ماہرین مصر کی کپاس کی ایک گانٹھ پیدا کر چکے تھے۔ سال کے آخر تک امریکی کپاس کی پانچ گانٹھیں تیار کی جا چکی تھیں۔ یہ زیادہ نہیں تھا لیکن کالونیل اکانومک کمیٹی نے اسے کامیابی قرار دیا۔ کالووے کا خیال تھا کہ یہاں پر اگلے کچھ برسوں میں ہزاروں گانٹھوں کی پیداوار ہو گی۔ ان کا مقصد ان ماہرین کو کپاس اگانے والے بنانا نہیں تھا۔ ان سے تکنیک سیکھنا اور اس نالج کو مقامی آبادی تک منتقل کرنا تھا۔
جرمن حکام کا پلان تھا کہ ایسے کئی ماڈل فارم بنائے جائیں اور یہاں کے کسانوں کو اچھے معیار کی کپاس اگانے، بیج الگ کرنے اور پیک کرنے کی تربیت اور ترغیب دی جائے۔ 1902 تک یہ ماہرین یہی کرنے کے لئے کئی جگہوں پر فارم بنا چکے تھے۔
جب یہ ماہرین پہلی بار ٹوگو پہنچے تھے تو یہاں سے لومے کی بندرگاہ تک آنے اور جانے میں پندرہ دن لگتے تھے۔ 1907 میں ریل روڈ کی تعمیر سے یہ فاصلہ چند گھنٹوں کا رہ گیا۔ انفراسٹرکچر کی تعمیر، قیمت کی گارنٹی، بیج کی فراہمی، اوتنے کی فیسلٹی اور منڈیوں پر کنٹرول ۔۔۔ کالونیل حکمرانوں کے اس علاقے کی پیداوار بڑھانے کے لئے کئے گئے اقدامات تھے۔
کاشتکاروں پر ٹیکس لگائے گئے جن کو “محنت” کی صورت میں ادا کئے جانا تھا۔ اس میں ریل روڈ بنانا، زمین کو کھیتوں میں تبدیل کرنے جیسے کاموں پر مزدوری کرنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹوگو میں کپاس کی پیداوار 1902 میں 31 ہزار پاونڈ سے بڑھ کر 1909 میں 11 لاکھ پاونڈ ہو چکی تھی۔ یہ جرمن کاٹن درآمد کا بہت چھوٹا حصہ تھی (نصف فیصد سے کم) لیکن بڑھنے کی رفتار کا مطلب یہ لگ رہا تھا کہ کالونیل پراجیکٹ کا مستقبل اچھا ہے۔ تاہم اگلے چار برس اس میں اضافہ نہیں ہوا۔ اور جرمن کالونیل حکومت کا 1913 میں ٹوگو سے خاتمہ ہو گیا۔ مقامی کاشتکاروں اور کالونیل حکومت کے مقاصد اور طریقے آپس میں ہم آہنگ نہیں تھے۔ یہاں انہیں کامیابی نہ ہو سکی۔ ٹوگو اس کے بعد فرانس کے پاس آیا۔ 1913 سے 1938 کے فرنچ دور میں یہ پیداوار تین گنا ہوئی۔
اس میں اصل اضافہ اس وقت ہوا جب ٹوگو نے آزادی حاصل کی۔ آج ٹوگو ساڑھے آٹھ کروڑ پاونڈ کپاس برآمد کرتا ہے۔ لیکن ٹوگو ابھی بھی دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کپاس کی سلطنت گلوبل تھی۔ مثلاً، 1910 میں اس میں انڈین تاجر شامل تھے جو کپاس کو یوگنڈا سے جاپان برآمد کرتے تھے۔ سابق امریکی غلام یورپیوں کو افریقہ میں کپاس اگانے میں راہنمائی کر رہے تھے۔ مدراس سے ایک ہندوستانی نے جرمن ٹیکسٹائل مل میں کام کیا تھا اور اب مشرقی افریقہ میں کپاس اگانے کا زمیندار تھا۔ ٹیکساس کے جاگیردار مصری ماہرین کے ساتھ کانگو میں کام کر رہے تھے تا کہ بلجیم کو پیداوار بڑھانے میں مدد کی جا سکے۔ روسی زرعی ماہرین انڈیا، مصر اور امریکہ کے دیہاتوں میں آبپاشی کے نظام سٹڈی کر رہے تھے۔ جاپانی زرعی بیوروکریٹ جرمن افریقہ میں زراعت کا مشاہدہ کر رہے تھے۔
برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر بارٹلے ڈینس نے 1913 میں کہا تھا کہ “کپاس دنیا کا سوال ہے۔ اس صنعت کی وجہ سے اب ہر ملک دوسرے پر منحصر ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس عالمی کیپٹلزم کا نیا جغرافیہ امریکی اور یورپی ریاستوں اور سرمایہ داروں نے تخلیق کیا تھا اور اس کے گلوبل ہونے کی ہی وجہ سے امریکہ اور یورپ کا غلبہ گرا لیا گیا۔ پیداوار دنیا بھر کی فیکٹریوں میں ہو سکتی تھی۔ مشینی تکلوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا لیکن 1920 میں یہ نئے تکلے یورپ اور امریکہ میں نہیں لگ رہے تھے۔
یہ سلطنت ایک بار پھر جنوب کی طرف منتقل ہونے لگی تھی۔
(جاری ہے)
ساتھ لگی تصویر ٹوگو میں 1901 میں کھینچی گئی۔ یہ امریکا سے بلائے گئے ماہرین کی پہلی کامیاب فصل پر کھینچی گئی۔ اس میں جرمن تعینات کردہ وائس گورنر، ٹیکنیکل ایکسپرٹ اور ادارے کے مقامی ملازمین ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں