علامہ عقیل الغروی، طی الارض اور آئن سٹائن/حمزہ ابراہیم

علامہ عقیل الغروی ایک بہت مہنگے خطیب ہیں۔ یوں تو آپ برطانیہ میں قیام پذیر ہیں لیکن کراچی و لاہور میں محرم و صفر کی مجالس میں خطابت کے جواہر بکھیرنے کیلئے آتے رہتے ہیں۔ گذشتہ دنوں یوٹیوب پر ان کا کچھ ماہ پرانا کلپ سامنے آیا جس میں فرما رہے تھے کہ:
”عرفانی ادب میں آپ سنتے ہیں، طی الارض، یہ کیا ہے؟ طی ہو جانا یعنی سمٹ جانا۔ بہت لمبا چوڑا ٹکڑا ہو کپڑے کا، اسے آپ تہ کرتے ہیں۔ یہ فارسی کا تہ کرنا، عربی میں طی کرنا ہے۔ سینکڑوں میٹر کا کپڑا آپ کی مٹھی میں آ جاتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ سچے ارادے سے ریاضت کرتے ہیں، وہ گھر سے نکلے، دو چار قدم چلے، مکے پہنچ گئے۔ یہ قصہ کہانی نہیں ہے، یہ حقیقت ہے۔ ایسے ہوتا ہے۔ مکے سے نکلے، ایک دو قدم اٹھائے، مدینے پہنچ گئے۔ مدینے سے نکلے، خراسان پہنچ گئے۔ خراسان سے نکلے، کربلا پہنچ گئے۔ یہ ہوتا ہے، جن کے ساتھ ہوتا ہے، ہوتا ہے۔ واقعتاً کسی نے اللہ کیلئے ریاضت کی ہو، محنت کی ہو، راتوں کو آنکھوں میں کاٹ کر سحر کا نور کاڑھا ہو۔ تو پھر یہ ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کہتا ہے کہ اچھا اتنی طلب ہے ہماری، تو لو، پھر ہم زمین تمہارے قدموں میں سمیٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ اب عام انسان راستہ طے کرے گا تب پہنچے گا۔ یہ جو شخص ہے اس کیلئے راستہ تہ ہو جائے گا۔ کسی کو راستہ طے کرنا ہے، کسی کیلئے راستہ تہ ہونا ہے۔ یہ حقائق ہیں۔“
آگے چل کے فرماتے ہیں:
”کسی نے اگر آئن سٹائن کی ریلیٹویٹی کو سمجھا ہے، اس کے دونوں پیپرز پڑھیں، سپیشل ریلیٹویٹی بھی اور جنرل ریلیٹویٹی بھی، تو ایک جست میں ہماری اس بات کو سمجھ سکتا ہے۔ کہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص ایک آیت پڑھ رہا ہو، اتنی دیر میں دوسرا شخص پورا قرآن پڑھ لے۔“

تبصرہ

سائنس کے نظریۂ اضافیت کا اطلاق انسان کی چال پر نہیں ہوتا، وہ  کروڑوں کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی چیزوں کے بارے میں ہے۔ اتنا تیز حرکت کرنامتحرک چیز  کے حجم کو کم کرتا ہے۔ اسی طرح اس کی کمیت (mass) اور رفتار  کو بھی متاثر کرتاہے اور حادثے (event) کا وقت بھی پھیلاتا ہے۔ لیکن اس کا احساس ان کو ہوتا ہے جن کے حساب سے حرکت ہو رہی ہو، خود متحرک چیز چونکہ اپنے لئے ساکن ہوتی ہے لہذا اس کیلئے یہ اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ خود اس کیلئے نہ فاصلہ سمٹے گا، نہ وقفہ بڑھے گا۔ نیز یہ سب تبدیلیاں اعراض میں واقع ہوتی ہیں۔ ان کا جوہر سے بالکل کوئی تعلق نہیں۔ ریاضت اور  صوفیوں کی نفسیاتی الجھنوں سے بھی آئن سٹائن کے نظریات کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
دینی محافل میں خطابت کیلئے دینی متون میں بہت مواد موجود ہے اور خطبائے کرام کو سائنس کی وادی میں قدم رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اگر اس کا شوق ہو تو پہلے کچھ علم حاصل کر لینا چاہیے۔ آئن سٹائن کے پیپرز تو جرمن زبان میں لکھے گئے تھے، وہ تو علامہ خود نہیں پڑھ سکتے، لیکن معروف سائنسدان جناب ڈاکٹر رضی الدین صدیقی نے نظریۂ اضافیت پر اردو میں ایک کتاب ”اضافیت“ لکھی ہے جسے 1940ء میں انجمن ترقی اردو دہلی نے شائع کیا تھا اور اس کی پی ڈی ایف فائل انٹرنیٹ پر میسر ہے۔ اسے علامہ پڑھ لیں تو شاید اس قسم کی فاش غلطیاں ان سے سرزد نہ ہوں۔ یہ طبع نازک پر گراں گزرے تو ویکی پیڈیا پر ریلیٹویٹی کے بارے میں دی گئی معلومات اور اس کی مساواتوں کو ہی دیکھ لیں۔

آئن سٹائن اور آیت اللہ بروجردی

تقریباً پندرہ سال پہلے ایک جھوٹ  ایران سے شائع ہوا اور انٹرنیٹ سے ہوتا ہوا پاکستان میں امام بارگاہوں کے منبروں تک جا پہنچا۔ اس کہانی شریف میں آئن سٹائن اور آیت اللہ بروجردی میں رابطے کا تذکرہ تھا اور نظریۂ اضافیت کو مُلا صدرا کی حرکت جوہری سے نتھی کیا گیا تھا۔ کہانی شریف کے جلد ہی مختلف متون سامنے آ گئے۔ ذرا محتاط متن کے مطابق ڈاکٹر حسابی نے آئن سٹائن اور آیت اللہ بروجردی کے بیچ واسطے کا کردار ادا کیا تھا۔ چونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے لہٰذا کہانی گھڑنے والے اس بات کی طرف متوجہ نہ رہے کہ  1905ء میں جب آئن سٹائن نے یہ نظریہ پیش کیا، اس وقت ڈاکٹر حسابی تین سال کے بچے تھے۔ حسابی صاحب تعلیم کے اعتبار سے انجینئر تھے اور ان کو نظریہ اضافیت کی کچھ سمجھ نہ تھی۔ اس مفروضہ خط و کتابت کا کوئی ریکارڈ بھی موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر حسابی نے ایران میں انقلاب کے تیرہ سال بعد 1992ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں انتقال فرمایا۔ آئن سٹائن سے کسی رابطے کا انہوں نے کبھی ذکر نہیں کیا، نہ ہی ان کی اولاد نے کبھی ایسی کوئی بات کہی ہے۔ خود آیت اللہ بروجردی نے بھی ایسے کسی رابطے کا ذکر نہیں کیا۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ  1946ء میں وہ مرجع بنے تھے تو انہوں نے حوزے میں مُلا صدرا کا فلسفہ پڑھانے کی مخالفت کی تھی۔

مُلاصدرا نے کیا لکھا ہے؟

رہی حرکتِ جوہری کی بات، تو مُلا صدرا کی کتاب اسفار اربعہ میں جو نظریۂ حرکت پیش کیا گیا ہے وہ ارسطو اور فلوطین کے خیالات کی ہی تشریح ہے، وہ ان سے آگے نہیں نکلے۔ خود ملا صدرا نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ حرکت جوہری کا نظریہ اثولوجیا میں آیا ہے (اسفار اربعہ، جلد 3، صفحہ 111، بیروت)۔جو لوگ 2018ء میں حق پبلیکیشنز کے شائع کردہ اسفار اربعہ کے اردو ترجمے، فلسفۂ ملا صدرا، میں حرکتِ جوہری کی بحث کو دیکھنا چاہیں تو وہ صفحات 636 سے 644 تک ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

سائنس حرکت جوہری کو رد کرتی ہے۔ کچھ مدرسوں میں اب بھی معقولات کی کتابوں میں وہی فرسودہ یونانی نظریات پڑھائے جا رہے ہیں جو جہالت کی ترویج کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آئن سٹائن کا نظریہ نیوٹن ہی کی فراہم کردہ عقلی بنیاد پر اٹھا ہے، اسی کے نظریۂ حرکت میں بہتری لے کر آیا ہے۔ اس کا موضوع مکانی اور عرضی تبدیلی ہی ہے۔ ان تبدیلیوں کا تعلق جوہر سے نہیں بلکہ شئے کے خارج میں دو حالتوں کے بیچ توانائی کے فرق سے ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ آئن سٹائن کا نظریہ وقت کے قدیم ہونے کو رد کر کے ملاصدرا کے نظریات کے تابوت میں مزید کیل ٹھونک دیتا ہے۔ اسی طرح روشنی کے بارے میں ملا صدرا کی سوچ کو بھی نیوٹن نے ہی باطل ثابت کر دیا تھا اور آئن سٹائن کے کام سے اس بطلان کے مزید ثبوت فراہم ہوئے ہیں۔ یہی معاملہ اصالت وجود اور وحدت وجود جیسے تصورات کا ہے۔ مادے کے بارے یونانی تصورات بھی رد ہو چکے ہیں اور اس کی قوتوں کو سمجھ کر تصرف میں لایا جا رہا ہے۔

جدید زمانے میں ملا صدرا کی پٹاری سے علم برآمد کرنا ایک لاحاصل سعی ہے۔ تصوف کا علم سے کوئی تعلق نہیں، یہ جہل مرکب ہے۔ تعلیمی اداروں اور اساتذہ کو سوشل میڈیا پر پھیلنے والے جہلِ مرکب کے بارے میں طلبہ کو ضروری معلومات فراہم کرنی چاہئیں۔ جدید تعلیم کا ایک مقصد علم اور جہلِ مرکب میں فرق کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہے۔

قرآن میں طی الارض کی نفی

فلوطین (Plotinus) ایک رومی فلسفی تھا جواسلام سے تین سو سال پہلے مصر میں پیدا ہوا۔ وہ ایک ہندو جوگی کا شاگرد تھا اور اس نے افلاطون کی خیالی دنیا میں مزید رنگ بھرے۔ اس کی فکر زمانۂ  جاہلیت کے اذہان پر چھا گئی اور مشرکین مکہ کے علاوہ مسیحی اور یہودی علم کلام بھی اس سے متاثر ہوا۔ چنانچہ سبھی کو یہ توقع تھی کہ اسلام بھی اسی قسم کی خیالی دنیا بسائے گا۔ لیکن قرآن نے طی الارض وغیرہ کی نفی کی اور انسان کو جوگی بابوں کے ذہنی شکنجے سے نجات دی۔ چنانچہ ہم سورہ رعد کی آیت 31 میں پڑھتے ہیں:

وَ لَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُیِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِہِ الْاَرْضُ اَوْ کُلِّمَ بِہِ الْمَوْتٰی ؕ بَلْ لِّلّٰہِ الۡاَمْرُ جَمِیْعًا ؕ اَفَلَمْ یَایۡـَٔسِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ لَّوْ یَشَآءُ اللّٰہُ لَہَدَی النَّاسَ جَمِیْعًا ؕ وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا تُصِیْبُہُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَۃٌ اَوْ تَحُلُّ قَرِیْبًا مِّنْ دَارِہِمْ حَتّٰی یَاۡتِیَ وَعْدُ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ○

ترجمہ:” اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا جس سے پہاڑ چل پڑتے یا زمین پھٹ جاتی یا مردے کلام کرتے (تو بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے) بلکہ یہ سارے امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں، کیا اہل ایمان پر یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو ہدایت دے دیتا اور ان کافروں پر ان کے اپنے کردار کی وجہ سے آفت آتی رہے گی یا ان کے گھروں کے قریب (مصیبت) آتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آ پہنچے، یقینا اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔“ (ترجمہ: آیت اللہ محسن نجفی)

اسے بھی پڑھئے: مُلا صدرا کی فکر پر فلوطین کا سایہ

Advertisements
julia rana solicitors london

نام نہاد عرفاء اور غزہ

ہم دیکھتے ہیں کہ غزہ کے بحران میں یہ طی الارض کرنے والے بابے منظر سے بالکل غائب ہیں۔ ظالم کا اسلحہ جام کرنے یا اس کو طی الارض کر کے روکنے سے بالکل قاصر ہیں۔ ان کے کرامات کے دعوے صرف سادہ لوح نوجوانوں کو مرید بنانے کے کام ہی آ سکتے ہیں۔ یہ صوفیت صرف مسلمانوں کی نوجوان نسل کو علم سے دور رکھنے کا کام ہی بخوبی کر رہی ہے۔

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply