“ماتا پتا بھگوان سمان”, کیا واقعی؟ ۔۔بلال شوکت آزاد

جب والدین خدا بن جائیں تو اولادیں بھی شیطان بن جاتی ہیں۔اس لیے والدین انسان بن کر رہیں اور اولادوں کی پرورش بھی انسانوں کی طرح کریں مطلب اپنے فرائض میں کوتاہی نہ برتیں اور حقوق میں غلو کا مظاہرہ اور حد سے تجاوز نہ کریں تو اولادیں بھی انسان ہی پروان چڑھتی ہیں اور والدین کے حقوق کی ادائیگی اور احترام میں فرق نہیں کرتیں اور اپنے ذمہ فرائض ہنسی خوشی ادا کرتی ہیں۔

لیکن معذرت کے ساتھ میں والدین کے مذہبی, معاشرتی اور قانونی طور پر بیان کردہ اور مروجہ مقام و مرتبے کو لیکر شدید ترین تشکیک کا شکار ہوں۔

کیوں؟

کیونکہ جتنی بھی مذہبی, معاشرتی اور قانونی توجبہات اور فرمودات ان کے مقام و مرتبے کو ہائپ دینے کے لیے بیان کیے جاتے ہیں بلکہ مسلط کیے جاتے ہیں زیادہ تر بیس لیس یا گھڑے گھڑائے ہیں اور جو چند ایک ثقہ ہیں ان کو بیان کرتے وقت غلو کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

کسی بھی طبقے کے والدین کے ساتھ بیٹھ جائیں اور ان کی اولاد کو لیکر سوچ و فکر سنیں تو آپ کو چند فیکٹرز مشترکہ ملیں گے اور وہی دراصل معاشرتی بگاڑ اور اولاد کی بغاوت کی اصل وجہ ہونگے۔

سب سے بڑی غلط فہمی یا خوش فہمی جو والدین میں عام پائی جاتی ہے وہ ہے ان کے حقوق پر مذہبی, معاشرتی اور قانونی مہر ثبت ہونا, مطلب والدین کے حقوق میں کوتاہی آسمان سے لیکر زمین تک شرک کے بعد گناہ کبیرہ شمار ہوتی ہے۔۔ جبکہ جب ان والدین سے اولاد کے متعلق ان کے فرائض (علاوہ پیدا کرنے کے) پوچھے جائیں تو اکثریت کے پاس آئیں بائیں شائیں, غصہ و ایموشنل بلیک میلنگ اور مار دھاڑ ہی بچتی ہے۔

ہر مولوی مدرس استاد اٹھتا ہے منبر و مکتب میں بیٹھ کر یہ لمبی لمبی تقریریں اور لیکچر جھاڑدیتا ہے اور والدین کو اللہ سے بس انیس بیس کے فرق سے نیچے بیان کرتا نظر آتا ہے جبکہ ان مبینہ والدین کے وکیلوں کے منہ سے اوّل تو اولاد کے حقوق سننے کو نہیں ملتے اور مل بھی جائیں تو ان کو اتنا ہلکا بیان کیا جاتا ہے جیسے دنیا اور جنت بس والدین کے ہی لیے بنی ہے جبکہ اولاد پیدائش سے جہنمی مخلوق ہے لہذا ان کے کیسے حقوق؟

میں بتادینا چاہتا ہوں کہ والدین اور ان کے وکلاء ذرا قرآن و حدیث اور قوانین کا مطالعہ کرلیں کہ جن آیات و احادیث اور قانونی شقوں میں والدین کے حقوق کی بات کی گئی ہے وہیں ان سے پچھلی و متصل آیات و احادیث اور قانونی شقوں میں والدین کے فرائض پر بھی ویسے ہی بات کی گئی ہے جیسی ان کے حقوق پر بات ہوئی ہے۔۔ لیکن شومئی قسمت شریعت اور قانون کا جیسا حال ہمارے حکمران طبقے نے کیا ہوا ہے بالکل وہی حال ہمارے گھروں میں والدین نے کیا ہوا ہے۔

حاکمیت کا شوق اور خود ساختہ تشریحات ہمارےگھروں سے ملکی ایوانوں تک مستحکم ہوچکی ہیں ۔ ہمارے والدین کو بھی اپنے حقوق کا علم اور پرواہ ہے اور ہمارے حکمرانوں کو بھی صرف اپنے حقوق اور اختیارات کا علم اور پرواہ ہے۔ اولاد اور رعایا جائے بھاڑ میں کیونکہ یہ نچلی سطح پر رہنے والی مخلوق ہے۔

مجھ سے اس موضوع پر بہت سوں کی ون ٹو ون بحث ہوچکی ہے لیکن ہمیشہ میرا منہ آیات و احادیث اور قانونی شقات بیان کرکے بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جب میں سند طلب کرلوں اور غلو سے پاک کرکے وہی آیات و احادیث اور قانونی شقات بیان کرنے کو کہوں تو سٹی گم ہوجاتی ہے۔

والدین کے حقوق سے میں انکاری نہیں لیکن ان کو اولاد کے متعلق ان کے فرائض اور اولاد کے حقوق کو لیکر ملے ہوئے مذہبی, معاشرتی اور قانونی استثنی سے میں صرف انکاری ہی نہیں بلکہ شدید ترین مخالف اور ناقد بھی ہوں۔

ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے اور ہمارے معاشرے میں والدین کو ظالمانہ عمل تک کرنے کی کھلی چھوٹ اور آزادی ہے اور وہ ایسا بارہا اور روزانہ کرتے ہیں لیکن اولاد ردعمل دیتے وقت مذہبی, معاشرتی اور قانونی بندشوں اور ضمیر کے بوجھ تلے دب کر محتاط رہتی ہے پر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور جس دن اولاد کی جانب سے حجت اتمام ہوجائے تو پھر وہ اپنے والدین کے متواتر ظالمانہ عمل پر شدید ردعمل دے گزرتی ہے اور ہمارا معاشرہ پھر لٹھ لیکر اولاد کے پیش ہوجاتا ہے مطلب وہی ہوتا ہے جو اکثر ہم بات کرتے ہیں کہ عمل والا بچ جاتا ہے اور ردعمل والا رگڑا جاتا ہے۔ ۔ اور اسکی واحد وجہ من حیث القوم ہماری منافقت ہے۔

میں اپنی رائے کو سمیٹوں تو برصغیر میں جس طرح توحید کا حال ہوا, ختم نبوت کا حال ہوا, شادی بیاہ کا حال ہوا اور دین اسلام کی تشریح کا حال ہوا ویسا ہی حال والدین کے فرائض و حقوق, مقام و مرتبے اور اولاد کے حقوق کا ہوا مطلب کچھ بھی حقیقی اسلام سے نہیں لیا گیا یا کم لیا گیا, مطلب جو اپنے مفاد میں تھا وہ لے لیا اور باقی چھوڑ دیا۔ قصہ مختصر میرا ماننا ہے کہ ہندو مذہب میں جیسے “ماتا پتا بھگوان سمان” کا نظریہ موجود ہے اسی کو اسلامی تڑکہ لگا کر ہم پر مسلط کردیا گیا ہے اور شومئی قسمت ہمارے والدین اولاد کے معاملے میں خدا بننے کا مظاہرہ ہر روز کرتے نظر آتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یاد رہے حقوق والدین کی کوتاہی پر اگر اولاد جہنمی ہوگی تو صاحبان یاد رکھیں اور ڈر جائیں کہ حقوق اولاد کی کوتاہی پر بھی معافی نہیں بلکہ سخت وعیدیں موجود ہیں کیونکہ ماتا پتا بھگوان سمان نہیں ہوتے, وہ بھی انسان ہی ہوتے ہیں جن سے روز محشر پورا پورا حساب لیا جائے گا۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply