القدس کا راستہ۔۔ ماسٹرمحمدفہیم امتیاز

طریقہ ایک تھا،طریقے دو ہیں اب!

ایک یہ کہ ہر حال میں دنیا سے ایک قدم آگے چلو،دنیا پر حکومت کرو،طاقت حاصل کرو کسی بھی طریقے سے۔سفارتی محاذ پر مضبوط ہوں ،عالمی تنظیموں کو مطمئن کریں،عالمی اتحادوں کا حصہ بن کر مفادات پر اکٹھے ہوں،معاشی اعتبار سے مضبوط ہوں بھلے سود بھلے حرام کے ۔دوسری  راہ،جدیدیت کی دوڑ میں سب سے آگے دوڑو۔

تو ایک امید تھی۔۔کہ ہاں اب تم اس دنیا میں عزت سے جی سکتے ہو،اب لوگ تمہاری تذلیل سے پہلے ٹھٹکیں گے،اب تم بھی حکمرانوں کی فہرست میں شمار ہونے لگو گے، تمہارے مقدسات کے حوالے سے عالمی قوانین حرکت میں آئیں گے، تمہارے بچوں بوڑھوں اور عورتوں پر بھی ظلم  کو دیکھا جائے گا۔

دوسرا راستہ تھا، دین کا،میرے رب کا، حق کا، دونوں جہانوں کا، دوسرا راستہ تھا اور ہے غیرت کا،حمیت کا،خودداری کا، یہ راستہ رہبانیت کا نہیں،یہ راستہ دنیا سے پیچھے رہ جانے کا نہیں،یہ راستہ قدامت پرستی کا نہیں۔یہ راستہ اس دین کا ہے جو آفاقی ہے جو عالمگیر ہے۔ اس راہ پر بھی ہم نے دنیا سے آگے رہنا تھا لیکن اپنے معیار پر اپنی ترجیحات پر۔یہاں بھی ہم طاقتور ہوتے لیکن رب تعالیٰ کے اس حکم کے تابع

وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ [سورۃالانفال:60] (اور ان کے لیے جتنی قوت ہوسکے تیار رکھو )
یہ راستہ تھا جہاں ہماری دوستی اللہ کے لیے ہوتی اور دشمنی اللہ کے لیے ،ہم رب تعالیٰ کی عطا  کردہ طاقت سے رب تعالیٰ کے دین کی مدد کرتے، اور رب تعالیٰ اپنا وعدہ پورا فرماتے ہمارے قدم جما دیتے کہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ[سورۃ محمد:7] (اے ایمان والو ! اگر تم اﷲ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا، اور تمہارے قدم جما دے گا)

یہ راستہ غیرت کا تھا،یہ راستہ ایمان کا تھا اور ہے۔یہ راستہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بتایا ہوا اور یہی راستہ دین اور دنیا دونوں میں کامرانی کا۔۔یہ راستہ جہاں امید نہیں یقین تھا اور یقین ہے کہ ہم ہی جیتتے ہم ہی حاکم ہوتے، ہم ہی سرخرو رہتے،لیکن   اگر یہ راستہ اختیار کرتے تو ہی۔۔اگر ہم مومن ہوتے تو ہی۔۔۔ کہ رب تعالیٰ جھوٹ نہیں فرماتے۔۔۔۔

وَلَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ [سورۃ آل عمران:139] (دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو)

رب تعالیٰ نے شبہ نہیں چھوڑا،ابہام نہیں رکھا
رب تعالیٰ نے شرط بتا دی کہ۔۔۔
اِنۡ کُنۡتُمۡ (اگر تم ہو) “اگر تم ہو”
if you are
یہاں پر ایک بہت بڑا اور بولڈ if ہے ۔۔!!
کہ اگر تم ہوئے،مومن،ایمان والے،غیرت والے،عقل والے اگر تم چاہتے ہوئے جیتنا،حاکم بننا،غالب آنا۔۔۔

تو یعنی راستہ تو یہی ہوا پھر۔۔یہ ایک ہی ہوا ۔۔۔

آپ کہیں گے آغاز میں دو کیوں لکھے اور پہلا کیوں بیان کیا۔۔۔ کیونکہ،وہ راستہ ہم نے بنایا،ہمیں نے اپنایا۔۔ لیکن وہ نہیں تھا۔اس رسی کو چھوڑ کر،رب تعالیٰ سے منہ موڑ کر،رب تعالیٰ کی اس واضح کھلی دو ٹوک شرط کو پس پشت ڈال کر کوئی راستہ نہیں تھا۔۔۔ لیکن ہم نے سمجھا ہم کوئی بہت بڑی چیز ہیں، کوئی بہت حکیم ہیں۔
لیکن ہوا کیا۔۔۔؟
کوّا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا۔۔
ہم نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔۔۔۔
ہم ذلیل ہوئے اور رج کے ہوئے۔۔اور یقین مانیے ہوتے ہی رہیں گے جب تک اس رسی کو نہیں تھامتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یقین مانیے یہ دنیا ہنستی ہے ہمارے نعروں پر۔۔ہماری جذباتیت پر،ہمارے دعوؤں پر ،کبھی کشمیر  کے لیے ،کبھی فلسطین کے لیے ،کہیں گستاخیوں کے خلاف تو کہیں القدس کے حق میں۔۔۔لیکن چشم تصور سے دیکھیے کہ اس رسی کو چھوڑ کر ہمارے یہ سارے نعرے یہ دعوے یہ چیخ و پکار یہ سب ایسے ہی ہے جیسے جنگل میں بھگدڑ مچی ہو، بڑے بڑے جانور دوڑ رہے ہوں گھمسان ڈالے ہوئے ہوں اوران کے پاؤں میں کوئی چیاوں چیاوں کی آوازیں نکالتا،گرتا پڑتا،پتھروں کی آڑ میں چھپتا چھپاتا چ پِھر  رہا ہو۔۔۔ہاں بالکل اس راستے کے بعد ہماری حالت کسی زخم کھائے ہوئے پِلے سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔جو اچھلتے اچھلتے اپنی ہی دم کو آگ لگا لیتا ہے۔ جو اپنے سروائیول کے لیے بھی سوائے چیخنے چلانے کے کوئی سکت نہیں رکھتا۔

Facebook Comments