• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آہ مفتی جعفر حسین قبلہ-سینوں سے سنگینوں کا ٹکراؤ۔۔نذر حافی

آہ مفتی جعفر حسین قبلہ-سینوں سے سنگینوں کا ٹکراؤ۔۔نذر حافی

1980ء کی دہائی تھی، ملک پر مارشل لاء کا بھوت سوار تھا۔ حکومتی اداروں پر آمریتی دیو قابض تھے۔ جمہوری اقدار کو بھاری بھرکم بوٹوں تلے روند دیا گیا تھا۔ خونخوار ڈکٹیٹر کو ہر روز ایک نئے شکار کی تلاش رہتی تھی۔ اتنے میں 20 جنوری 1980ء کو اسلام آباد کی لال مسجد سے حاکم وقت نے زکوٰۃ آرڈیننس کے نام پر ایک شریعت شکن حکم نامہ جاری کیا۔ جس سے اسلامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ 20 جنوری سے لیکر 5 جولائی 1980ء تک علماء کے وفود آمرِ وقت سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ دانشور مشورے بھیجتے رہے، سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے قصرِ شاہی کی طرف تار اور پیغامات ارسال کرتے رہے، لیکن طاغوت کی شہ پر آمرِ وقت اپنی ضد پر ڈٹا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ خزانے اس کے ہاتھ میں ہیں، میڈیا اس کی گرفت میں ہے، لوٹے اور لٹیرے اس کے ساتھ ہیں، درباری مولوی اور سرکاری مفتی اس کے سامنے دم ہلا رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پہیہ گردش کر رہا ہے۔

بالآخر 4 جولائی 1980ء کا سویرا طلوع ہوا۔ اس روز وطن کی مٹی کے رنگ کی وردی پہن کر شریعت اور اسلام پر حملہ کرنے والوں کے چھکے چھوٹ گئے۔ اسلام آباد سے لیکر وائٹ ہاوس تک سب دھک سے رہ گئے۔ سرکاری اور درباری دبک کر اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے اور پہیہ جام ہوگیا۔ اس روز ملک بھر سے علامہ مفتی جعفر حسین (رہ) کی آواز پر ہزاروں فرزندان اسلام، اسلام آباد میں جمع ہوگئے اور کیونکر جمع نہ ہوتے، یہ جوان آمریت کے خلاف بوڑھے مجاہد اسلام کی آواز تھی۔ یہ ایک متشدد آمر کے خلاف مخلص عالم دین کی آواز تھی، یہ ایک مکار حاکم کے خلاف مظلومین کے قائد کی آواز تھی، یہ طاقت کے کالے قانون کے خلاف اسلام کے اجالے کی آواز تھی، یہ یورپ کی مستیوں میں مست جرنیلوں کے خلاف خشک نان جویں کھانے والے درویش کی آواز تھی، اس آواز کا بلند ہونا تھا کہ فدائیان اسلام نے اپنے رہنماء کے گرد جمع ہو کر زکوٰۃ و عشر کے نفاذ کے اعلان کو آمر کے منہ پر دے مارا۔

5 جولائی کی شام کو کنونشن جب تمام ہوا تو احساسِ کمتری میں مبتلا انتظامی اداروں کے کہنے پر پولیس کے روپ میں کرائے کے قاتلوں نے سینکڑوں فرزندانِ اسلام پر گولی چلا دی۔ 5 جولائی کو شام 5 بجے کے قریب آئی ایس او پاکستان شورکوٹ کا ایک نوجوان “محمد حسین شاد” سر پر گولی لگنے سے شہید ہوگیا۔ اس شہید کے خون کی برکت نے لوگوں کے سینوں کو سنگینوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا۔ یہی وہ تاریخی لمحہ تھا کہ جب سینے سنگینوں سے ٹکرا گئے۔ یہ بظاہر ایک شخص کا قتل تھا لیکن یہ پوری ملت کی وحدت اور یکجہتی کا باعث بن گیا۔ محمد حسین شاد کی لاش کے گرنے کے بعد گھنٹوں آنسوگیس، پتھر، لاٹھیاں اور گولیاں چلتی رہیں، متعدد افراد زخمی ہوگئے، خون کی موجوں نے پولیس اور فوج کے طوفان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بالآخر طاغوتی حکومت کی تنخواہ دار عسکری طاقت نے خالی ہاتھ اور تہی دست لوگوں کے حوصلے کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا اور نظام مصطفیٰ کے حقیقی داعی نے بےسروسامانی کے عالم میں سیکریٹریٹ پر قبضہ کرکے فراعینِ وقت پر یہ ثابت کر دیا کہ تم طاقت سے فقط بدنوں پر تشدد کرتے ہو اور ہم بصیرت سے دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔

محترم قارئین! محمد حسین شاد اگرچہ ایک عام شخص تھا، لیکن اس کے رہبر کے نزدیک اس کا خون اتنا محترم اور مقدس تھا کہ محمد حسین شاد کو پاکستان میں ملت جعفریہ کا پہلا شہید تسلیم کیا گیا، نیز محمد حسین شاد کی شہادت کے بعد کئی سالوں تک جب عزاداری کے جلوس محمد حسین شاد کے مقامِ شہادت کے پاس سے گزرتے تھے تو وہاں پر کچھ دیر جلوس کو روک کر محمد حسین شاد کے لئے فاتحہ پڑھی جاتی تھی اور ماتم داری کی جاتی تھی۔ راقم الحروف خود بھی اس امر کا گواہ ہے کہ محرم الحرام میں امام بارگاہ جی سکس ٹو اسلام آباد کے نزدیک محمد حسین شاد کے مقامِ شہادت کے پاس موصوف کی یاد منانا مومنین کے درمیان مرسوم تھا اور نئی نسل کو وہیں پر محمد حسین شاد کی وفاداری سے آگاہی حاصل ہوا کرتی تھی، لیکن اب محمد حسین شاد کا نام بھی کہیں نہیں لیا جاتا۔

پاکستان کے سیکرٹریٹ پر ملت جعفریہ کے قبضے کا ورق محمد حسین شاد کے خون سے تربتر ہے۔ قبضہ ہونے کے بعد 5 جولائی کی یہ شب پہلے سے کئی گنا زیادہ گھمبیر مسائل لے کر فلک پر نمودار ہوئی۔ مظاہرین کے گرد لشکر یزید نے خاردار تاروں کا حصار کرکے ان کا پانی تک بند کر دیا۔ یہ شب ایک مرتبہ پھر شب عاشور کے زخم تازہ کر گئی۔ گویا ایک مرتبہ پھر محبان حسین (ع) یزید وقت کی فوجوں کے حصار میں تھے۔ جیسے جیسے رات ڈھل رہی تھی، گویا روزِ عاشور قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔ یزید کے بچے ہوئے لشکر کے عمر ابن سعد، مظاہرین پر رائفلیں تانے فائر کھولنے کے حکم کے منتظر بیٹھے تھے اور دوسری طرف جی سکس ٹو کی امام بارگاہ میں “شاد” کی لاش ایک نئے احتجاج کا مقدمہ فراہم کر رہی تھی۔

بظاہر “شاد” کی شہادت ایک عام شخص کی شہادت تھی، لیکن اس کے تصور سے ہی حکمرانوں کے بدن میں خوف کے مارے چیونٹیاں دوڑ رہی تھیں، چنانچہ ایک طرف تو مظاہرین کی ناکہ بندی کی گئی اور دوسری طرف اس لاش کو دفنانے کی فکر حکمرانوں کو کھائے جا رہی تھی۔ حکومت کی طرف سے لاش کو دفنانے کے حوالے سے جی سکس ٹو میں آئی ایس او کے مسئول سے بات کی گئی۔ آئی ایس او کے مسئول نے انہیں جواب دیا کہ میں مفتی جعفر حسین صاحب سے پوچھتا ہوں۔ اگر انہوں نے اجازت دی تو ہم اس برادر کی لاش کو دفنائیں گے، چنانچہ مفتی صاحب نے اجازت دے دی۔ 6 جولائی کو تین بجے صبح “شاد” کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ حکومت نے جنازہ لے جانے کے لیے ایک ہیلی کاپٹر کا انتظام کیا اور میت کے ہمراہ 20 ہزار روپے بھی شہید کے ورثاء کے لیے بھیجے، لیکن شہید کے پسماندگان نے وہ روپے ضیاء الحق کے چمچوں کو واپس تھما دیئے۔

اب دوسری طرف سیکریڑیٹ میں 6 جولائی کو کاروبار حکومت بند رہا۔ ہزاروں بھوکے، پیاسے اور نہتے مظاہرین کے گرد پولیس اور فوج موت کے بادلوں کی طرح منڈلا رہی تھی، لیکن حکومت بھی جانتی تھی کہ عاشور کے اس منظر میں بھی اگر ہزاروں کا یہ مجمع بھوکا اور پیاسا ہے تو ان کا رہبر بھی انہی کی مانند بھوکا اور پیاسا ہے۔ اگر یہ لوگ فوج اور پولیس کے گھیراو میں ہیں تو ان کا قائد بھی پولیس اور فوج کے حصار میں موجود ہے۔ چنانچہ بدمست حکمرانوں کے دماغ سے طاقت کا نشہ اُتر گیا۔ مطلق العنان اختیارات کا ایسا مالک حکمران کہ جس کا حکم پاکستان کے چپے چپے پر چلتا تھا، وہ غصے سے تلملا اٹھا، لیکن اپنے ہاتھوں کو چبا کر رہ گیاـ اس ڈکٹیٹر نے پرانے کپڑے پہننے والے، روکھی سوکھی روٹی کھانے والے اور انتہائی سادہ مزاج عالم دین قبلہ مفتی جعفر حسین مرحوم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔

مفتی جعفر حسین (رہ) نے مذاکرات کی میز پر وقت کے خون آشام آمر کو اپنے سامنے بٹھا کر طاغوت عالم کو یہ بتا دیا کہ میرے پاس بنگلے نہیں ہیں، کوٹھیاں نہیں ہیں، باڈی گارڈ نہیں ہیں، اسمبلیوں میں میرے نمائندے نہیں ہیں، دنیائے سیاست میں میرا کوئی ووٹ بنک اور چرچا نہیں ہے۔ کسی صوبے یا کسی اسمبلی سے میرے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھی، لیکن میں آمر وقت کے غرور کو اپنے اصولوں کی ٹھوکروں سے چکنا چور کر رہا ہوں۔ وہ لمحہ تاریخ کبھی نہیں بھلا سکتی کہ جب دنیا نے دیکھا کہ ہمارے زمانے کا یزید اس حسینی قائد کے سامنے جھک گیا۔ جب یہ مردِ مجاہد ایوانِ اقتدار میں ایک معاہدے پر دستخط کرکے باہر نکلا تو سیرتِ امام حسن (ع) پر کاربند، خلوص و وفا کے اس پیکر کے چہرے پر کامیابی کا نور جلوہ گر تھا جبکہ وائٹ ہاوس کے چیلوں کے چہروں پر شکست اور شرمندگی کی تاریکی سیاہی بن کر پھیلی ہوئی تھی۔

ادھر مظاہرین کو مولانا مفتی جعفر حسین (رہ) نے منتشر ہونے کا حکم دیا اور اُدھر امریکہ سے ضیاءالحق کو تار آگیا کہ مبارک ہو آپ کی حکومت بچ گئی ہے۔ اگر اس مبارکباد کا یقین نہ آئے تو بریگیڈئر (ر) احمد ارشاد کی کتاب “حساس ادارے” کا مطالعہ کر لیجئے۔ آج جب حکمران اسلام کو ماڈرن بنانے کی باتیں کرتے ہیں، حدود آرڈینس کو مروڑ کر شریعت کی دھجیاں اڑاتے ہیں، نصابی کتابوں سے اہل بیت و شہدائے کربلا کا ذکر حذف کر دیتے ہیں، سکولوں کے نصاب میں مظلوم و مقتول اور شہید صحابہ کرام ؓ کی تاریخ کے بجائے بنو امیہ اور طلقا کے من گھڑت قصے ڈال دیتے ہیں۔ ملک بھر میں یزید پر لعنت کرنے پر ایف آئی آر درج ہوتی ہیں اور ناصبی حضرات زبردستی مسافروں کو گاڑیوں میں سے اتار کر قتل کر دیتے ہیں یا ان کا عقیدہ تبدیل کراتے ہیں۔۔۔ تو مجھے مفتی جعفر حسین کی (رہ) کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے، جنہوں نے اپنے وقت میں اسلام کا دفاع کیا، جنہوں نے ناصبیوں کو دندان شکن جواب دیا، نصابِ تعلیم میں حقیقی اسلام کی حفاظت کی۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج بھی ناصبیوں کو نکیل ڈالنے کے لئے مفتی جعفر حسین رحمۃ اللہ علیہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ آج بھی ہمارے درمیان اسی اتحاد اور وحدت کی ضرورت ہے، جو محمد حسین شاد کی طرح کے مظلوموں کے خون کو احترام اور تقدس بخشے۔ آج مفتی جعفر حسین ؒ کی برسی کا دن ہے۔ یہ دن ہمیں قومی معاملات، اجتماعی حالات، ملکی مفادات اور ناصبیت کے مقابلے کیلئے متحد ہونے کی یاد دالاتا ہے۔ اگر ہم متحد ہیں تو آج بھی ناقابلِ تسخیر قوم ہیں اور آج بھی ہمارے سینے سنگینوں کو شکست دے سکتے ہیں، لیکن اگر ہم آپس میں متحد نہیں ہیں تو پھر ہمیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں۔ پھر ہم ہی کافی ہیں ایک دوسرے کو کھانے اور مٹانے کیلئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply