اور میں نم دیدہ نم دیدہ (31) -ابوبکر قدوسی

دوپہر کے وقت ہمارا جدہ ساحل اور شہر کو دیکھنے کا ارادہ تھا  سو ظہر کی نماز پڑھ کر سب گاڑی میں سوار ہوئے اور ساحل کی طرف چل نکلے ۔ تمام جدہ شہر میرے سامنے تھا ۔ بلاشبہ جدہ شہر تعمیر و ترقی میں کسی بھی مغربی ملک کے شہر سے کم خوبصورت نہیں ہے ۔ سڑکیں انتہائی صاف ستھری اور عمارات بہت جدید تعمیر شدہ ہیں ۔ راستے میں جدہ کی مشہور ” لالٹینوں ” پر نظر پڑی جو دراصل لالٹین نہیں بلکہ خوشبو کے برتن کے ماڈل ہیں لیکن ہم پاکستانی عوام ان کو لالٹینیں بولتے ہیں ۔ یہ تین عدد ہیں اور خاصے جہازی سائز کے ہیں ۔ چلتے چلتے میں نے گاڑی میں سے ان کی تصاویر لیں ۔۔
اور بھی بہت خوبصورت عمارات ہمارے سامنے آ رہی تھیں اور اکثر کا رنگ خاکی تھا ۔ حتیٰ کہ ساحلی علاقہ شروع ہو گیا ۔ غالباً انیس سو اٹھانوے کی ایک شام میں اسی ساحل سمندر پر آیا تھا تب بھی اچھا لگا تھا اور آج چھبیس برس بعد تو یہ سب بہت بدل چکا تھا ۔ تب کا منظر بھی آج تک آنکھوں کے سامنے ہے کہ پانی پتھروں سے ٹکرا رہا تھا اور اوپر ٹائلوں والا طویل راستہ بنا ہوا تھا ۔ لیکن اب دن کی روشنی میں آیا تو منظر ہی بدلا ہوا تھا ۔ کئی کلومیٹر پر پھیلا یہ علاقہ بہت اچھے طریقے سے سنبھالا گیا تھا ۔ چونکہ دن کا وقت تھا اس لیے کوئی کوئی فرد و بشر ہی دکھائی دے رہا تھا ۔ چند ایک خواتین مغربی لباس پہنے مٹر گشت کر رہی تھیں ، مغربی لباس سے مراد صرف پینٹ شرٹ ہے نہ کہ کوئی سکرٹ وغیرہ ۔۔۔ گو اس تنزلی کی طرف عربوں کا سفر بہت تیزی سے جاری ہے لیکن ابھی ان علاقوں میں کچھ عافیت کا سامان ہے ، کہ جو دبئی اور امارات سے کب کی رخصت ہوئی ۔

ہم ساحل کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے کہ ایک مناسب جگہ  پر  رُک گئے ۔ میں ساحل کے کنارے پڑے پتھروں سے سر ٹکراتے پانی کو دیکھ رہا تھا کہ جیسے ماضی کا کوئی منظر میرے سامنے آ گیا ۔
ہجرت حبشہ انہی سمندروں کے کنارے سے ہوئی تھی کہ جب مکہ والوں نے اصحابِ رسول پر ایسے ستم توڑے کہ جیسے زندگی کے دروازے بند کر دیے اور آسمان سے اذن ہوا کہ آپ لوگ یہاں سے نکل جائیں ، یوں پہلا قافلہ اسی ساحل سے حبشہ کی طرف چلا ۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیسے کمزور کشتیوں اور ناکافی اسباب کے ساتھ سو سے زیادہ یہ اصحابِ رسول دو سو کلومیٹر دور سمندر کا سینہ چاک کرتے ہوئے حبشہ میں پہنچے تھے ۔ اس کے بعد ایک دوسرا قافلہ بھی نکلا تھا ۔ پھر مُجھے سیدنا عکرمہ بن ابی جہل یاد آئے کہ وہ بھی رسول مکرم کی مکہ آمد کے بعد خائف ہو کر بھاگ نکلے ۔
عمر بھر انہوں نے اپنے باپ عمرو بن ہشام یعنی ابوجہل کا عروج دیکھا کہ وہ جیسے مکہ کا حاکم تھا کہ جس کی مرضی کے بغیر مکہ میں پتہ بھی نہ کھڑکتا تھا، پھر وہ بدر میں مارا گیا ۔ وقت گزرتا گیا حتی کہ مدینے سے قافلے مکہ میں آن اترے ۔ عکرمہ دکھ کے عالم میں جیسے دونوں جہاں ہار کے مکے سے نکلے ۔خیال تھا کہ اب اس زمین پر واپس نہیں آنا ۔ ابھی کشتی کچھ ہی دور گئی تھی کہ طوفان نے آ لیا ۔ ملاح کہ طوفانوں کی زبان سمجھتے ، ان کے رنگ جانتے اور ان کی رمز پہچانتے ہیں ، کچھ پریشان ہو کر بولے کہ ” اللہ کو یاد کرو کہ وہ اس طوفان سے نکال دے”
عکرمہ نے پلٹ کر پوچھا :
“کیا آج لات و منات و عزیٰ کام نہیں آئیں گے؟ ”
ملاح جیسے کچھ شوخ ہو کے بولے :
“سردار ! سمندروں میں اسی ایک کی حاکمیت کا سکہ چلتا ہے”
دل کی دنیا بدل گئی ۔۔ زیر لب بولے
” یہی تو ہمارا محمد سے جھگڑا تھا اور اگر لات و منات عزی کی سمندروں میں نہیں چلتی تو پھر محمد سچا ہے ان کی زمین پر بھی نہیں چلتی ”
ملاح کو کہا ” کشتی واپس موڑ لو”
ساحل پر اترے اور دیر تک بیٹھے رہے ، جائیں بھی تو کہاں جائیں ۔۔۔ دوسری طرف بیوی صاحبہ تلاش کرتی ادھر چلی آئیں ۔ اپنے محبوب خاوند ، عمر بھر کے ساتھی کو یوں پریشان دیکھا تو آگے بڑھ کر تسلی دی ۔ ادھر عکرمہ حیران کہ یہ کہاں چلی آئیں ۔۔ ادھر اس نے سرور کائنات کا سندیسہ دکھایا کہ “عکرمہ واپس آؤ مکہ تمہارا منتظر ہے ” پھر وہی عکرمہ بن عمرو بن ہشام تھے اور ان کی تلوار تھی اور اسلام کی عزت تھی کہ جس کے واسطے عکرمہ کی تلوار چلتی رہی۔۔۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔۔۔۔

میں جدہ کے سمندر کنارے کھڑا دیر تک تاریخ کے اوراق پلٹتا رہا اور ان پانیوں کے بیچ میں سے اٹھتی لہروں میں محبتوں کی اس خوشبو کو محسوس کرتا رہا کہ جو صدیاں پہلے یہاں بکھری تھی اور آج تک اس کے نشان باقی ہیں ۔

چلتے چلتے ابو الحسن نے دور حد نگاہ سے پرے ایک اجڑی پرانی عمارت کی طرف نشاندہی کی تو معلوم ہوا کہ پرانی نہیں ادھوری ہے ۔ یہ ولید بن طلال کا شروع کردہ منصوبہ تھا اور موصوف کا ارادہ یہ تھا کہ دنیا کی بلند ترین عمارت بنائیں گے ۔ اسی بیچ محمد بن سلمان آگئے اور ایسے منصوبے ادھورے رہ گئے ۔ میں دیکھتا رہا جو گو بہت دور تھی اور کوئی ماضی کا مزار نہیں تھی ابھی حال کی دنیا کا نشان تھی لیکن خوابوں کا مزار ضرور بنی عبرت کا درس دے رہی تھی ۔

میں اس وقت بھی ابو الحسن سے اسی حوالے سے بات کر رہا تھا کہ امت مسلمہ کے یہ امیر لوگ کیسے محدود اہداف رکھتے ہیں ۔ اگر یہ اپنے وسائل کو امت کی حالت بدلنے اور تعلیمی ترقی کے لیے استعمال کرتے تو امت یوں آج مجبور و مقہور اور مظلوم نہ ہوتی ۔ یہ عمارت آسمان کو چھونے کی نیت سے تعمیر نہ کی جاتی بلکہ اس ارادے کے تحت تعمیر کی جاتی کہ اس میں ایک یونیورسٹی ہوگی جو علم کے آسمان کو چھوئے گی تو شاید یہ مکمل بھی ہوتی اور یوں اجاڑ بھی نہ ہوتی۔۔

کچھ وقت بیت چکا تھا اور اگلی منزلیں ہماری منتظر تھیں اور بھوک بھی چمک رہی تھی کہ اسی ساحل پہ ہمارا پہلے دن کا ساتھی البیک ریسٹورنٹ نظر آگیا ۔ سب کے لیے کھانا لیا ادھر ہی بیٹھ کر کھایا ۔ کھانا کھانے کے دوران تین عربی بلیاں مرغی کی خوشبو سونگتے مہمان بن کے چلی آئیں ۔ کچھ حصہ ان کو دان کیا لیکن وہ کم پر راضی نہیں ہو رہی تھی اور نہ ڈرانے سے ڈر رہی تھی۔

ساحلوں کی ہوا سے جدا ہوئے تو ” اندرون شہر ” جانے کا پروگرام بن گیا ۔ سب سے پہلے ہم اماں حوا کی قبر کی طرف چل دیئے۔ یہ ایک بڑا احاطہ تھا جس کے باہر دو چار گاڑیاں پہلے سے کھڑی تھیں ۔ ہم بھی گاڑی ایک طرف کھڑی کر کے اندر داخل ہوئے ۔ ایک طرف لکھا تھا کہ تصویر سازی منع ہے لیکن وہاں متعین پہرے داروں کا کوئی موڈ نہیں تھا کہ منع کرتے ۔ برآمدہ نما ایک لمبا کوریڈور تھا جس پر چھت بنی ہوئی تھی جبکہ بائیں طرف لمبی لمبی قبریں بنی ہوئی تھیں جو شائد پچاس فٹ سے تو کچھ طویل ہی ہوں گی ۔ سچی بات ہے کہ مجھے وہ سب کچھ منسوب منسوب ہی لگ رہا تھا ۔۔یا میرے اندر کا ” وہابی ” پچھلے دو گھنٹے کی ” ساحلوں کی ہوا ” کھا کر روحانیت کمزور کر چکا تھا ۔ قصہ مختصر اللہ ہماری ماں اماں حوا پر رحمتوں کی برکھا برسائے ، لیکن مجھ پر ماں کے وچھوڑے والی کیفیت طاری نہ ہوئی ۔۔۔۔

ادھر سے نکلے تو ساتھ ہی موجود آبادی میں گھس گئے جو روایتی علاقہ تھا اور جدید و قدیم کا امتزاج تھا ، بلکہ جدید بھی اتنا نہیں کہ جیسا آج کل کا جدہ ہے بلکہ جدید بھی کوئی دس بیس برس پرانا والا جدید اور قدیم آپ پچاس سو برس کا کہہ لیجیے ۔

سڑک سے تھوڑا دور ایک گھر دکھائی دیا جسے سعودی حکومت نے کچھ سنبھالا ہوا ہے کہ حکومت حاصل کرنے سے بعد کبھی کبھی معمار جدید سعودی عرب شاہ عبدالعزیز یہاں آیا کرتے تھے اور قیام کرتے ۔ شاہ عبدالعزیز بھی کمال شخص تھے ، حالات بگڑے اور حکومت چھن گئی تو کویت میں اپنے رشتے داروں کے ہاں جلاوطنی کی زندگی گزاری لیکن خواب دیکھنا نہ چھوڑے ۔۔ پھر ایک روز صرف پچیس تیس ساتھیوں کے ساتھ رات کے اندھیرے میں شبخون مار کر ریاض کا قلعہ فتح کر لیا ۔ اور ازسرِنو سعودی سلطنت کی بنیاد رکھی اور عربوں کو وہ ترقی دی کہ آج دنیا میں متمول ترین مملکتوں میں شمار ہے ۔

یہاں سے کچھ آگے بڑھے تو سڑک کے بیچوں بیچ ایک دروازہ دکھائی پڑا ، ٹریفک اور وقت کے سبب اب رکنا کہیں بھی مشکل تھا لیکن اس دروازے کو اچھی طرح دیکھا ۔
پھر کچھ آگے باب جدہ آ گیا ۔
جو  فصیل میں موجود آٹھ دروازوں میں سے ایک ہے۔ یہ مکہ کی سمت مشرقی دروازہ ہے اسی سبب اسے باب مکہ بھی کہتے ہیں ۔اصل دروازہ مسمار ہو چکا ہے تاہم اسی مقام پر نیا دروازہ اسی طرز پر بنایا گیا ہے۔ باب مکہ روایتی خریداری کے لیے آج بھی بہت مقبول ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ جدہ کے مرکز میں ایک پُرکشش علاقہ بن گیا ہے۔ نت نئے بڑے بڑے شاپنگ مال بننے کے باوجود یہ مقام خریداروں، زائرین اور سیاحوں سے بھرا رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہاں کئی تاریخی مقامات بھی موجود ہیں جن میں مسجد شافعی اور بیت نصیف سب سے اہم ہیں۔

اب ہماری رفتار تیز ہو چکی تھی ، ایک پل سے اترے تو دونوں طرف کھلا میدان تھا اور بالکل چٹیل اور ہموار ۔ دائیں طرف مکمل آبادی بالکل جیسے کوئی پرانا شہر ہوتا ہے ۔ اور اس سے آگے یہ چٹیل میدان ۔۔ یہ میدان کچھ کلومیٹر لمبا تو ہو گا ۔ شہر کے بیچوں بیچ یہ نظارہ حیران کن تھا ۔ اب ہماری حیرانی کے پیشِ نظر ابوالحسن بتا رہے تھے کہ یہاں اس دور پیچھے نظر آنے والی آبادیوں کی طرح ہی گنجان آبادی تھے ، محلے اور بازار تھے ۔ جو سب گرا دیئے گئے ہیں اور یہاں نئی تعمیرات ہونے کو ہیں ۔ یہ سعودیوں کا ہی حوصلہ ہے کہ یوں وسیع علاقے گرا کر بنانا شروع کر دیتے ہیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ محض تخریب نہیں کرتے اور نہ کمیشن کا گھن چکر ہوتا ہے بلکہ ان کی تخریب اپنے ملک کی تعمیر کے لیے ہوتی ہے ۔اس چٹیل میدان کے درمیان ایک اکیلا ، تنہا کھجور کا درخت عجیب نظارہ پیش کر رہا تھا ۔ مجھے عبدالرحمن الداخل یاد آ رہا تھا ، کہ تنہا جان بچا کر دمشق سے نکلا ، پہلے اپنے ننہیال مراکش پہنچا اور پھر سمندر کو عبور کر کے اندلس میں جا داخل ہوا ، اور ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ لیکن جب جب اپنے علاقوں کی یاد آتی تو اداسیاں گھیراؤ کر لیتیں۔۔ علامہ اقبال نے الداخل کی اسی کیفیت کو نظم بھی کیا ہے ۔
میری آنکھوں کا نُور ہے تُو
میرے دل کا سُرور ہے تُو
اپنی وادی سے دُور ہوں مَیں
میرے لیے نخلِ طُور ہے تُو
مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالا
صحرائے عرب کی حُور ہے تُو
پردیس میں ناصبور ہوں مَیں
پردیس میں ناصبُور ہے تو
غُربت کی ہوا میں باروَر ہو
ساقی تیرا نمِ سحَر ہو

اب ارادہ تھا کہ کچھ شاپنگ کی جائے ۔ ابو الحسن اچھا مہمان نواز ثابت ہو رہے تھے ۔ انہوں نے کہا اب آپ لوگوں کے لیے کچھ تحائف خریدنے ہیں اور آپ کی پسند سے لینے ہیں ۔ سو ہم گاڑی میں بیٹھے اور واپسی کا سفر شروع کیا آسمان پر بادل چلے آ رہے تھے ۔ جب تک ہم بڑے شاپنگ مال میں داخل ہوئے تب تک ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی ۔ اس سفر میں یہ تیسری بار تھا کہ ہمیں بارش ملی یہ بہت بڑا شاپنگ مال تھا میں اس کی وسعت دیکھ کر حیران ہو رہا تھا پورے مال میں گاہک نہ ہونے کے برابر تھے بس یہی سمجھ آ رہی تھی کہ عرب بھی راتوں کو نکلنے والی قوم ہے اور ابھی تو صرف عصر کا وقت ہے۔ ہائے ۔۔
یہ وقت عصر ہے ، یہ زوال کی گھڑی ہے

شاپنگ مال میں بنی ایک خوبصورت مسجد میں ہم نے عصر کی نماز پڑھی اس کے بعد سب بچے اور خواتین مختلف دکانوں میں گھس گئے ۔ طائف کی طرح یہاں پر بھی خوشبو کی بڑی بڑی دکانیں تھیں جن کے باہر کھڑے ملازم آتے جاتے کو ہاتھوں پر خوشبو لگا رہے تھے ۔ یہاں ایک بہت بڑی دکان تھی جس میں بین القوامی برانڈز کا سامان نسبتاً سستے داموں بک رہا تھا اس دکان میں رونق دکھائی دی ۔ اچھا وہ سستا بھی کوئی ایسا سستا نہیں تھا ، مثلاً ایڈیڈاس کے جاگرز ابوالحسن نے خریدے جو پاکستانی روپے میں اٹھارہ ہزار روپے کے رہے ہوں گے ۔ پھر بھی خاصا کم قیمت تھا ۔ یہاں سے نکلے تو بارش تھم چکی تھی اور مغرب کا وقت ہو چکا تھا ۔ اور سات بجے کی ملاقات عزیز برادر فیصل علوی سے طے تھی ۔ جو جدہ میں دارالسلام کے منیجر ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply