یہ جہاں والے/ہیلو فرینڈز۔۔۔شکور پٹھان

پیلی ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس یہ لڑکی شاید سترہ یا اٹھارہ برس کی ہو لیکن قریب سے دیکھنے پر یہ صرف 13،14 سال کی نظر آتی ہے یعنی میری نواسی سے چار سال بڑی۔
اس کے چہرے پر نوخیز بچیوں کی سی معصومیت ہے۔ وہ عمر جس میں ہماری بچیاں اب گڑیا گڈے کے کھیل تو نہیں کھیلتیں لیکن آنکھوں میں بہت سے خواب سجائے ، بے فکری کے دن گذارتی ہیں۔ ان کی توجہ پڑھائی، نت نئے کپڑوں اور سہیلیوں پر رہتی ہے۔ یہ وہ دن ہوتے ہیں جب یہ ماں باپ کی آنکھ کا تارا ہوتی ہیں، بڑھتی جوانی کے ساتھ مائیں ان کے جیون ساتھی کی کھوج میں لگ جاتی ہیں.

میری رہائشگاہ کے خارجی حصے کے ساتھ ایک چائے خانہ ہے۔ میرا گھر دوبئی اور شارجہ کے عین سنگم پر ہے اور یوں سمجھیے یہاں شارجہ ختم ہوتا ہے۔ موٹر سوار یہاں رک کر اس چائے خانے سے چائے لیتے ہیں اور پھر یہاں سے اپنا دوبئی، جبل علی یا ابوظہی  کا سفر شروع کرتے ہیں۔

یہ بچی ان موٹر سواروں کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہے۔ جیسے ہی کوئی کار رکتی ہے یہ چائے یا کافی کی ٹرے لیکر پہنچ جاتی ہے۔ صبح کے وقت یہ مستقل سڑک کنارے کھڑی رہتی ہے کہ گاڑیوں کا تانتا بندھا ہوتا ہے۔ شام کو البتہ اکا دکا گاڑی سوار ہی چائے کے لئے رکتا ہے۔ تب یہ بچی اسٹول پر بیٹھی گاہکوں کا انتظار کرتی رہتی ہے یا موبائل فون پر اپنی سکھیوں سے بات کررہی ہوتی ہے جو کہیں اور کام کررہی ہوتی ہیں یا کام سے فارغ ہوکر گھر یا کسی شاپنگ مال یا کافی شاپ میں بیٹھی ہوتی ہے۔

اس بچی کو دیکھ کر میرا دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میری نواسی اپنا اسکول ، کھیل کود اور سکھیاں سہیلیاں چھوڑ کر یہاں مشقت کررہی ہے۔ جن باتوں پر ہم جی جلاتے اور روتے کڑھتے ہیں ۔ لیکن یہ بچی شاید اس طرح کی سوچوں اور جذبات سے آزاد ہے۔ یہ یہاں سارادن محنت کرے گی اور چھٹی کے بعد خوش باش اپنے دوستوں کے ساتھ ناچ گا رہی ہوگی۔

یہ بچی ایک بڑی عجیب قوم سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک ایسی قوم جو عرب امارات کے ہر کونے ہر گوشے میں نظر آتی ہے اور اب تو شاید دوبئی کی آبادی کا بائیس فیصد ہے لیکن ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ہمارے درمیان رہتے ہیں۔ جی ہاں، ہم پاکستانی اور بھارتی جس زور وشور کے ساتھ یہاں رہتے ہیں، یہ ‘ فلپائنی’ یہاں ہر جگہ ہوتے ہوئے بھی انہیں کوئی محسوس نہیں کرتا۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ ہیں، نہ کسی قسم کی شکایتیں یا مطالبے کرتے ہیں ، بس خوش رہتے ہیں۔
ان تارک وطن فلپائنیوں کی پچانوے فیصد تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اکثر بچیاں اور لڑکے تعلیم مکمل کرتے ہی کام شروع کردیتے ہیں۔ بلکہ فلپائنی مرد کام کرتے ہوئے کم نظر آتے ہیں ۔ یہ فلپائنی لڑکیاں ہیں جو یہاں کے ہوٹلوں، ریستورانوں، ہسپتالوں،،سرکاری اور غیرسرکاری دفتروں ، سپر مارکیٹ ، شاپنگ مالز اور پٹرول پمپ پر کام کرتی نظر آئیں گی۔
وہ صنعتیں یا کاروبار جہاں مہمان نوازی اوّل درجہ کی خصوصیت جانی جاتی ہے جیسے ہسپتال اور ہوٹل انڈسٹری ، یہاں سب سے زیادہ خوش اخلاق، ہنس مکھ، محنتی اور پرامن قوم ان فلپائنیوں سے زیادہ کوئی نہیں۔
یہ فلپائنی ہنرمند، کاریگر، مزدور اور محنت کش اپنے ملک کی سب سے بڑی دولت ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کا سب سے بڑا ستون وہ غیرملکی پاکستانی ہیں جو بیرون ملک محنت کرکے ملک کے لئے زرمبادلہ کماتے ہیں۔ لیکن پاکستانیوں کی ملازمت پیشہ خواتین آٹے میں نمک برابر بھی نہیں۔ بلکہ جو پاکستانی یہاں بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں وہ اپنی تقریباً تمام کمائی یہیں خرچ کردیتے ہیں۔ لیکن یہ فلپائنی زیادہ تر ان جھنجھٹوں سے آزاد رہتے ہیں۔ فلپائنی خاندان بہت کم نظر آئیں گے البتہ چھڑے چھانٹ اور کنوارے ‘ فلپینو ‘ خوب کماتے ہیں، اچھا کھاتے پیتے ہیں، ڈیزائنر کپڑے اور جوتے پہنتے ہیں اور بےتحاشہ پیسہ اپنے ملک بھیجتے ہیں۔

فلپائنی زیادہ تر کنسٹرکشن، آئی ٹی، مارکیٹنگ، ریئل اسٹیٹ، ڈیزائن انجینئر، انٹیرئیر ڈآئزایننگ، سیاحت میں نظر آتے ہیں لیکن دو شعبے ایسے ہیں جہاں تقریباً ان کی حکومت ہے ۔ ایک گھریلو ملازمت ( ڈومیسٹک ہیلپ) دوسرے Hospitality Industry یعنی استقبالیہ کلرک، ویٹر، نرس اور سیاحتی میزبان وغیرہ۔
اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا ہر وقت ہنسنا مسکرانا اور خوش رہنا ہے۔ آپ پٹرول پمپ سے متصل اسٹورز، دکان یا ریستوران میں چلے جائیں، آپ کے کانوں میں ، ” ہیلو سر” ہیلو فرینڈ” ہائے مادام، ، ہاؤ آر یو، میں آپ کی کیا مدد کرسکتی ہوں، ، کیا میں آپ کے لئے کچھ کرسکتی ہوں ، قسم کے جملے آپ کے کانوں میں رس گھول رہے ہونگے۔

درمیانے سے بھی چھوٹے قد، سفید رنگت، چپٹی ناکوں والے فلپینوز، جو کام کرتے ہیں جی جان سے کرتے ہیں۔ بلکہ اس کام کو مشقت نہیں مشغلہ سمجھ کر ہنسی خوشی اور مزے لیتے ہوئے کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مقامی تاجر اور دکاندار ہوں یا ہندوستانی یا پاکستانی ، ان فلپینوز کو ہر کوئی بخوشی اپنے یہاں ملازمت دیتا ہے۔ اکثر پاکستانی اور بھارتی ریستوران اور کافی شاپ میں یہ فلپائنی لڑکیاں ( فلیپیناز) کام کرتی نظر آئیں گی۔ یہ نہ مالکوں سے لڑتے جھگڑتے ہیں نہ بے جا مطالبے کرتے ہیں۔ کام پسند نہ آئے تو اس کام کو چھوڑ کر کہیں اور ملازمت کرلیتے ہیں۔

یہ فلپائنی بڑے خوش باش، مست مولا اور اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں۔ انہیں آپ کبھی کسی لڑائی جھگڑے میں نہیں دیکھیں گے نہ یہ کبھی کسی سے الجھتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ہمارے ہاں ایک لفظ جو بڑی شد و مد سے بولا جاتا ہے یعنی ” غیرت’ ، یہ فلپائنی شاید اس کا نام بھی نہ جانتے ہوں۔ ہم غیرتاں دے راکھے، جو غیرت کے نام پر جان لینے اور جان دینے پر تلے نظر آتے ہیں، نجانے کس چیز کو غیرت کہتے ہیں۔ امارات میں ہر پانچ میں سے ساڑھے چار ،مانگنے، ہاتھ پھیلانے والے ، ہم غیرتمند اور خوددار پاکستانی ہوتے ہیں۔ جبکہ ہمارے حسابوں اپنی بیویوں سے کام کروانے والے یہ بے غیرت فلپائنی آپ کو پورے خلیج اور سعودی عرب میں کہیں بھی ہاتھ پھیلائے نہیں ملیں گے۔

ان کی اپنی ایک دنیا ہے، مرد ہو یا عورت عموماً برانڈڈ کپڑوں میں نظر آئیں گے۔ ٹی شرٹ، جینز، جوگرز، سن گلاسز یہ تقریباً ہر فلپینو کا لباس ہوگا، شام کو کسی مال، ریسٹورانٹ یا کافی شاپ یا نائٹ کلب میں ہنستے بولتے ، ناچتے گاتے ملیں گے۔
یہ موسیقی اور رقص وسرود کے رسیا ہیں۔ اکثر کلبوں میں فلپائنی لڑکیاں گلوکاری کے جوہر دکھا رہی ہونگی یا فلپائنی بینڈ حاضرین کو مسحور کئے ہوگا۔ لیکن یہ گوروں اور امریکیوں کی طرح نرے دنیا پرست نہیں ہوتے۔ فلپائنی شدید مذہبی لوگ ہوتے ہیں اور شاید ایشیا کا واحد ملک ہے جس کا مذہب عیسائیت ہے۔ یہ بڑے خدا ترس اور خدا سے ڈرنے والے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات میں اسلام قبول کرنے والوں میں شائد سب سے بڑی تعداد ان فلپائنیوں کی ہے۔ فلپائن میں بھی مسلمانوں کی خاصی تعداد آباد ہے۔

ان کی پہچان محنت، لگن اور کام سے محبت ہے۔ یہ ہر ماحول میں کھپ جاتے ہیں اور ہر ایک کے ساتھ ہنس بول کر کام کرتے رہتے ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی قوم، زبان ، ملک یا مذہب سے ہو، ۔ یہ کبھی اپنے ساتھی ملازمین کے ساتھ مذہبی یا سیاسی بحث میں نہیں الجھتے۔ نہ دوسروں کا مذاق اڑائیں گے۔ ہاں ہم پاکستانی، ہندوستانی جی بھر کے ان کا مذاق بناتے ہیں۔
کسٹمر سروس اور Hospitality Industry میں یہ ہر آجر کی پہلی ترجیح ہوتے ہیں اس کی ایک وجہ تو ان کی فطری ہنس مکھ اور خوش خصال طبیعت ہے، دوسرے یہ کہ یہ اپنے کام کو اچھی طرح جانتے ہیں اور کام جلد سیکھ بھی جاتے ہیں۔۔ یہ سارے پڑھے لکھے ہوتے ہیں ، ان سے گفتگو کرنا ہر ایک کے لئے آسان ہوتا ہے، چہرے پر نرمی اور حرکات میں چستی ہوتی ہے۔ اور گاہک ان کی خدمات سے مطمئن رہتے ہیں۔

فلپائن کئی جزائر پر مشتمل ہے جو اکثر طوفانوں اور آتش فشاں کی زد میں رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سخت جان لوگ ہر طرح کی آزمائش پیشانی پر بل لائے بغیر جھیل جاتے ہیں۔
ان کے ہاں خاندانی روایات کی قدر ہوتی ہے، جیسا میں نے کہا بے حد مذہب پرست ہونے کے ساتھ بہت با ادب لوگ ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی مدد کرنا ان کا قومی شعار ہے۔ صدر مارکوس کے زمانے میں ایک قومی نعرہ رائج کیا گیا تھا ISANG BANSA, ISANG DIWA..یعنی۔۔.ایک قوم ایک جذبہ ۔۔بہت پہلے میں فلیپیناز کی ٹی شرٹوں پر یہ نعرہ چھپا دیکھتا تھا۔ مارکوس ایک ڈکٹیٹر تھا۔ ایک عوامی جدوجہد کے نتیجے میں اسی ہٹا دیا گیا۔ میں نے اپنے ایک فلپینو دوست سے پوچھا کہ اب وہ نعرہ تمہارے پیرہنوں پر نظر نہیں آتا۔ اس نے کہا اب یہ نعرہ نہیں رہا، اب یہ ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے، ہم ایک قوم ہے۔

ہم پاکستانی یہاں امارات میں تو کیا، دنیا بھر میں ہر جگہ سیاسی اور مسلکی بحثوں میں الجھے نظر آئیں گے۔ ہندوستانی بھی ہم سے کم نہیں، بلکہ کچھ آگے ہی ہیں۔ لیکن یہ فلپائنی کبھی ایسے جھگڑوں میں نظر نہیں آئیں گے۔ ان کی ساری گفتگو شام کی پارٹی، کھانے یا کسی نئی فلم یا نئے کانسرٹ یا باسکٹ بال میچ وغیرہ کے بارے میں ہوتی ہے،
ہلّا گُلّا اور پارٹی بازی کے شوقین یہ فلپینوز اور فلیپیناز اکثر ایک سے زیادہ شوق یا مشغلہ ضرور رکھتے ہیں۔ ان میں سے اکثر بہترین گلوکار ہوتے ہیں۔ کوئی رقص کا ماہر ہوگا، تو کسی کو موسیقی کے کسی ساز پر دسترس ہوگی، تو کوئی مصوری یا فوٹوگرافی کا شوقین ہوگا۔

میرے گھر کے نیچے جس چائے خانے یا کیفےٹیریا کا میں نے ذکر کیا، جمعہ کی صبح یہ فلپینو سائیکلسٹوں سے بھرا ہوتا ہے۔ تقریباً دو درجن کے قریب سائکلسٹ یہاں جمع ہوتے ہیں ، انڈا پراٹھا اور چائے کا ناشتہ کرتے ہیں پھر اپنی سائکلوں پر سوار میرے گھر کے عقب میں بہتے سمندر کے ساتھ چلنے والی سڑک پر دوڑ لگاتے ہیں۔ کچھ دیر بعد سڑک کے اس پار والے پارک کے باسکٹ بال کورٹ سے کھیل سے فارغ ہوکر فلپینوز کی دوسری ٹولی اس کیفے ٹیریا میں ناشتہ اڑا رہی ہوتی ہے۔ اکثر کے ساتھ ان کی گرل فرینڈز بھی ہوتی ہیں۔ دوپہر کو ان کی اکثریت چرچ میں نظر آتی ہےاور شام کو یہ سب کسی ڈسکو یا ہوٹل میں ایک دوسرے کی باہوں میں باہیں ڈالے محو رقص ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جینے کے مختلف ڈھنگ ہوتے ہیں۔ ان فلپائنیوں کا بھی زندگی گذارنے کا ایک انداز ہے۔ اب یہ اچھا ہے برا اس کا فیصلہ میں تو نہیں کرسکتا۔۔
بہرحال یہ بھی اس دنیا کے لوگ ہیں۔ یہ ہمارے درمیان رہتے ہوئے بھی اجنبی ہیں۔ لیکن دوبئی اور امارات کی نیک نام قوموں میں ان کا بھی شمار ہوتا ہے۔۔۔ شاید ہمارے لئے دو یا ایک سبق ان سے بھی مل جائیں۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply