ایران کی دانشگاہ باقر العلوم کے استاد ڈاکٹر محمد مہدی گرجیان کے مقالے ”انعکاسِ فلسفۂ فلوطین در حکمتِ صدر المتالہین“ میں مُلا صدرا کے فلسفے پر فلوطین کے خیالات کے گہرے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہاں اختصار کے پیشِ نظر اس کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ چند جاہلانہ توہمات ہیں جو جدید علوم میں رَد ہو چکی ہیں اور ان کا رٹا لگا کر خود کو عقلمند سمجھنا درست نہیں ہے۔
فلوطین کا زندگی نامہ
فلوطین یا Plotinus، مصر میں سن 205ء میں پیدا ہوا۔ اسے نوفلاطونی مکتبِ فکر کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ وہ فلسفہ جو اس نے اپنے استاد آمونیس ساکاس سے سیکھا اور شاگرد کو سکھایا، نوفلاطونی فلسفہ کہلایا۔ نوفلاطونی فلسفی عقل کے ساتھ ساتھ شہود، جذب اور وجد کو حکمت کے حصول کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اسی جداگانہ نوفلاطونی مشرب کی وجہ سے بعض اسے ایک الٰہیات دان قرار دینے کے بجائے ایک صوفی مفکر سمجھتے ہیں۔ اس کے مطابق فلسفے کا راستہ اندرونی شہود اور خالص مفاہیم پر مبنی جدلیاتی طرزِ فکر کے ساتھ ساتھ روح کو پاک صاف کرنے سے طے ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کے نزدیک فلسفے کا معنی اور مقصد ہستی اور کائنات کو جاننا نہیں بلکہ معرفت اور تزکیہ کی مدد سے روح کو خدا تک پہنچانا ہے۔ وہ واضح انداز میں صوفیوں کی روحانی واردات کو حقیقی فلسفی کے فضل و کمال کی انتہاء سمجھتا ہے اور تعقل کو فلسفے کا مقصد نہیں سمجھتا۔ (تاریخِ فلسفۂ غرب، ج 1، ص 543)
فلسفۂ فلوطین کی تاثیر اور تاثرات
محققین نے فلوطین کو ان معنوں میں التقاطی حکماء میں شمار کیا ہے کہ اس نے افلاطون، ارسطو، رواقیوں اور عرفاء کے نظریات کو اپنی آراء میں جمع کر دیا ہے۔ (سیر حکمت در اروپا، ص 72) پچھلوں کا اثر قبول کرنے کے علاوہ اس نے اپنے بعد والوں پر گہرے اثرات بھی مرتب کیے ، اور مسیحی فلسفہ اور مسلم فلسفہ، ہر دو فلوطین کے عرفانی نظریات اور فلسفی قواعد پر قائم ہوئے۔ مسلم فلسفے کے تینوں مکاتب، مشائی، اشراقی اور حکمتِ متعالیہ اپنے اپنے انداز میں فلوطین کے دسترخوان کے ٹکڑوں پر پلے ہیں۔
مسلمانوں کا فلوطین کی سوچ سے متعارف ہونے کا آغاز ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی کے زمانے میں یونانی فلسفے کے عربی ترجمے کے دوران ہوا۔ اس تعارف کی تاریخ میں قابلِ توجہ واقعہ وہ غلط فہمی ہے جو فلوطین کی کتاب اثولوجیا کے بارے میں پیدا ہوئی۔ یہ کتاب معرفۃ الربوبیہ، الٰہیات اور فلسفۂ اولیٰ کے عنوانات سے ترجمہ ہوئی اور اسے ارسطو کی کتاب پر پورفائری (متوفیٰ 305ء) کی شرح سمجھا گیا۔ یہ پہلی بار مسیحی مترجم عبدالمسیح ابنِ ناعمہ نے یعقوب الکندی کیلئے سریانی سے عربی زبان میں ترجمہ کر کے ارسطو سے منسوب کی۔ جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اثولوجیا فلوطین کی کتاب تاسوعات کا تیسرا حصہ ہے۔ (فلسفۂ فلوطین، ص 46) ابنِ سینا نے ارسطو اور فلوطین کی آراء کو ملانے کی کوشش کی، کیونکہ وہ اثولوجیا کو ارسطو کی کتاب سمجھتا تھا۔ چنانچہ اس کی الہیات اور نظریۂ فیض پر اس کوشش کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ (سیرِ حکمت در اروپا، ص 73) شیخ اشراق نے بھی اس سے الہام لیا ہے۔
مُلا صدرا اثولوجیا کے مصنف کو عارفِ الٰہی، بلند معنوی مقامات پر پہنچا ہوا اور کشف و شہود اور علمِ حضوری سے بہرہ مند سمجھتا ہے۔ (اسفار اربعہ، ج 1، ص 6؛ ج 9، ص 109 تا 111) ملا صدرا اپنے کئی خیالات کو اثولوجیا سے ماخوذ قرار دیتا ہے۔ مثلاً: تجلی اور فیض و ظہور کا نظریہ کہ جس کے مطابق ممکنات حق کی تجلی کے آئینے ہیں اور حق ظہورِ واحد رکھتا ہے جو کہ واجب الوجود کا تعینات کے قالب میں نزول ہونا ہے (اسفار اربعہ، ج 2، ص 357)، حرکتِ جوہری (اسفار اربعہ، ج 3، ص 111)، عالمِ عقل کی صفات اور عالمِ اعلیٰ کا زندہ اور تام ہونا (اسفار اربعہ، ج 3، ص 340)، اتحادِ عقل و عاقل و معقول (اسفار اربعہ، ج 3، ص 427)، رابطۂ صَنم و مُثل (اسفار اربعہ، ج 6، ص 277)، ہر شے کی صفات کا عقل میں پایا جانا (اسفار اربعہ، ج 6، ص 281)، قاعدۂ بسیط الحقیقۃ کل الاشیاء (اسفار اربعہ، ج 7، ص 33)، دنیا کا ہیولا اور صورت سے ترکیب پانا (اسفار اربعہ، ج 7، ص 147)، قاعدۂ امکانِ اشرف (اسفار اربعہ، ج 7، ص 244)، قاعدۂ امکانِ اخس (اسفار اربعہ، ج 7، ص 258)، قاعدۂ الواحد لا یصدر منہ الا الواحد (اسفار اربعہ، ج 7، ص 273)، واحد سے چیزوں کا صادر ہونا (اسفار اربعہ، ج 6، ص 278؛ ج 7، ص 272)، وغیرہ وغیرہ۔
فلوطین کے ہاں وجود کا کلی تصور
فلوطین وجود کے مراتب کا قائل ہے۔ وجود کی تشکیک اور اس کے مراتب کی بات افلاطون کے کائنات کو دو حصوں، معقول دنیا اور محسوس دنیا، میں تقسیم کرنے کا تسلسل ہے جس کو فلوطین نے مزید تقسیم سے دوچار کیا ہے۔ فلوطین عالمِ معقول اور عالمِ محسوس کے بیچ روح نام کے ایک واسطے کا قائل ہوا اور پھر اس نے روح اور مادے کے بیچ طبیعت نام کے ایک اور مرتبے کو تصور کیا۔ اس نے عالمِ محسوس میں بھی تشکیک کا مفروضہ پیش کیا اور وہ یوں کہ صورتوں کو مادے سے بالا تر مرتبہ قرار دیا۔
عقل، نفس، طبیعت اور مادہ کے علاوہ فلوطین واحد کا بھی قائل ہے جو وجود سے بالاتر ہے۔ لہٰذا اسے مراتبِ وجود میں شمار نہیں کرتا، بلکہ فوقِ وجود سمجھتا ہے۔ اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ فلوطین کے فلسفی نظام کی بنیاد پانچ تصورات ہیں: واحد، عقل، روح، طبیعت اور مادہ۔ (Encyclopedia • of • Philosophy, p. 457)
وہ واحد، عقل اور نفس کو اقانیمِ ثلاثہ قرار دیتا ہے۔ اقنوم، کہ جسے کبھی جوہر اور کبھی اصل کہتا ہے، ایسا جوہر ہے کہ اپنی خصوصیات کا ذاتی طور پر مالک ہے۔ ہر اقنوم کی صفات ذاتی اور لایعلل ہیں اور ان کے بارے چون و چرا کرنا ممنوع ہے۔ عالمِ محسوسات اصل اور اقنوم نہیں ہے، اگرچہ وہ مراتبِ وجود میں سے ہے لیکن حقیقی وجود نہیں بلکہ ظاہری وجود ہے۔
وحدت الوجود اور اقانیم میں رابطے کا مسئلہ
فلوطین کے ہاں اقانیم کی تثلیث اور مراتبِ وجود میں جو کثرت ہے وہ کثرتِ محض نہیں بلکہ ایک گونہ وحدت ان سب پر مسلط ہے۔ اس وحدت کا راز اقانیم کے درمیان تعلق میں پوشیدہ ہے۔ اس تعلق میں پہلی بات مسئلہء فیض ہے۔ واحد سرچشمۂ فیض ہے جس سے عقل کا اقنوم پیدا ہوتا ہے۔ اس سے وجود، حیات، علم اور کثرتِ معقولات کا ظہور ہوتا ہے۔ عقل سے روح کا اقنوم جنم لیتا ہے۔ عالمِ محسوس روحِ کلی کا ایک پرتو ہے اور جزئی ارواح اس کے وجود کے پرتو ہیں۔ پس واحد سے جتنا دور ہوں وحدت کم اور کثرت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ (درآمدی بر فلسفۂ فلوطین، ص 14)
فلوطین کی فکر میں اتحادِ اقانیم کا مسئلہ اور فیض و مستفیض کے آپس میں جدا ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی حقیقت بھی ہونا، وحدت در کثرت اور کثرت در وحدت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ہر قسم کے نظریۂ وحدت الوجود کی بنیاد ہے۔ کئی محققین فلوطین کو وحدت الوجود کا ماننے والا سمجھتے ہیں، ان معنوں میں کہ وہ حقیقت کو واحد سمجھتا ہے اور واحدیت کو ہستی کا اصل اور منشاء سمجھتا ہے اور سب موجودات کو مبداءِ اول کا فیضان سمجھتا ہے اور وجود کا ہدف اسی مبداء کی طرف پلٹ جانا قرار دیتا ہے۔ اس بنا پر سب موجودات حقیقتِ واحد کا پرتو ہیں اور قوسِ نزول و صعود میں وہی انکا مبداء بھی ہے اور غایت بھی ہے۔ (سیرِ حکمت در اروپا، ص 67)
اقنومِ دوم، یعنی عقل، کے معاملے میں فلوطین افلاطون کے نظریۂ مُثُل سے بہت متاثر ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہر موجود، چاہے نظر آ سکے یا نہ آ سکے، ایک اور دنیا بنام عالمِ معقول میں ایک اصلی صورت اور حقیقت رکھتا ہے۔ جہانِ محسوس کے سبھی موجودات اس دوسری دنیا میں آئیڈیاز یا معقول کے ذرات کی شکل میں وجود رکھتے ہیں۔ عقلِ کلی احد سے بلاواسطہ پیدا ہوا اور وہ معقولات کی صورتوں اور مُثُل کے پائے جانے کی جگہ ہے کہ جو اس کے ساتھ متحد ہیں اور حقیقت میں عقلِ کلی کی خود شناسی میں شامل ہیں۔ عقل احد کی تصویر ہے۔ وہ وجود کا پہلا مرحلہ، بلکہ خودِ وجود ہے۔ عقل کی حقیقت وجود کے سوا کچھ نہیں۔ عالمِ معقول میں کوئی حجاب اور ظلمت نہیں ہے۔ معقول کی دنیا میں ہر موجود اگرچہ خاص ہے، لیکن کلِ موجودات بھی ہے۔ (اثولوجیا، ص 282، 665، 761)
اقنومِ سوم، یعنی روح، کو عالمِ بالا سے تعلق رکھنے والا امرِ مجرد سمجھتا ہے جو جسمانی ڈھانچے سے تعلق جوڑنے سے قبل وجود رکھتی تھی۔ پھر وہ اس عالم کی طرف آئی۔ وہ روح کو بسیط سمجھتا ہے اور اس کے مطابق روح نا قابلِ تقسیم ہونے اور مادے سے تجرد کی وجہ سے دوسری اشیاء کا اثر قبول نہیں کرتی۔ وہ روح کو مسافر سمجھتا ہے جو اپنے مبداء سے جدا ہو چکی ہے اور ایک الگ دنیا میں آ کر پست ترین مقام پر پھنس چکی ہے اور اب اسے اس راستے پر واپس جانا ہے۔ چونکہ وجود کے مراتب باہم پیوست ہیں، اسلئے روح کا واپس جانا ممکن ہے۔ فلوطین کے مطابق تینوں اقنوم، واحد، عقل اور روح، خارج کے علاوہ انسان کے اندر بھی موجود ہیں لیکن اکثر انسان ان سے آگاہ نہیں ہیں۔ یہ چیز روح کے عالم بالا کی طرف پرواز کرنے اور واحد میں ضم ہو جانے کو ممکن بناتی ہے۔
سیر و سلوک کا پہلا مرحلہ جسم کے تسلط سے رہائی ہے۔ دوسرے مرحلے میں فلسفہ سیکھ کر روح کو عالمِ معقول میں پہنچانا ہے۔ تیسرے مرحلے میں روح عقل سے آگے جا کر شہود تک پہنچ جاتی ہے۔ چوتھا سفر واحد سے وصال ہے۔ یہ وجد اور بے خودی کی حالت ہے۔ روح یہاں خود نہیں رہتی، فنا ہو کر خدا ہو جاتی ہے۔ فلوطین روح کے معدوم ہونے کو محال سمجھتا ہے اور بری ارواح کے تناسخ کا قائل ہے۔ جو تزکیہ نہ کریں وہ بدن کی موت کے بعد جانور اور حشرات بن جاتے ہیں۔
فلوطین کے نزدیک مادہ واحد سے صادر ہونے والی آخری چیز ہے۔ البتہ چونکہ یہ کائنات کے سب سے نچلے مرتبے کو تشکیل دیتا ہے، اسے ظلمتِ محض نہیں کہا جا سکتا۔ مادہ محض صلاحیت (قوہ) ہے۔ مادہ شر کی جڑ ہے۔ فلوطین عالمِ مادہ کو حادث نہیں، بلکہ قدیم سمجھتا ہے۔
منابع
1۔ کاپلستون، تاریخ فلسفۂ غرب، ترجمہ: سید جلال الدین مینوی، انتشارات سروش، تہران، 1367 شمسی۔
2۔ محمد علی فروغی، سیر حکمت در اروپا، نشر البرز، تہران، 1377 شمسی۔
3۔ غلام رضا رحمانی، فلسفۂ فلوطین، بوستان کتاب، قم، 1390 شمسی۔
4۔ ملا صدرا، اسفار اربعہ، الحکمۃ المتعالیۃ فی الاسفار العقلیۃ الاربعہ، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1981ء۔
5۔ نصر اللہ پور جوادی، درآمدی بر فلسفۂ فلوطین، انجمن فلسفہ ایران، تہران، 1357 ش۔
6۔ فلوطین، اثولوجیا، مترجم عربی: ابن ناعمہ حمصی، مترجم و شارح فارسی: حسن ملک شاہی، انتشارات سروش، تہران، 1378 شمسی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں