کابل:بھارت کی بولتی بند کیوں؟۔۔ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک

پچھلے کئی ہفتوں سے میں برابر لکھ رہا تھا اور ٹی وی چینلوں پر بول رہا تھا کہ کابل پر طالبان کا قبضہ ہونے والا ہے لیکن مجھے حیرانی ہے کہ بھارتی وزیراعظم کا دفتر‘ وزارتِ خارجہ اور خفیہ محکمہ سوتا ہوا کیوں پایا گیا؟ نریندر مودی نے لال قلعہ سے بہت لمبا چوڑا بھاشن دے ڈالا اور 15 اگست کو‘ جس وقت اُن کا بھاشن چل رہا تھا‘ طالبان کابل کے راج محل (کاخِ گلستان) پر قبضہ کر رہے تھے لیکن ایسا نہیں لگا کہ بھارت کو ذرا سی بھی اس کی فکر ہو۔ افغانستان میں کوئی بھی اتھل پتھل ہوتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ اثر اس خطے پر ہوتا ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ بھارت خراٹے کھینچ رہا ہے جبکہ پاکستان اپنی چالیں بڑی مہارت کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ وہ خون خرابے کی مخالفت کر رہا ہے‘ سابق صدر حامدکرزئی اور اشرف غنی کے حامی سیاستدانوںکا اسلام آباد میں سواگت کر رہا ہے اور طالبان کی مدد میں جٹا ہوا ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ اب پاکستان کی کوشش سے کابل میں ایک کام چلاؤ مشترکہ سرکار بننے جا رہی ہے لیکن بھارت کی بولتی بند ہے۔ وہ تو اپنے ڈیڑھ ہزار شہریوں کو بھارت بھی نہیں لا سکا۔ وہ ایک مہینے کیلئے سلامتی کونسل کا صدر ہے لیکن وہاں بھی اُس کی قیادت میں سارے ممبر زبانی جمع خرچ کرتے رہے۔ میرا خیال تھا کہ اپنی صدارت میں بھارت کو افغانستان میں اقوام متحدہ کی ایک امن فوج بھیجنے کی قرارداد پاس کرانی چاہئے تھی۔ شاید یہ کام وہ اب بھی کروا سکتا ہے۔ کتنی حیرانی کی بات ہے کہ جن طالبان نے روس اور امریکا کے ہزاروں فوجیوں کو ہلاک کیا اور ان کے اربوں کھربوں روپوں پر پانی پھیر دیا‘ وہ ان طالبان سے سیدھے بات چیت کر رہے ہیں لیکن ہماری سرکار کی معذوری اور بات نہ کرنے کی صلاحیت حیرت انگیز ہے۔ مودی کو پتا ہونا چاہئے کہ 1999ء میں ہمارے اغوا ہوئے جہاز کو قندھار سے چھڑوانے میں طالبان رہنما ملا عمر نے ہماری مدد کی تھی۔ وزیراعظم اٹل جی کے کہنے پر پیر گیلانی سے لندن میں ملا۔ واشنگٹن میں طالبان سفیر عبدالحکیم مجاہد اور قندھار میں ملا عمر سے میں نے ڈائریکٹ رابطہ کیا اور ہمارا جہاز طالبان نے چھوڑ دیا۔ طالبان پاکستان کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں لیکن وہ بھارت کے دشمن نہیں ہیں۔ حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ بھی ہمارے دوست ہیں۔ اگر وہ طالبان سے سیدھے بات کر رہے ہیں تو ہمیں کس نے روکا ہوا ہے؟ امریکا نے اپنی شطرنج خوب چالاکی سے بچھا رکھی ہے لیکن ہمارے پاس دونوں نہیں ہیں‘ نہ شطرنج نہ چالاکی۔
امریکا نے اپنا پنڈ چھڑا لیا
افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد امریکا کے صدر جوبائیڈن نے جو پیغام دیا اس کا اہم مقصد دنیا کو یہ بتانا تھا کہ انہوں نے افغانستان سے نکلنا کیوں ضروری سمجھا۔ انہوں نے امریکا کے اس فوجی انخلا کا فیصلہ کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو کوئی کریڈٹ نہیں دیا۔ انہوں نے اس خوفناک حقیقت کی بھی کوئی ذمہ داری نہیں لی کہ وہ افغانستان کو کس کے بھروسے چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے؟ جیسے 1975ء میں امریکا جنوبی ویتنام کو چھوڑ کر بھاگ آیا تھا‘ ویسے ہی اس نے افغانستان کو چھوڑ دیا۔ ویسے امریکا نے ہی افغانستان میں 40 سال پہلے مجاہدین کو کھڑا کیا تھا۔ جونہی کابل میں ببرک کارمل کی سرکار بنی‘ روسیوں کو ٹکر دینے کیلئے امریکا نے افغانستان میں مداخلت کی۔ امریکا نے پیسے اور ہتھیار سوویت یونین کے خلاف جنگ کے لیے دیے۔ یہ حقائق مجھے 1983ء میں ان سیاستدانوں نے خود بتائے تھے۔ امریکا نے سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹریننگ کیمپ بھی شروع کئے مگر یہیں کے تربیت یافتہ لوگوں نے جب القاعدہ سے ہاتھ ملایا اور اس نے امریکا پر حملہ کر دیا تو امریکا نے کابل سے طالبان کو اکھاڑنے کیلئے اپنی اور نیٹو کی فوجیں بھیج دیں۔اب 20 سال بعد اپنے تقریباً اڑھائی ہزار فوجیوں کی جان گنوانے اور کھربوں ڈالر برباد کرنے کے بعد اسے طالبان کے ساتھ دوبارہ بات چیت شروع کرنا پڑی۔ اس کا ٹارگٹ صرف ایک تھا کہ کسی طرح افغانستان سے اپنا پنڈ چھڑایا جائے۔ طالبان پہلے بھی افغانستان سے امریکا کی اچانک بے دخلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کے پیش نظر آئے تھے جبکہ اس بار امریکا نے طالبان کو اپنے انخلا کے جواز کے طور پر لیا ہے۔ اگر بائیڈن انتظامیہ اور طالبان میں سانٹھ گانٹھ نہ ہوتی تو کیا امریکی واپسی اتنی پُرامن طریقے سے ہو سکتی تھی؟ اچھی بات ہے کہ انخلا کے دوران کسی بھی امریکی پر یا امریکی سفارتخانے پر کوئی حملہ نہیں ہوا۔ کئی سفارت خانے بند ہو گئے لیکن امریکی سفارتخانہ کابل ہوائی اڈے پر ہی سہی‘ پھر بھی جاری ہے اور انخلا کے عمل کی نگرانی کر رہا ہے۔ اشرف غنی متحدہ عرب امارات نکل گئے ہیں جبکہ جو افغان سیاسی قیادت افغانستان میں موجود ہے‘ ان کے ساتھ طالبان کے رابطے جاری ہیں۔ کہیں سے بے امنی کی اطلاع نہیں آئی۔ صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں طالبان کی ذرا بھی مذمت نہیں کی‘ الٹے وہ اس بات کا کریڈٹ لے رہے ہیں کہ انہوں نے امریکی فوجیوں کی جانیں اور امریکی ڈالر بچا لیے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے بڑی چالاکی سے غنی سرکار اور طالبان‘ دونوں کو سادھ کر اپنا مطلب نکالا ہے۔ اب دنیا بھر کے ممالک امریکا کو کوس رہے ہیں تو کوستے رہیں‘ دنیا امریکا کے لیے چاہے یہ کہتی رہے کہ بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے‘ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اب اس دلدل سے نکل گیا ہے۔
کابل میں بھارتی معذوری
یہ خوشی کی بات ہے کہ افغانستان سے بھارتی شہریوں کی بحفاظت واپسی ہو رہی ہے۔ بھارت سرکار کی نیند دیر سے کھلی لیکن اب وہ کچھ مستعدی دکھا رہی ہے لیکن کئی لحاظ سے بھارت سرکار اب بھی کشمکش میں ہے۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیا کرے۔ بھارت سرکار کی افغان پالیسی وہ منتری اور افسر بنا رہے ہیں جنہیں افغانستان کے بارے میں موٹے موٹے حقائق کا بھی علم نہیں ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ اس وقت نیویارک میں بیٹھے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ہماری سرکار نے اپنی افغان پالیسی کا ٹھیکا امریکی سرکار کو دے رکھا ہے۔ وہ تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ بھارت افغانستان کا پڑوسی ہے اور اس نے وہاں تین بلین ڈالر خرچ کیے ہیں‘ اس کے باوجود کابل کی نئی سرکار بنانے میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ سابق صدر حامد کرزئی اور سابق نائب صدر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ طالبان سے بات کرکے کابل میں مشترکہ سرکار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور پاکستان اس معاملے میں تگڑی پہل کر رہا ہے لیکن بھارت نے اپنے مکمل سفارتی عملے کو دہلی بلا لیا ہے۔ مودی سرکار کے پاس کوئی ایسا سیاستدان‘ افسر یا دانشور نہیں جو کابل کے کہرام کو کم کرنے میں کوئی کردار ادا کرے، ایک مشترکہ سرکار کھڑی کرنے میں مدد کرے۔ طالبان سے سبھی اہم حکومتوں نے کھلی اور سیدھی بات چیت بنا رکھی ہے لیکن بھارت اب بھی بغلیں جھانک رہا ہے۔ اس کی یہ معذوری کابل میں چین اور پاکستان کو زبردست مضبوطی فراہم کرے گی۔ بھارت اپنی25 سال پرانی سوچ میں خراٹے لے رہا ہے۔ سرکار کو پتا ہی نہیں ہے کہ پچھلے 25 سال میں طالبان کتنا بدل چکے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کے بیچ نئی نسل کے نوجوان آ چکے ہیں جو عالمی رائے سے واقف ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ان کے ترجمان نے سرکاری اعلان کیا ہے کہ ان کی سرکار سب پر محیط اور ہمہ گیر ہو گی۔تیسری بات یہ ہے کہ سکھ گوردوارے میں جا کر طالبان رہنماؤں نے ہندوؤں اور سکھوں سے وعدہ کیا ہے۔ ان کے ترجمان نے یہ بھی بھروسہ دلایا ہے کہ کسی بھی ملک کو کوئی سہولت نہیں دیںگے کہ دیگر ملک کے خلاف افغان سرزمین کا استعمال کر سکے۔ اگر طالبان سرکار اس طرز پر چلنے لگے تو بھارت کو اس کے ساتھ بات چیت سے کس نے روکا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

روزنامہ دنیا

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply