میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ(9)-گوہر تاج

کیمپ میں قیدی نمبر دو سو چوبیس اور دوسرے قیدیوں کے روزمرہ کے شب وروز!

زندگی میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بے معنویت  اور قنوطیت کے لمحے آکے گویا ٹھہرسے جاتے ہیں، یوں لگتا ہے کہ جیسے

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

عمر یونہی تمام ہوتی ہے

اگلے دن سے کیمپ میں زندگی کا آغاز بیرک کے کمرے کے باہر صبح دس بجے قیدیوں کی لائین لگا کے کھڑے ہونے سے ہُوا۔ ہر کمرے کے باہر ایک آفیسر اور انڈین فوج کے دو تین سپاہیوں نے آکر ان قیدیوں کی گنتی کی۔ اس کے بعد آفیسر نے کہا کہ ہر قیدی کا ایک نمبر ایشو کیا جاۓ گا۔ پھر ہر ایک قیدی کو ایک گرم قمیض دی گئی۔ ان قمیضوں پہ آگےسینے پہ اور پیچھے ایک کراس کا نشان بنا ہُوا تھا جس پہ پی او ڈبلیو (پرزنر آف وار) یعنی” جنگ کے قیدی ”  لکھا ہُوا تھا۔جب مجھے قمیض ملی تو وہ ظاہر ہے کہ میرے بہت بڑی اور قدرے ڈھیلی بھی تھی۔ میں صرف بارہ تیرہ سال کا نابالغ لڑکا اور شرٹ کسی بالغ آدمی کے  ناپ کی۔ بہرحال مجھے وہی پہننی تھی۔

حکم تھا کہ ہمیں تمام وقت اس قمیض کو پہننا ہوگا۔ البتہ اگر جی چاہے تو رات کوسوتے وقت بدل لیں۔اسکے علاوہ ہر قیدی کو ایک خاص نمبر الاٹ ہُوا۔۔ میرا نمبر ۲۲۴ تھا۔ہمیں ہدایت تھی کہ دن بھر آپ لوگوں کو یہیں رہنا ہے۔ تاوقتیکہ حکومتوں کے مابین کوئی  معاہدہ نہ ہو جاۓ ۔ کوئی  آدمی بھاگنے کی کوشش نہ کرے ۔ اگر کوئی  بیمار پڑتا ہےتو اسکے لیے یہاں ایک کمرہ کلینک کے طور پہ ہے جہاں آپ ہی کی فوج (پاکستان) کاکیپٹن، (ڈاکٹر )اس مریض کا معائنہ کرے گا۔ اور اس معائنے کا ایک وقت ہوگا۔ لیکن اگرکوئی  ایمرجنسی ہوجاتی ہے یا بہت ہی زیادہ طبیعت خراب ہے تو ہمیں آکر بتائیں۔ ہم ایمبولینس میں ہسپتال لے جائیں گے۔

کھانے کے متعلق بتایا کہ کھانا صرف دو وقت ملے گا صبح اور شام اور کھانے میں دوروٹیاں ملیں گی۔ جبکہ صبح کو صرف چاۓ کا ایک مگ ملے گا۔ اگر کسی کو بھوک لگےتو وہ انتظار کرے۔ کھانا پکانے کے لیے کمرے میں ہی کچن بنے گا ۔ اس مقصد کے لیے آٹےکی بڑی بڑی بوریاں آچکی تھیں۔ کالی چھلکوں والی مسور کی دال اور سبزیوں میں لال کدو، گاجر اور ٹنڈے وغیرہ لیکن آلو نہیں شامل تھے۔

کیمپ میں ایک دو دن کے آرام کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ آپ یہاں قیدی ہیں لہذا آپ کو یہا ں مختلف قِسم کے کام بھی کرنا ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے تین چار لوگوں کے گروپ بنا لیےگئے تھے۔ ان کاموں میں کسی کا کام زمین یا کنواں کی کھدائی  ،تو کسی کا مٹی ڈھونا،اینٹیں بنانا اور دیوار کھڑی کرنا، دیواروں اور دروازوں پہ رنگ کرنا تھا۔ کچھ لوگوں کی ذمہ داری گھاس کاٹنا تو کچھ کی درختوں کی ٹہنیاں کا ٹنا تھا۔ تمام قیدیوں کو ان کےکام کے مطابق ضرورت کا سامان دے دیا جاتا۔ انڈین فوجی سپاہی پورے وقت خبر گیری رکھتے کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی  قیدی ڈپریشن میں آکے خودکشی کرنے کی کوشش کرے۔ان کاموں کو کروانے کا مقصد ہم سب کو مصروف رکھنا تھا۔

کھانا زندگی کی  سب سے بڑی ضرورت ہے۔ لہٰذا ایک اہم کام کچن میں کھانا بنانے کا تھا۔ان بیر کس سے کچھ فاصلہ پہ ایک بڑا کچن تھا، جہاں گڑھا کھود کے اس میں کوئلے کی لکڑی سے آگ جلائی  جاتی اور روٹیوں کے لیے ایک بڑا سا مربع   شکل کا توا تھا۔ہمارےکمرے میں 35  لوگ تھے ان کے لیے فی کس کے حساب سے دو روٹیاں تھیں ۔اس طرح ہمارے کمرے  میں کُل 70  روٹیوں کا حساب تھا۔

ایک بڑی سی دیگ میں سبزیاں بنتیں۔کچن کے کام کے لیے بھی قیدیوں کی ڈیوٹی لگتیں ۔گو یہ ڈیوٹیاں ہر ماہ بدلتی رہتی تھیں۔ اگر دو قیدی آٹا گوندھنے پہ معمور تو دو روٹی بیلتے اور توے پہ ڈالتے ۔ لکڑی کی دہکتی گرم آگ سے بچنے کے لیے دو آدمی دورسے ایک لمبے ڈنڈے کی مدد سے توے سے روٹی پلٹتے ۔

کھانا بننے کے بعد اسکی کمروں میں تقسیم ہوتی۔ سب کو بتا دیا جاتا کہ کھانا تیارہے۔ بیرکس کے کمروں کے مکین اپنی پلیٹ اور گلاس لے کر اپنے حصے کا کھانا ، سالن اور دو روٹیاں، لینے آتے۔دوپہر اور مغرب کے بعد کھانے لینے کے لیے سب کا ٹائم مقرر  تھا۔ کھانے میں روٹی کے ساتھ صرف سبزی اور دال ملتی ۔ نہ کبھی چاول مِلا اور نہ گوشت۔ ہم سب نے کُل بائیس ماہ   کی قید میں سے صرف آخری دو ماہ میں ہفتے  میں ایک بار بکری  کے گوشت کا سالن کھایا۔

اس طرح 34  آدمیوں کے کمرے میں ہر ایک کی کوئی  ڈیوٹی ہوتی۔پندرہ سال سے کم عمر   بچوں میں شمار تھے ،لہٰذا وہ اپنی ماؤں کے ساتھ علیحدہ بیرک میں تھے۔ مردوں کے ساتھ میری موجودگی کی وجہ سے اس کمرے میں گنتی  35  قیدیوں کی تھی ،کیونکہ میں والد کی خبر گیری کے خیال سے والدہ کے بجاۓ مردانہ بیرکس میں رہتا تھا۔ان کی ذہنی کیفیت نارمل نہ تھی وہ گم سم رہتے تھے ۔ان کے لیے کسی کام کی ذمہ داری اُٹھانا مشکل تھا۔ میں نے کہا کہ ا ن کے حصّے کا کام میں کروں گا۔ لہٰذا میری ذمہ داری بھی فیلڈ میں کام کرنے کی دی گئی۔یہ وہ کام تھے جو اَبّی کو کرنے تھے، مثلاً گڑھاکھودنا، مٹی ڈھونا، اینٹوں سے دیوار کھڑی کرنا، اور ان پہ چونا لگانا۔ کچن میں کرنےوالے کام وغیرہ ۔ البتہ میرے ساتھ کام کرنے والے قیدی میری عمر کا خیال کرتے ہوئے گروپ والے مجھے آسان کام  مجھے دیتے مثلاً روٹی پکانے کے بجاۓ صر ف ان کی گنتی کرنا، کدال چلانے کے بجاۓ مٹی ڈھونے کا کام ۔ اس طرح میں اپنی عمر کے لحاظ سے جوبھی کرسکتا تھا پوری ذمہ داری سے کرتا۔

قیدیوں کی گنتی بلا ناغہ صبح نو بجے اور رات باقاعدگی سے ہوتی۔گنتی سے آدھ گھنٹے پہلے ہی ایک کیمپ کمانڈر آفیسر جو کمانڈرکی سطح کا ہوتا تھا، اپنے تین چار سپاہیوں کے ساتھ آتا۔ ساڑھے آٹھ بجے سے سیٹیا ں  بجنے  لگتیں ۔ جو اعلان تھا کہ لوگ کمرے سے باہر آکر قطار لگا لیں۔ان کمروں کے کمانڈرانچارج قیدیوں سے ہی بناۓ جاتے ۔ جو گنتی میں مدد دیتے اور اس عمل کے بعد اپنے دستخط کرتے۔اگر کوئی  بیمار ہونے کی وجہ سے کمرے سے باہر نہیں آپا تا تو لکھا جاتا 33  کمرے کے باہر اور ایک کمرے کے اندر۔ فوج کے سپاہی اندر جا کر چیک کرتے کہ واقعی کوئی  اندر بیمار ہے یا نہیں اور تب ہی گنتی پوری ہوتی۔

روزمرہ کے معمولات میں نماز اہم تھی مگر مسجد کے بغیر باجماعت نماز کیسے ہوتی ۔کیمپ میں ایک بڑا سا خالی میدان تھا۔ طے پایا کہ اس میدان کو مسجد کی شکل دے کرنماز کے لیے مختص کیا جاۓ۔ لہٰذا احکام ِ بالا کی منظوری سے اس جگہ پہ اینٹوں کےبلاک لگائے گئے اور اس کو چونا سے سفید رنگ دیا گیا۔ اس طرح اب ہم سب کے لیے مسجدتیار ہوگئی جہاں پانچوں وقت باجماعت نماز کی ادائیگی ہوتی جہاں ہم جوتے اُتار کےاندر داخل ہوتے۔ کبھی لاعلمی میں انڈین آرمی افسر اس مسجد میں جوتوں سمیت داخل ہوجاتے کیونکہ انہیں نہیں پتہ تھا کہ یہ مسجد ہے۔ پھر جب ان کو بتایا جاتا کہ یہ عبادت گاہ ہے تو وہ سوری کرتے ہوۓ باہر نکل جاتے۔

انتظامیہ ہر ماہ  کام کرنے والے دستے  کو بدل دیتی ۔ غالباً  اسکی وجہ یہ ہوگی کہ کہیں ساتھ کام کرنے سے دوستی نہ ہو جاۓ اور رفاقت اور محبت کے انسانی جذبات فرائض پہ حاوی نہ آجائیں۔ کیمپ میں اکثریت پنجابیوں کی تھی اور فوجی بھی پنجاب رجمنٹ کے تھے۔ گو ایک لحاظ سے بات غلط نہ تھی لیکن حقیقی انسانی قدریں تو جدائی  نہیں ایک دوسرے سے جوڑنے کی ہوتی ہیں۔ لیکن جنگوں اور انسانی نفرت کی تاریخ میں محبت کی قدروں کا باب غائب کر دیا جاتا ہے۔اور پھر وہی ہوتا ہے جو ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply