• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/دنیا کے چودھری کے بوتھے پر جوتا مارنے والا منتظر الزیدی(قسط7)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/دنیا کے چودھری کے بوتھے پر جوتا مارنے والا منتظر الزیدی(قسط7)۔۔۔سلمیٰ اعوان

تاریخ پھڑ پھڑ کرنے لگی تھی۔دراصل اُسے بھی تو موقع کی تلاش ہوتی ہے۔بند رہنے سے اوب سی جاتی ہے۔کھُلی ہوا میں سانس لینا چاہتی ہے۔ اُس نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیاتھا۔درمیانے درجے کے شاعر کی طرح جسے اچھا سامع مشکل سے نصیب ہوتا ہے۔اُسے بھی کوئی چاہئیے تھا سنانے کو۔اپنے آپ کو ہلکا کرنے کو۔
پوری عرب دنیا کوئی چار صدی تک عثمانیوں کے زیرتسلط رہی تھی۔
طویل عرصے کی حکومت سے عثمانی سلطنت اندرونی ریشہ دوانیوں،حکمرانوں کی کمزوریوں اور نظام کی بوسیدگی کے باعث اپنی اہمیت کھونا شروع ہوگئی تھیں۔یوں بھی عالمی منظرنامے پر تبدیلیاں سرعت سے نمودار ہورہی تھیں۔مغربی اقوام متحدہ خاص کر برطانیہ زیادہ فعال تھا۔بہت سے محاذ کھل گئے تھے۔برطانوی حکومت نئے،جدید کانٹوں اور ہتھکنڈوں سے لیس اپنے گھاگ حربوں سے عالمی سطح پر چھاگئی تھی۔رابطوں،لالچوں،سازشوں اور معاہدوں کے سلسلے عروج پر تھے۔عربوں کی قومیت کو تحریک کی صورت دی جارہی تھی۔لارڈ کیجز، لارنس آف عریبیہ اور جرٹروبیل جیسے برٹش ایجنٹ شازشوں کے جال بن رہے تھے۔خطے کے ٹکڑے کیسے کرنے ہیں؟کون اُلّو کے پٹھے زیادہ وفادار ہیں؟کِسے کہاں رکھنا ہے اور کِسے کہاں سے غائب کرنا ہے؟ہاشمی خاندان اور سعودی قبیلہ سب سے پہلے اِس جال میں پھنسے تھے۔پہلی جنگ عظیم میں ہونے والی فتح و شکست نے عالمی بساط پر نئے مہرے سجادئیے تھے۔
1916میں شریف مکہ نے ترکوں کے خلاف بغاوت کر دی اور دمشق و مدینہ کے درمیان ترکوں کے ذرائع مواصلات ختم کر دئیے۔
میسوپوٹیمیا تہذیبی گہوارے کا یہ زمینی ٹکڑہ عراق کے نام سے کہیں نہیں تھا۔1917میں برطانیہ نے ہندوستان سپاہیوں کی مدد سے یروشلم اور بغداد پر قبضہ کر لیا۔1918میں حسین ہاشمی اور برٹش جنرل ایلن بی نے عربوں کے سینے میں Promised Land کے کینسر کا بیج بو دیا۔
1921 میں جرٹروڈ بیل نے بغداد،بصرہ اور موصل کو اکٹھا کرکے اسے عراق کا نام دیا اور شازشوں سے شاہ فیصل کو عراق کے تحت پر بٹھا دیا۔
عراقی شاہ فیصل کو قبولنے سے انکاری۔کُرد جو خود مختاری کے چکر میں برطانیہ کے
آلہ کار بنے تھے انہیں بھی کوئی خود مختاری نہ ملی۔وہ بھی نالاں۔
1924میں سعود خاندان نے شریف مکّہ پر حملہ کر کے خود اقتدار سنبھال لیا۔شریف مکّہ بھاگ نکلنے پر مجبور ہوگیا۔سنی قیادت جو عثمانیوں کے قریب تھی وہ بھی ناکوں ناک شکایتوں سے بھری کہ انہیں کیوں نظر انداز کیا گیا۔نوری السید اور جعفر عسکری جیسے اب بے ضمیر اور مفاد پرستوں کے ٹولے تھے۔شاہ فیصل جیسا کٹ پُتلی بادشاہ تھا جسے عراقیوں کی حمایت حاصل نہیں تھی۔شاعروں کی آوازیں تھیں۔العبیدی کی پُکار تھی۔
1930کے معاہدے نے عراق کی کولونیل حیثیت کو واضح کر دیا۔اور اندر خانے اضطراب و بے چینی کی چنگاریں پھوٹنے لگیں۔مگر1948کا پورٹس ماوتھ معاہدہ تو گویا جلتی پر تیل کا کام کر گیا۔پھر ہڑتالوں،آئے دن جلسے جلوسوں اور زیر زمین سرگرمیوں کے لمبے سلسلے تھے۔سکولوں کے طلبہ نے لاٹھیاں کھائیں، گولیوں سے زخمی اور شہید ہوئے۔اعظمّیہ اور کاظمیّہ کے غریب لوگ جمہوریت اور معاشی سہولتوں کیلئے نعرے لگاتے اور جواباََمرتے تھے۔
یہیں اِسی پُل پر ہمارے مایہ ناز شاعر الجواری کے بھائی نے گولیاں کھاکر اپنے بھائی کی بانہوں میں دم توڑا۔
اُس شام جب میں کسی ہابڑی عورت کی طرح پرانے بغداد کی تنگ تنگ گلیوں اور بازاروں میں گُھسی چلی جاتی تھی۔افلاق نے ایک اچھے اور مودب بیٹے کی طرح مجھے ہاتھ سے پکڑا اور سہولت سے باہر کھلی شاہراہ پر لاتے ہوئے بولا۔
”گبھرائیے مت۔میں پرانے اور نئے بغداد کا چپہ چپہ آپ کو دکھاؤں گا۔جتنی بار آپ چاہیں گی آپ کو لاؤں گا۔مگر اب اندھیرا بڑھ رہا ہے۔لوڈشیڈنگ ہونے والی ہے۔بمباریوں سے متاثر بہت سے گھر ابھی بھی یہاں کھڑے ہیں۔جنہیں گرانا ضروری تھا مگرگرائے نہیں گئے۔گلیاں بھی اونچی نیچی ہیں۔آپ ان سے ناواقف ہیں۔“
اپنائیت کی خوشبو میں مہکتے اِس احساس پر میرا دل بے اختیار اُس کا ممنون ہوا۔ممتا بھرے دل نے دعا دی۔
اورجب میں اُسکے ساتھ پارکنگ کی طرف بڑھتی تھی میں نے پریس کلب بغداد اور ساتھ ہی منتدرل زیدی(Muntader-al-Zaidi)سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
ُُ”میں آپکی چیزوں،جگہوں لوگوں،حالات سے غایت دلچسپی،اندر خانے حقائق جاننے کی تڑپ،بغداد اور عراق سے محبت اور ان کی تباہی پر آپ کے جذبات سے آگاہ ہو چکا ہوں۔اطمینان رکھئیے۔ہرجگہ اور ہر قسم کے لوگوں سے ملاقات ہو گی۔ہاں منتدرل زیدی سے آدھی ملاقات ابھی آپ کی سمجھ آنے والی زبان میں ہی ہوجاتی ہے۔پوری ملاقات ممکن نہیں کہ دلیر بچہ جیل میں ہے۔
گاڑی میں بیٹھے تو ایل سی ڈی پلئیر کے بہت سے بٹن دے اور پھر ایک آواز گونجی۔
Greeting Bush in Baghdad.
This is a farewell kiss, you dog”
You are a guest in my country,
unwanted Surely, but still a guest.
You stand before us waiting for praise
But how can we praise you?
you come after your planes have rained death on our cities
Your soldiers broke down our doors
humiliated our men, disgraced our women.
We are not a frontier town
and you are not our marshal.
You are torture. We know you force water down the throats The throats of our prisoners
We have seen the pictures of our naked prisoners threatened by your snarling dogs.
You are a maker of widows and orphans.
a most unwelcome guest.
I have only this for you,
my left shoe that I hurl at your lost and smirking face
nd my right shoe that I throw at your face of no remorse.
of no remorse
خو بصورت ریلنگ اور برقی قمقوں سے سجا دجلہ کے پانیوں میں جھانکتا دونوں کناروں کی عالیشان عمارتوں کا خوبصورت رُخ پیش کرتا ہواشہدا برج۔ برج سے دجلہ کو دیکھنا ایک مسحور کن تجربہ تھا۔اطراف کی بلند و بالا عمارتوں سے روشنیاں اپنے عکس جس جس انداز میں پانیوں پر چھوڑتی تھیں انہوں نے اِسے قاتل بنا دیا تھا۔وہی دجلہ جس نے مجھے سہ پہر کو مایوس کیا تھااب ایک نئے رنگ کے ساتھ سامنے تھا۔یوں جیسے کوئی ادھیڑ عمر طوائف سج سنور کر بالکونی میں کھڑی ہو جائے اور گاہکوں کو اشارے کرتی ہوئی کہے کہ دیکھو مجھے، ”ہے کوئی مجھ جیسا۔“
اور جب میں دائیں بائیں دیکھتے نظاروں کے مزے لوٹتی تھی میں نے افلاق کو سُنا تھاجو موبائل پر کِسی کی کال سُننے کے بعد اب مجھ سے مخاطب تھا۔
”کرادہ میں بم پھٹا ہے۔کوئی بیس کے قریب لوگ مر گئے ہیں۔زخمیوں کا تو کچھ پتہ ہی نہیں کتنے ہیں؟
میں خاموش کھڑی اس کے یاس بکھرے چہرے کو دیکھتے سوچتی تھی۔وہی وطنی کہانی۔میرے رب ہم مسلمانوں پر تیرا اتنا خوفناک عذاب نازل ہواہے کہ ہم ذہنی طور پر بانجھ ہوگئے ہیں۔ہماری فہم فراست،ذہانت سبھوں کو زنگ لگا ہوا ہے۔
چند لمہوں تک ہی افسردگی کی دُھند وجود کے ساتھ لپٹی۔نئے نظاروں کی چمک دمک اتنی تیز تھی کہ اُس نے توجہ التحریر سکوائر کی جانب موڑ دی۔جو میرے ایک ہاتھ تھا۔
رشید سٹریٹ کی خوبصورتیوں کی جھلک تھی۔ سامنے یادگار آزادی Libration Monumentہے۔عراقی آرٹسٹ جاوید سلیم کا دلاآویز شاہکار۔میں اُس کا کام دیکھتی تھی۔ تاریک دنوں میں عراقیوں کی جدوجہد کی کہانی۔آہنی زنجیروں کو کاٹتے،ظلم و جبر کے پہاڑ توڑتے،کامیابی کا جشن مناتے،اتفاق و اتحاد سے آگے بڑھتے، ایک دوسرے کی مدد کرتے،نئے مُلک کی تعمیر نو کرنے میں اپنا حصّہ ڈالتے عراقی اپنی خوشخالی اور تعمیر و ترقی کے لئیے کِس درجہ کوشاں ہیں۔آرٹسٹ نے اپنے فن کا اظہار بڑی خوبصورتی سے کیا تھا۔چوک رنگوں اور روشنیوں میں پور پور ڈوبا ہوا تھا۔
کیا بغداد نے ہولناک جنگ کا سامنا کیا ہے۔اِس ماحول میں ایسی کوئی بات سوچنا موزوں ہی نہیں تھاکہ وہ سحر زدہ کرتا تھا۔
افلاق کہتا تھا۔14جولائی1958 تاریخ عراق کا بہت اہم دن ہے کہ عراق نے
سامراجیت سے آزادی حاصل کی تھی۔
التحریر سکوائر میں دو منزلہ، سہ منزلہ اور آٹھ دس منزلہ عمارتوں کے سلسلے اور مقامی لباس میں عورتوں، مردوں اور بچوں کے ہجوم، بوٹوں اور پھُولوں سے سجے تختے،کھجور کے درختوں کا امتیازی پن۔ایک دوسرے کو ملاتی اور کاٹتی سڑکوں کے سلسلے۔
تو میں عین دجلہ کے ساتھ ساتھ بہتی ابونواس سٹریٹ سے گزر رہی ہوں۔عربی کلاسیکل لٹریچر کے ایک نامی گرامی شاعر ابونواس کے نامِ نامی کی حامل سڑک۔خوبصورت شاندار۔اوپر کی طرف یہ امام اعظم سٹریٹ ہے۔نیچے اُترتے ہوئے یہ رشید سٹریٹ بن جاتی ہے۔
ٍ مجھے چترال یاد آیا تھا۔دریائے چترال کے ساتھ ساتھ بہتا بازار اور سڑک جو ہر فرلانگ پر ایک نئے نام سے اپنا تعارف کرواتی ہے۔
پندرہ،کوئی سولہ، کوئی اکیس منزلہ پانچ ستارہ ہوٹلوں کی عمارات دجلے کے ماتھے پر سجے جھومر کی کیطرح چمکتی تھیں۔شیرٹن، ابو نواس، فلسطین ہوٹل۔ اِن ہوٹلوں کی شاندار
عمارتیں۔موتی اُچھالتے تالاب۔ مناظر کی خوبصورتیوں میں ایک ایسا تسلسل تھا کہ نظر ابھی
ایک سے پوری طرح سیراب نہ ہو پاتی کہ کوئی دوسرا سامنے آجاتا۔ وہیں دوسری جانب بے شمار عارضی سے ہوٹلوں کا پھیلاؤ بھی تھا۔ کشتیاں اورلانچیں اور فیری بوٹ پانیوں میں اُتری ہوئی جن میں بیٹھے منچلے ہنستے گاتے زندگی ہر رنگ میں جیتی ہے کی نمائندگی کرتے تھے۔
افلا ق کی سہ پہر کو کہی گئی بات کی حقیقت مجھ پر اب کُھلی تھی کہ دجلہ کی رنگینیاں اور رعنائیاں رات کو دیکھئیے گا۔آپ حیرت زدہ ہو جائیں گی۔واقعی ایسا ہی تھا۔
پانیوں میں کشتیاں چلتی اور گیت گونجتے تھے۔ کیا منظر اور نظارے تھے؟ رونقوں کی اس فراوانی کو دیکھتے ہوئے میں خود سے کہتی تھی۔
کہیں لگتا ہے عراق اتنی بڑی قیامت سے گزرا ہے اور ابھی تک گزر رہا ہے۔واقعی زندگی کہیں رکتی ہے؟اس کا کام چلنا اور بس چلنا اور ہر رنگ میں چلتے چلے جانا ہے۔
گاڑی سر پٹ بھاگی جاتی تھی۔پھر پُل پر چڑھی۔یہ الملک (El-Muallac) برج ہے۔گاڑی سیدھی ہوئی۔چوک پر رُکی۔عمان سکوائر۔ وزارت صنعت کی وسیع و عریض عمارت جو جنگ میں میزائل حملے کے بعد بھی بارہ گھنٹے جلتی رہی تھی۔داغ داغ ہوئی پڑی تھی۔ آگے حبیب چوک سے دمشق سٹریٹ پر چڑھے۔دمشق سٹریٹ مغربی بغداد کی مرکزی شاہراہ ہے۔
زوارہ پاک دیکھنے کی چیز تھی۔رات میں اس کا اپنا حُسن ہے اور دن میں اپنا۔دونوں رخ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔اس میں اوپن ایر سینما ہے۔سمر تھیڑ بھی ہے عراق بلکہ عرب کی نامور شخصیات کے مجسمے بھی یہاں سجے ہوئے ہیں۔بچوں کی وڈیوگیمز اور چڑیا گھر بھی ہے۔
میرے اندر ایک ہلکا سا خوف ضرور سرسرارہاتھا۔تاہم جیسے میں خود کو تسلی دیتی تھی کہ نہیں انسانیت کا چہرہ ابھی بھی روشن اور تابناک ہے۔میں بے حد محفوظ ہاتھوں میں ہوں۔گاڑی پارک ہوئی۔رات کی اُتری سیاہی میں پیدل چلتے ہوئے میں رنگ و بو سے چمکتے زوارہ پارک میں داخل ہوئی۔پہلی نظر میں گلشن اقبال پارک جیسا لگا۔رات دن میں ڈھلی ہوئی تھی۔عراقی عورتوں،بچوں،مردوں کے پُرے نظرآئے۔بہت سارے لوگوں سے تعارف ہوا۔اھلاً و سہلاً جیسے لفظوں اور چہرے پر پھیلتی مسکراہٹ نے اپنایت کی خوشبو بکھیری۔الباکستان الباکستان محبت بھرے انداز میں دو تین بار دہرایا جاتا۔ڈسکو کلب میں موسیقی کی تانیں تھیں اور شوقین مزاج لوگوں کا انبوہ کیثر۔
افلاق نے پروگرام دیکھنے کیلئے پُوچھا۔میں نے انکار کرتے ہوئے کہاکہ آج مجھے جلدی جا کر آرام کرنا ہے۔پھر کسی دن سہی۔
میں ایک بلندو بالا ٹاور دیکھتی اور اُس کے بارے میں پوچھتی تھی۔بغداد ٹاور ہے۔بغدا د کی خاص الخاص چیز ہے۔تھکی ہونے کے باوجود میرا جی اُسے دیکھنے کیلئے مچلنے لگاتھا۔دورویہ جھاڑیوں سے گھری سڑک پر بکھری مدھم مدھم سی روشنی میں چلنے لگے۔مطلوبہ جگہ پہنچے تو ٹکٹ کیلئے لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ٹکٹ خریدنے کیلئے میں نے پچیس ہزار کے دو نوٹ افلاق کو دئیے۔لمبی قطار میں آگے جگہ پانے کیلئے افلاق نے کیا منتر پھونکا کہ ہمیں سب سے آگے کھڑا کر دیا گیا۔یقینا اُسنے پاکستان کا حوالہ دیا ہوگا۔لفٹ بہت کھلی تھی۔بارہ آدمی گن کر اندر داخل ہوئے۔پہلے لیول پر رُکی۔کافی لوگ اُترے اور کچھ نئے چڑھے۔دوسرے لیول پر افلاق نے مجھے اُتار لیا۔یہاں ریسٹورنٹ تھے۔
شیشوں سے نیچے بکھرے بغداد کے نظارے تھے۔بہت دلفریب اور حسین۔ دجلہ کی سانپ کی سی بل کھاتی صورت تھی۔میں خوش و خرّم محظوظ ہوتی رہی۔افلاق سے سُنتی رہی۔شیشوں سے تانکا جھانکی کرتی رہی۔کوک پیا۔شوارما کھایااور شکر گزار ہوئی کہ لڑکا کس قدر سمجھدار ہے۔سستے سے ڈنر پر مجھے بھی رجا دیا اور خود بھی رج گیا۔اورحساب کتاب کی اکنّی دونی تک بھی سمجھا دی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply