ہمارے معاشرے میں اخلاقی نظام تباہی کا شکار ہو چکا ہے اور اب اس کے اثرات خاندانی نظام پر ظاہر ہو رہے ہیں۔ ہم نے بہت سے خطرناک ہتھیار بچوں کے حوالے کر دیے ہیں اور ان کی تربیت سے لاپرواہ ہو گئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر خاندان میں ہر بچہ الگ مزاج اور الگ فکر کا ہو چکا ہے۔ خاندانی تربیت کا اظہار تو تب ہو جب بچوں نے والدین سے یہ تربیت لی ہو یا والدین نے یہ تربیت دی ہو۔ اب تو ایسے کارٹون آ گئے ہیں جس میں دو ماہ کا بچہ جیسے ہی ان کو سنتا ہے اور دیکھتا ہے جتنا مرضی رو رہا ہو خاموش ہو جاتا ہے۔ والدین خوش ہو جاتے ہیں کہ جان چھوٹ گئی اب وہ خاموش تو ہے۔ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے اس کے کارٹونز میں ڈانس اور مخلوط طرز زندگی اور سب کچھ جو مغربیت کا علمدار ہے وہ دکھا دیا جاتا ہے۔ مسلسل ایسے دیکھنے، سننے اور مشاہدہ کرنے سے بچہ انہی چیزوں کو بہترین زندگی سمجھنے لگتا ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ ان کارٹونز میں خنزیر اور کتے کو ایک ہیرو کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ بچہ ناصرف انہیں پسند کرنے لگتا ہے بلکہ انہیں زندگی کا ایک اہم حصہ سمجھ لیتا ہے۔ تھوڑا بڑا ہوا تو ایسی گیمز آ گئی ہیں جن میں مسلسل رابطہ کے ذریعے عجیب و غریب چیزوں کی تربیت حاصل کر لیتا ہے۔ اسی لیے پب جی اور دوسری گیمز کھیلنے والے بچے اپنے والدین تک کو قتل کر رہے ہیں۔
نماز، تلاوت قرآن، ماں باپ کی مدد تو اپنی جگہ، یہ گیمز اس حد تک بچے پر اثر انداز ہو جاتی ہیں کہ وہ خود کھانا نہیں کھاتا بلکہ شدید تکلیف کے بعد ہی واش روم کی طرف جاتا ہے اور اس وقت بھی موبائل کو آنکھوں کے سامنے سے نہیں ہٹاتا۔ جب والدین کو محسوس ہوتا ہے کہ بچہ ہاتھ سے نکل رہا ہے اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ والدین سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ ابھی بچہ ہے یا یہ ابھی بچی ہے مگر بات بہت بڑھ چکی ہوتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم اسلام کی تعلیمات سے بہت دور ہو چکے ہیں۔ مولا امیر المومنین امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے اپنے بچوں کی تربیت کرو اس سے قبل کہ دنیا کا فاسد ترین ماحول ان پر اثر انداز ہو۔ اپنے بچوں کی تربیت اپنے حالات کے مطابق نہ کرو بلکہ آنے والے حالات کے مطابق کرو، کیونکہ انہیں ایسے زمانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے جو تم سے مختلف ہے۔ اسی امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: إِنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ كالْأَرْضِ الْخَالِيةِ مَا أُلْقِي فِيهَا مِنْ شَيءٍ قَبِلَتْهُ فَبَادَرْتُك بِالْأَدَبِ قَبْلَ أَنْ يَقْسُوَ قَلْبُك بےشک کم سن (بچے) کا دل اس خالی زمین کی مانند ہوتا ہے کہ جس میں جو بیج بھی ڈالا جائے وہ اسے قبول کر لیتی ہے، لہٰذا قبل اس کے کہ تمہارا دل سخت ہو جائے (اور تمہارا ذہن دوسری باتوں میں لگ جائے) میں نے تمہیں (تعلیم دینے اور) ادب سکھانے میں جلدی کی۔ نہج البلاغہ، الامام علی علیہ السلام، خط نمبر۳۱
میں بچیوں کے معاملات پر بہت کم لکھتا ہوں اور جب پورے واقعہ کا علم نہ ہو تو لکھنا علم و تحقیق کے خلاف ہے۔ اب یہ واقعہ معاشرے اور ہماری تہذیب کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بن گیا ہے۔ ابتدا میں اس کیس نے فرقہ واریت میں الجھی سوچ کو بے نقاب کیا جب مساجد میں صرف اس لیے دعا زہرا کی گمشدگی کا اعلان نہیں کیا گیا کیونکہ وہ شیعہ ہے۔ اس کے بعد میں سلام کرنا چاہوں گا دعا زہراء کے والدین کی اپنی بیٹی کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو۔ انہوں نے معاشرے کی رائج غلط اقدار پر کاری ضرب لگائی ہے۔ سب سے پہلے تو وہ بیٹی کے لیے نکلے اور پوری ریاست کو اس کی تلاش پر لگا دیا۔ دوسرا جب دعا کا بیان آ گیا کہ میں مرضی سے آئی ہوں تو بھی تین حرف بھیج کر خاموش نہیں ہوئے بلکہ اس بات کو سمجھا کہ بچی کو ٹریپ کیا گیا ہے اور پھر اس کے لیے آواز بلند کی۔ اس کیس نے ہمارے جوڈیشل اور لیگل سسٹم کو بری طرح سے بے نقاب کیا ہے۔ ججز کا کردار سب کے سامنے ہے ماں اور باپ عدالت میں چیخ و پکار کر رہے ہیں اور کوئی ان کی سننے والا نہیں ہے۔ جب ملاقات کے بعد بیان دوبارہ لینے کی بات کی جاتی ہے تو عدالت ضروری کام میں اپنی مشغولیت کا اعلان فرماتی ہے۔
یہ کیس اس لیے بھی مشکوک ہے کہ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کو نارمل انداز میں گاڑی پر لانے کا خرچہ بھی مدعیوں سے طلب کیا جاتا ہے اور یہاں سب بائی ائر سفر کر رہے ہیں۔ ایک سفید کپڑوں میں ملبوس شخص کا بچی کے والدین سے رویہ بھی قومی سطح پر ناپسندیدہ عمل کے طور پر دیکھا گیا۔ اب ایک آدمی کا بیان سامنے آیا ہے جس نے اس آدمی کو اپنی بیوی کے اغوا میں منفی کردار کے حوالے سے پہچانا ہے۔ نکاح نامہ، ب فارم اور پاسپورٹ تک چیخ چیخ کر دعا کی عمر بتا رہے ہیں ان ثبوتوں کے ہوتے ہوئے میڈیکل بورڈ کا قیام ہی غیر ضروری بلکہ ظلم تھا جسے تشکیل دیا گیا اور اس سے من پسند رپورٹ لی گئی۔ اگر عمر میں نادرا، پاسپورٹ اور دیگر قانونی اداروں کا ریکارڈ تسلیم نہیں کرنا تو اسے بند کر دیں۔ ہر کسی کی عمر کا فیصلہ کسی میڈیکل بورڈ سے ہی کروا لیں۔ دیکھیے جاگتے رہنا ہو گا ظالم پھندے پھیلائے بیٹھے ہیں جو معصوم بچیوں کو اپنے جال میں پھنسانا چاہتے ہیں۔ اکثر جگہوں پر محبت کے پردے میں چھپے یہ بھیڑیے معصوم کلیوں کو اپنی خواہشات کی آگ میں جلانا چاہتے ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کوئی بیس سال پہلے ایک ٹی وی پر گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والی بچی کا انٹرویو سنا تھا اس نے کہا تھا اگر کسی بچی کا باپ مجھے قتل کرنے کے لیے بندوق لے کر کھڑا ہو اور اس کی بیٹی مجھ سے پوچھے کہ میں عشق میں گھر سے بھاگوں یا نہ؟ تو میں اسے کہوں گی ایک لمحے کے لیے بھی باپ کا گھر نہ چھوڑنا نہ ادھر کی رہو گی اور نہ ادھر کی رہو گی زندگی جہنم بن جائے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں