قصہ ایک رات کا–ڈینیل ووڈ رِل

پیل ہام ایک رات پہنچا تو اپنے پلنگ کے برابر ایک ننگ دھڑنگ آدمی کوغراتے پایا۔ کمرے میں روشنی کم تھی لیکن اس کی آنکھوں نے پھر بھی کاندھے سے کلائی تک اس آدمی کا ایک بازو، کسی جلتی شے کا گوندا ہوا نشان، ذرا سے باہر کو ابھرے دانتوں کی سرسری جھلک اور تنے ہوئے ہونٹ دیکھ لئے۔غراہٹ ، دہشت ناک اور کھوئی کھوئی تھی، فلک شگاف، گہری سفاکیت لئے، مسلسل بڑھتی ہوئی چلانے کی آواز، جس کے درمیان میں کبھی کبھار ایک کٹیلی تھرتھراہٹ سی اٹھتی ، ایک صوتی کچومر کانوں کے پردوں سے ٹکرا رہا تھا۔جِل کی آنکھ بھی کھل گئی ، اُس آدمی کو دیکھتے ہی وہ لڑکھتی ہوئی پلنگ سے اتری اور خوف سے چیختی ہوئے دوسرے کمرے کی طرف بھاگی۔ پیل ہام نے تپائی پر دھرا لیمپ روشن کرنے کے لئے ہاتھ بڑھایا لیکن اس کی انگلیاں کسی پلیٹ سے جا ٹکرائیں جسے وہاں نہیں ہونا چاہئے تھا، پلیٹ پر ایک چھری موجود تھی۔ اجنبی اب بھی پلنگ کی پائیتی کے ساتھ کھڑا تھا،گھر کے اندر موجود وہ دراز قد، شور مچاتا، ڈراتا دھمکاتا سایہ، جس سے پیل ہام نے جم کر لڑنا تھا، جو بھی بن پڑے کرنا تھا، وقت حاصل کرنا تھا، تاکہ جِل کو بھاگ کر کہیں چھپنے کا وقت مل جائے، کیوں کہ وہ یقیناً اسی کے پیچھے تھا۔۔۔ورنہ وہ برہنہ کیوں ہوتا؟ لیکن اس آدمی نے جِل کے تعاقب کی کوئی کوشش نہ کی ،نہ توپیل ہام پر اس طرح جھپٹا یا حملہ آور ہوا جیسا گمان تھا، نہ ہی اسے اپنے قابو میں لے کر مار پیٹ کی کوئی کوشش کی، بلکہ اسی طرح بازو لٹکائے ، ہاتھ نیچے گرائے، غراتا رہا۔ اسی اثناء میں پیل ہام چھری لئے اس کی جانب بڑھا اور تیز ددھار فولاد اس کے سینے میں اتار دیا۔اجنبی کی پسلیاں تڑکنے کی آواز آئی تو پیل ہام جوابی حملے کے لئے تیار ہو گیا، شاید پستول کی گولی کے لئے، لیکن اس آدمی کا نشانہ خطا گیا، بہت قریب سے گزرا لیکن خطا گیا، اور اب پیل ہام نے فوراً ایک اور وار کیا تو یوں ٹن کی آواز آئی جیسے کسی کیل پر ہتھوڑا جا لگے، پسلیوں میں چھری لٹکی رہ گئی۔ جوں جوں پیل ہام چھری کو گھما رہا تھا ،غراہٹ کی آوازیں دھیمی اور کمزور ہوتی جا رہی تھیں، پھر اس شخص کے بازو پیل ہام کے اوپر جا گرے، نم آلود ہتھیلیاں پیل ہام کےکاندھے یوں تھامے تھیں جیسے اسے سہارا دے رہی ہوں، سیدھا کھڑا رکھ رہی ہوں، گرنے سے روکے ہوں۔ سینے کے زخم سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا اور پیل ہام کے پیٹ پر گرم خون کی دھار بہنے لگی۔ پسلیوں نے اچانک چھری پر اپنی گرفت ڈھیلی کر دی ، اوپر موجود روشنی ذرا سی جھلملائی، جب پیل ہام نے ہاتھ میں چھری پکڑے، اس اجنبی کو غور سے دیکھا، ایک لمبا تڑنگا خوبصورت لڑکا، شیو کیا ہوا سر، جلد پر بہت سے گودے ہوئے نقش، سینے کے شگاف سے نکلتی ہوا اور بلبلے بناتا خون، لیکن چھری والا ہاتھ نہ رکا۔ لڑکے کی گرد ن میں ٹھوڑی تلے ایک شگاف ہو گیا، جِل ایک بار پھر چیخی، گرم خون کی دھار پیل ہام کو اندھا کئے دے رہی تھی، لڑکے کے بازو اسے بھینچ رہے تھے، اپنے قریب کھینچ رہے تھے، اس سے بغل گیر ہو رہے تھے کہ وہ دونوں اکھٹے ہی زمین پر گرے، اور گرتے ہی علیحدہ ہو گئے۔
اِسی اندھے پن سے آنکھ کے گرم گرم ڈھیلوں کو گھماتے ہوئے پیل ہام نے بستر کی چادرٹٹولنے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ لڑکے کے ننگے پیر چوبی فرش پر تھپ تھپ پڑ رہے تھے، پورے زور سے اس طرح زمین پر لگتے تھے جیسے وہ کسی ایسی پہاڑی کی چوٹی پر چڑھنے کی کوشش کر رہا ہو جو وہاں موجود ہی نہ ہو۔ پیل ہام نے اپنی آنکھوں سے خون پونچھا۔ جِل رو رہی تھی۔ لڑکا جلد ہی ساکت ہو گیا، کھلی ہوئی نیلی آنکھیں، جسم کے ارد گرد پیروں کے سرخ نشان۔اس کے اندر موجود ہوا مقعد اور منہ سے خارج ہو رہی تھی۔ اس کے منہ سے اب تک ایک لفظ بھی نہیں نکلاتھا۔
آنے والے کئی ہفتے پیل ہام اس بات پر حیران رہا کہ وہ چھری اس تپائی پر کیسے پہنچی۔ ایک ایسی چھری جسے اس رات وہاں نہیں ہونا چاہئے تھا، کیوں کر وہاں پائی گئی؟ اس نے ساعتِ قتل سے پیچھے، گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرنے کی کوشش کی تاکہ شایدبیتے ہوئے لمحوں کو کرید کر ان کے تلے سے چھری کو برآمد کر سکے ۔ وہ اب کھانے سے قبل تو سوتا نہ تھایعنی معدے میں تیزابی کیفیت کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا کہ سیب یا پنیر کاٹنے کے لئے چھری وہاں لائی گئی ہو۔ ہاں، ایک دو راتیں قبل ان کے ہاں مہمان آئے تھے، کچھ دوست بس یونہی ایک بوربن اور بھنے ہوئے فیل مرغ کے مزے اڑانے، اور وہ اچھا خاصا کھلی آنکھوں کے ساتھ بستر میں گیا تھا۔۔کیا اس نے سینے کی تیزابیت مارنے کے لئے کسی کھاجے کی طلب محسوس کی تھی اور پھر اس خواہش پر عمل درآمد سے پہلے ہی اسے نیند نے آ لیا؟ خالی پلیٹ میں کسی کھانے کی چیز کا تو نام و نشان بھی نہ تھا۔ اس سے ایک دن پہلے وہ گرم چشموں پر ٹراؤٹ پکڑنے گئے تھے، اس امید پر کہ تہوں میں کنڈی ڈالیں گے اور مچھلی کی بھری ہوئی ٹوکریاں لے کر لوٹیں گے۔شاید اس نے سامان میں کوئی چیز ٹھیک کرنے کا سوچا ہو؟کوئی لٹکتے دھاگوں کی گانٹھ کترنا مقصود ہو، شاید کسی کھلی کترن کو تنگ کرنا ہو، جال میں پیوند لگانے ہوں یا ایسا ہی کوئی پراسرار گھریلو کام جو اب یاداشت سے محو ہو چکا تھا۔
گھر پولیس والوں سے بھر چکا تھا۔ پیل ہام اب تک جنگلوں اور چراہ گاہوں کے بیچ ہی رہا تھا، لیکن اب بڑھتی ہوئی شہری حدود نے اسے ویسٹ ٹیبل کے قصبے کا مکین بنا دیا تھا، لہٰذا قصبے کی وردیوں میں ملبوس پولیس کے جوان اِ دھر اُدھر پھر تے ہوئے لڑکے کے گرد جمگھٹ بنا کر زمین پر موجود ملغوبے کا معائنہ کر رہے تھے۔پیل ہام جِل کے قریب پلنگ پر بیٹھ گیا۔پولیس والوں کے انتظار میں کچھ دیر تک تو وہ لرزتا کپکپاتا کوشش کرتا رہا کہ زخموں، کھلی آنکھوں اور پیروں کے نشانات کو نہ ہی دیکھے، لیکن اب ایک حیران کن احساس چھپتا چھپاتا اس کی طرف پیش قدمی کر رہا تھا، ایک خود تہنیتی سے بھرپور مسرت، ایک حیوانیت زدہ ندیدہ پن ۔۔بھئی مجھ پر ایک اجنبی حملہ آور نے حملہ کیا، سر توڑ معرکے کے بعد اب میرا دشمن ذبح ہوا سامنے پڑا ہے، ایک قتلِ برحق۔ کبھی کبھار انسان کسی ایسے لمحے کا خواب دیکھتا ہے، مقدس تشدد کا ایک موقع، پنجرہ کھولنے اور اندر سوئے ہوئے عفریت کو اپنی بھوک پوری کر لینے کی اجازت کا لمحہ۔ چُنٹوں بھری قمیض اور بیس بال ٹوپی پہنے پولیس کا ایک جوان بولا، ’’اس کا ہتھیار کہاں گرا تھا؟‘‘
’’اندھیرا تھا۔‘‘
’’اس کے پاس تھا کیا؟‘‘
’’پلنگ کے نیچے دیکھو، شاید وہاں گرا ہو۔‘‘
’’تم جانتے ہو، اس نے نیچے تمہاری چرمی کرسی پر پاخانہ کر دیا۔‘‘
چرمی آرام کرسی اس کی والد کی سب سے من چاہی ملکیت تھی جو پیل ہام کو ترکے میں ملی تھی، پوری کرسی اور ایک بازو گندگی سے بھرا ہوا تھا۔دو دن بعد پیل ہام نے چمڑے کو صاف کرنے کی کوشش ترک کر دی، بس اتنا صاف کیا کہ لتھڑی ہوئی جگہیں صاف ہو جائیں اور پھر اسے گھسیٹ کر باہر روش کے اُس پار کر دیا تاکہ کوڑے والی گاڑی لے جائے۔رات پڑنے سے پہلے اس نے کھڑکی سے ایک آدمی اور دو بچوں کو کرسی کامعائنہ کرتے اور پھر گرم جوشی سے اپنی گاڑی کی ڈکی میں ڈال کر ہنستے مسکراتے جاتے ہوئے دیکھا۔ یہ پہلی دفعہ تھی جب کھڑکی کے ساتھ لگے ہوئے ، اس نے اپنے والد کی کرسی کو غائب ہوتے دیکھ کر خود کو خالی کمروں سے اونچی آواز میں باتیں کرتے سنا۔’’تم پر لعنت ہو کہ تم نے مجھے خود کو قتل کرنے پر اکسایا۔‘‘
پولیس والا کہنے لگا،’’ہمیں یہ باہر تمہارے گھر کے کونے پر اس بڑی جھاڑی کے ساتھ ملا۔ ایک پرانا پستول۔ وہیں اس کے کپڑے بھی تھے، بہت اچھی طرح سے تہہ اور انہی کے نیچے یہ پستول تھا۔ ایک جیبی چاقو بھی موجود تھا۔ بٹوے میں فوجی شناختی کارڈ موجود ہے جس پر رینڈل ڈیویس نام درج ہے۔۔ کیا جانتے ہو اسے؟‘‘
’’اس نام کا ایک لڑکا میرے ساتھ اسکول میں پڑھتا تھا۔‘‘
’’لیکن یہ تو جونئیر ہے۔‘‘
پہلی بار جب پیل ہام نے اپنے آپ کو دی جانے والی دھمکی کی آواز سنی تو وہ اور جِل ایک جنرل اسٹور میں صفائی ستھرائی کے لئے کچھ سودا سلف خرید رہے تھے۔بیڈروم کا فرش پختہ لکڑی کا تھا اور وہاں پڑے ڈھیر کے گرد خون کا ایک ایسا داغ بن گیا تھا جو چوبی ریشوں میں کسی پیدائشی نشان کی طرح جذب ہو چکا تھا ۔جس کے باآسانی مٹنے کی کوئی امید نہ تھی۔پورے اسٹور میں بس ایک اور خریدار تھا ، سبز قمیض والا ایک آدمی جس کی سامنے والی جیب پر اس کا نام سِلا ہوا تھا، دکان دار سے سرگوشیوں میں مصروف تھا۔پیل ہام اور جِل چکنائی مانجھنے والا پاؤڈر، مرفی صابن اور اسفنج کے ٹکڑے اٹھائے اس کے پیچھے آ کر کھڑے ہو گئے۔ انہیں یہی الفاظ سنائی دئیے کہ ’’قتل کر دیا، جیسے پت جھڑ میں کسی سؤر کو مار دیا جاتا ہے‘‘ اور معلوم ہو گیا کہ بحث ہو رہی ہے۔ وہ کچھ بولے بغیر چپ چاپ کھڑے اس شخص کے جانے کا انتظار کرتے رہے۔ جاتے جاتے اس آدمی نے اور اونچی آواز میں کہا،’’میں ساری زندگی اس لڑکے کا دوست رہا ہوں اور اگر قانون نے اِس کتیاکے بچے کو انجام تک نہ پہنچایا تو میں جانتا ہوں کہ یہ کسے کرنا پڑے گا۔‘‘ گھر لوٹتے ہوئے جِل دوبارہ رونا شروع ہو گئی ، جب پیل ہام نے گاڑی احاطے میں داخل کی تو وہ کہنے لگی،’’ شاید وہ آخری وار روکا جا سکتا تھا، جانِ من۔ گردن والا۔ ‘‘
دوسری صبح اسے پولیس اسٹیشن طلب کیا گیا۔ آسمان گرج رہا تھا، ہر طرف سیاہ بادل تھے لیکن ہلکی سی پھوار پڑ چکی تھی جس سے سڑکیں پھسلواں اور سبزہ چمک رہا تھا۔ اولم سٹیڈ اور جانسن نامی دو پولیس کے جوان اسے ایک دفتر میں لے آئے۔ کمرہ میں بس ایک سادہ سی سفیدی تھی جس سے کچھ اندازہ لگانا ممکن نہ تھا اور میز پر ایک ٹیپ ریکارڈر رکھا تھا۔ اولم سٹیڈ نے پوچھا،’’ تمہیں مکمل یقین ہے کہ تم نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا؟‘‘
’’میں نے شاید اسے کہیں دیکھا ہو لیکن یاد نہیں آتا۔‘‘
’’اس کا باپ جانتا ہے کہ تم کون ہو۔‘‘
’’اسکول کے دنوں سے۔‘‘
’’اور جِل ، کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ ایسے خوبصورت نوجوان سے کہیں ملی ہو؟‘‘
’’یار، وہ تو بس ذرا لڑکا سا ہی تھا، لیکن ایسے کمینے خیالات میرے دماغ میں ڈالنے کا بہت شکریہ۔‘‘
’’تو پھر کیا وہ ہو سکتی ہے؟‘‘
’’لعنت ہو تم پر۔‘‘
پیل ہام پہلے بھی قتل کر چکا تھا۔ وہ اوکی ناوا میں تھا، اٹھارہ سال کا ہونے ہی والا تھا، لانس نائک تھا، اور ا پنی سالگرہ یعنی لڑائی کے لائق ہونے کی عمر سے ایک دن قبل اسے ایک بڑے سے ہوائی جہاز میں گھسیڑ کر سائیگون بھیج دیا گیا۔ نہ تو ویت نام میں اترتے اور نہ واپس نکلتے ہوئے اسے کچھ خبر تھی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ کسی مشن کے منتظر ،وہ سب سپاہی بار میں بیٹھے تھے کہ ایک نائک نے انہیں یہ مژدا سنایا کہ وہ نہایت خوش قسمت ہیں اور جنوب میں ایک ایسی جگہ جا رہے ہیں جہاں زیادہ لڑائی نہیں ہو رہی ۔ ہر کوئی پرسکون ہو کربے ڈھنگے ناقابلِ استعمال چمچوں سے نوڈل سوپ پینے کی کوشش کرنے لگا اور گھر بھیجنے کے لئے امیدوں یا مایوسیوں سے بھرپور پوسٹ کارڈ لکھنے لگا۔ تقریباً دوپہر کے وقت ریڈیو پر گڑگڑاہٹ ہونے لگی اور اگلے ایک گھنٹے میں زیادہ سے زیادہ سینئر لوگ سننے کے لئے جمع ہونے لگے۔ اچانک حوالدار نے کہا کہ فوراً کھڑے ہو جاؤ، وہ اُدھر نہیں جا رہے جہاں اس کا خیال تھا۔ پہلا ہیلی کاپٹر ذرا ناسازی طبع سے شمال کی جانب ایک ایسے محاذ پر روانہ ہو گا جو حملے کا مرکز ہے، ایک ایسی جگہ جس کا نام پیل ہام ٹھیک سے نہیں سن سکا۔ دورانِ پرواز ا ن پر بہت فائر ہوا اور دو سپاہیوں کو گولیاں لگی جنہیں نچلے حصے میں لٹا دیا گیا۔ پیل ہام کے چہرے پر اس جگہ اترنے سے پہلے ہی خون تھا جہاں کا نام بھی اسے نہیں معلوم تھا۔ ایک بوکھلائے ہوئی کپتان نے مضطرب انداز میں ہاتھ ہلا کر نوواردوں کی وصولی کا اشارہ کیا اور ایک حوالدار نے ’نئے لعنتی سپاہیوں‘ کو باڑھ کے ساتھ کھودے گئے مورچوں کی طرف بھیج دیا۔ مورچے پانی سے بھرے تھے کیوں کہ بوندا باندی ہر وقت جاری رہتی تھی۔ پہاڑیاں ڈھلوانی اور بہت سبز تھیں، دھند رات گئے تک نیچے کا سفر جاری رکھتی تھی۔ ہر کوئی ایک نشانہ باز کے بارے میں شور کر رہا تھا۔پیل ہام نہیں جانتا تھا کہ اسے کہاں بھیجا گیا ہے اور وہ کس کے ساتھ ہے۔ اسے صرف ایک سپاہی کا نام ہی سنائی دیا جو یہاں آتے ہوئے کام آ گیا تھا، ٹیکساس کا باسی لازارو۔ اسے اس فوجی پڑاؤ کے طول و عرض کا واضح اندازہ بھی نہ تھا۔بہت خوفزدہ تھا کہ کہیں اندھیرے میں غلط ہدف پر ہی فائر نہ کر دے لیکن وہ متذبذب نہ ہونا چاہتا تھا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ اگر فرار کی نوبت آ جائے تو کس جانب رخ کیا جائے یا مدد کے لئے کس کا نام پکارا جائے۔ اس رات دشمن کے سپاہیوں نے دو دفعہ باڑھ میں سوراخ کیا۔ مارٹر کے گولوں سے کیچڑ اڑ رہا تھا۔ پیل ہام اندھا دھند گولیاں چلا رہا تھا، ہر قریب آنے والے سائے پر حملہ آور ہو رہا تھا۔ جب اگلی بار اس کی آنکھ کھلی تو وہ بحری جہاز کے ہسپتال میں سفید بستر میں موجود تھا، سر میں ایک سنساہٹ سی تھی جو گھر پہنچنے تک جاری رہی۔ اپنی صحت یابی کے دوران ہی کسی وقت اسے الوداعی تحفے کے طور پر کانسے کا جنگی تمغہ بھی دے دیا گیا۔
ووہ ویت نام میں چوبیس گھنٹے سے بھی کم رہا تھا اور محض یہ ذکر کرنے سے بھی الجھن کا شکار ہو جاتا تھا کہ وہ وہاں رہا ہے کیوں کہ بہت سے سابقہ فوجی ہمیشہ یہ سوال کرتے۔ یاد ہے کوہِ مرمر کو جانے والی سڑک پر فلاں فلاں ماما کا حشیش کا ڈھابا؟ دی دی ماؤ ؟ مٹر اور ماں کا خصم ؟ یاد ہے سیاہ پاجامے میں ملبوس لڑکیاں کیسے فوراً ٹانگ اوپر کر کے ایک جانب پیشاب کرتی تھیں؟ نہیں، نہیں ، نہیں، نہیں۔ تم بکواس کرتے ہو کیوں کہ جوڈی ، اگر تم وہاں ہوتے تو یہ سب کیسے نہ جانتے۔واپسی کےایک سال بعد پیل ہام نے نئے ملنے والوں سے ویت نام کا ذکر کرنا چھوڑ دیا، یوں کہیے کہ اپنی سوانح سے یہ حصے خارج کر دئیے۔ صرف ویت نام سے پہلے کے دوست ہی یہ جانتے تھے کہ وہ وہاں گیا ہے۔ جِل اس کی دوسری بیوی تھی، اس سے پندرہ سال چھوٹی،سنہرے بالوں والی ایک خوبصورت، صابرو شاکر لڑکی جس کے ذہن میں ویت نام کسی ایسے بوریت زدہ پرانے ٹیلی وژن شو کی طرح تھا جو اس کے تیسری جماعت میں پہنچنے تک ختم ہو چکا تھا۔ وہ پیل ہام کی کھرونچوں کو چھوتی لیکن زبان سے کچھ نہ کہتی۔
یہ موسم، یہ فضا، دھند سے بھرا جنگل، ہلکی ہلکی بوندا باندی اور نادیدہ آسماں اسے ہمیشہ اس جگہ پر موجود اپنے مورچے میں لے جاتے جس کا نام اسے معلوم نہ تھا۔ ان پہاڑی ندیوں میں اکثر اسی قسم کا موسم ہوتا جہاں وہ اور جِل مچھلی کا شکار کرنے جاتے تھے ، جب وہ اگلی دفعہ گئے تو آسمان ذرا سرمئی اور نیچے پھیلا ہوا محسوس ہوتا تھا ، وہ اجنبی مٹی کی بواور پرانے خوف محسوس کر رہا تھا۔ تمام دن جِل خاموش تناؤ میں پیل ہام سے دور، اوپر چڑھتی ندی کے پانی میں گھٹنوں گھٹنوں تک کھڑی رہی ، پھر آخر کار ڈھلوان کی سمت منہ کر کے کہنے لگی،’’نہیں، نہیں، میں نے کبھی نہیں کیا۔‘‘
دو دن سے انہیں فون پر دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں، پیل ہام اپنے جسم کے پرخچے اڑا دئیے جانے کی منصوبے اور اپنی بے چاری روح کے بارے میں خیالات سنتا اور سکون سے کہتا کہ تم شاید درست ہی کہتے ہو، تو آ جاؤ، کیوں نہ دو دو ہاتھ ہو جائیں؟ ایک دو دفعہ باہر سے ایک کار بھی گزری جس میں سے اونچی اور غصے سے بھرپور ناقابلِ فہم آوازیں سنائی دیں۔ پھر قصبے کے اخبار نے پورے واقعے کی تفصیلات واضح کر دیں اور پیل ہام پر مزید الزام لگنا بند ہو گئے۔ ایک دن بعد رینڈل ڈیویس جونئیر کی الوداعی رسومات منعقد ہونا تھیں: فرنٹ اسٹریٹ چرچ آف کرائسٹ کا تاحیات رکن، بٹیر کا ایک مشتاق شکاری، قصبے کی باسکٹ بال ٹیم کا اہم ترین اقدامی کھلاڑی، اپنی بہنوں کرسٹل اور جوائے کا بہترین ساتھی، عراق میں فرسٹ میرین مہم جو فورس کا فخریہ رکن جہاں اسے نائک کا رینک دیا گیا، کئی لوگوں کا محبوب۔ جِل نے اخبار کا یہ تعارفی صفحہ ریفریجریٹر کے اوپر چسپاں کر دیا تاکہ باقاعدگی سے اس لڑکے کا چہرہ دیکھنے سے آہستہ آہستہ شاید کوئی اہم بات یاد آ جائے۔
اگر وہ رسوئی میں رکھی چھوٹی میز پر کھاتے پیتے تو وہ چہرہ ان کے درمیان میں ذرا اوپر آویزاں رہتا ۔ اس تصویر میں اس نے مہم جوئی کیمپ کا لباس زیبِ تن کر رکھا تھا، نیلی قمیض اور پتلون، تانبے کے نشان والا سفید ہیٹ اور چہرے پر نظم و ضبط میں گندھے ہونے کا ایک سپاٹ سا تاثر۔ وہ کھانا کاٹتے چباتے اس کے چہرے کو تکتے رہتے۔ چہرے کا مطالعہ ان کی گفتگو کو کچھ مخصوص سمتوں میں لے جاتا۔ پیل ہام ایک بار پھر پوچھ بیٹھتا، ’’ آخر اس نے اپنے ہتھیار باہر ہی کیوں رکھے؟‘‘
’’اور اندر برہنہ ہو کر کیوں آیا؟‘‘
’’ابا کی کرسی پر پاخانے کا جواز؟ اس کی کیا ضرورت؟‘‘
’’تحقیر، جانِ من۔ میرا خیال ہے یہ سب اس نے ہمیں ذلیل کرنے کے لئے کیا۔ ‘‘
’’اس نے ایک گھونسہ بھی نہیں مارا۔‘‘
خالی کمروں میں باآوازِ بلند گالیاں دیتے ہوئے پیل ہام کو معلوم تھا کہ وہ اسی سپاہی سے باتیں کر رہا ہے جو اس کے ہاتھوں قتل ہوا تھا۔ وہ اسے جونئیر سمجھتے ہوئے ذہن میں اس سے سوال کر رہا تھا ، کبھی اسے جھنجھوڑتا اور ایک آدھ تھپڑ بھی رسید کر دیتا۔ تمہیں میرا دروازہ کیسے مل گیا؟ یہ سڑک تو کسی خاص جگہ نہیں جاتی، جونئیر، نہ تو اس طرف کوئی مشہور مے خانہ ہے، نہ ہی اسکیٹنگ کا کوئی میدان یا عشاق کے ملن کا کوئی کوچہ ، اس طرف کچھ بھی تو ایسا نہیں۔ ۔تمہیں یہیں آنا ہو تو ہی اس طرف کا رخ کرو گے۔ جونئیر نے کبھی جواب نہ دیا اور جِل پیل ہام کو کمرے میں ایک بند دروازے کو صلواتیں سناتے دیکھ کر پریشان ہو جاتی ۔
’’لعنت ہو! لعنت ہو! لعنت ہو!‘‘
’’جان؟ میری جان؟‘‘
’’مجھے صرف جوابوں کی تلاش ہے۔‘‘
رات کو پیل ہام پلنگ سے اٹھتا اور گھر کے چاروں طرف پہرے داری کرنے لگتا۔ زیر جامے ہی میں چھپتے چھپاتے ،ایک کلہاڑی اٹھائے ، گھر سے باہر نکل جاتا جو وہ گیراج سے گھر میں اٹھا لایا تھا۔ دروازوں کا معائنہ کرتا، ایسی آوازوں پر کان لگاتا جن پر غیرمعمولی ہونے کا شبہ ہوتا، کسی کھڑی تک رینگتا ہوا جاتا اور پردوں میں سے باہر جھانکتا، وہ اس خالی جگہ کلہاڑا کھینچ کر کر وار کرنے کے لئے تیار کھڑا ہو جاتا جہاں کبھی اس کے والد کی کرسی پڑی ہوتی تھی۔ ذرا ذرا سے وقفے کے بعد کئی دفعہ اسی طرح مسلسل چکر لگاتا اور اسی دوران کسی وقت جِل اندھیرے میں اس کے پاس پہنچ جاتی۔
’’سب ٹھیک ہے؟‘‘
’’شاید۔‘‘
ایک روشن صبح کینی ویلے ریستوران کے باہر آخر کار پیل ہام کی رینڈل ڈیویس سینئر سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ پارکنگ کے احاطے میں کھڑے ، اس نے بہت سکون محسوس کیا۔ رینڈل اور اس کی بیوی نے ایک لمحہ اسے گھور کر دیکھا، پھر رینڈل بولا،’’ میرا خیال تھا کہ تم اب سے کہیں پہلے مل جاؤ گے۔‘‘
مردوں نے ہاتھ ملانے کے لئے ایک دوسرے کی طرف بڑھائے لیکن پھر رک گئے اور اپنی نظریں بدل کر ہاتھ واپس نیچے گرا دئیے۔اب مسز ڈیویس ،ایک دراز قد اور بہت دبلی عورت جو اسکول میں مردوں سے کہیں پیچھے تھی، آگے بڑھی اور کہنے لگی،’’میں جانتی ہوں کہ تمہارا حق بنتا تھا۔۔لیکن میرے لئے تمہاری شکل دیکھنا ممکن نہیں۔ میں یہ کر ہی نہیں سکتی۔‘‘ وہ ریستوران کی طرف بڑھی اور اندر داخل ہو گئی۔ اب رینڈل نے پھر اپنا ہاتھ بڑھایا اور اس بار دونوں نے مصافحہ کر ہی لیا۔ وہ کہنے لگا،’’ وہ یہ جاننا برداشت ہی نہیں کر سکتی کہ اس کے حالات کتنے بُرے تھے۔ ہمیں کیا معلوم تھا۔‘‘
’’میں آپ کے بیٹے کو نہیں جانتا تھا۔‘‘
’’نہ ہی میں بہت زیادہ جانتا تھا۔ میرے خیال میں یہی وہ ناخوشگوار حقیقت ہے جو اب آشکار ہوئی۔ ‘‘
’’مجھے بہت افسوس ہے کہ سب کچھ ہوا۔‘‘
’’ہمیں کسی وقت بات کرنی چاہئے۔ میں تمہیں فون کروں گا۔ ‘‘
وہ دونوں چھٹی اور ساتویں جماعت کے درمیان پڑنے والے موسمِ گرما میں اچھےساتھی رہے تھے۔ میدانوں اور گھنے درختوں کے بیچ دوڑتے پھرتے، سبز چراہ گاہوں میں بھینسوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے، قصبے کے مرکزی چوک میں لڑکیوں سے ٹھٹھا کرتے، تنگ گلیوں میں آوارہ پھرتے جہاں گری ہوئی عجیب و غریب چیزیں ملنے کا امکان ہوتا۔ ڈیویس کا خاندان وہاں نووارد تھا اور رولا سے آیا تھا، پیل ہام کی ماں نے اسے چہرے پر چھائیوں اور موٹی عینک والے لڑکے سے اچھی طرح پیش آنے کے لئے کہا تھا۔ رینڈل اچھا کھلاڑی تو نہ تھا لیکن کھیل پر آمادہ تھا اور وہ پارک میں کارک بال، انڈین بال ، ۵۰۰ اور اگر وہ تعداد میں زیادہ ہوتے تو دو ٹیمیں بنا کر بیس بال کی طویل بازیاں لگاتے۔ہاؤل کھاڑی میں تیرتے، پھوار پڑتی تو ڈیوڑھی میں چلمن کے پیچھے بیٹھ کر تاش کھیلتے، کریم سوڈا پیتے اور خالی ریلوے اسٹیشن پر کبوتروں کو غلیل سے نشانہ بناتے۔ یہ ان کی آخری لاابالی گرمیاں تھیں۔ ساتویں جماعت کئی پیچیدگیاں اور نئے سماجی مسائل ساتھ لے آئی۔ رینڈل احاطے میں یا سکول کے عقب میں ہونے والی مخصوص جھڑپوں کے دوران لڑکیوں کو رام کرنے میں کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا۔۔ بلکہ ایک بوجھ ہی تھا، ایک مسلسل ذمہ داری ۔۔اور پھر زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ان کے راستے جدا ہو گئے۔ کوئی تلخ واقعہ ہرگز پیش نہیں آیا، بس میل جول بتدریج کم ہوتا گیا اور جلد ہی ان کی دوستی سمٹ کر ایک رسمی سی علیک سلیک میں بدل گئی، گزرتے ہوئے بس یہی کہ اور سناؤ کیا چل رہا ہے؟
سب ٹھیک ٹھاک؟
بس اتنا ہی ۔
آرکانساس کی طرف سے موسم میں خوشگوار تبدیلی کا نزول شروع ہو گیا اور گھروں کی کھڑکیاں کھل گئیں۔جِل کا مزاج مترنم تھا اور وہ آسمانی رنگ کےڈھیلے ڈھالے پہناوے میں گھوم رہی تھی۔ جالیوں سے گھر کے باہر زہرۃ العسل کی بیلوں، زغال کے سفید پھولوں اور گندھی ہوئی مٹی کی مہک، جھینگروں کے الاپ اور مویشیوں کی آوازوں میں رچی بسی رات آگے بڑھ رہی تھی ۔ پیل ہام بوربن کا ایک جام تھامے بیڈ روم کے ٹیلی وژن پر سینٹ لوئس کی آخری اننگز دیکھ رہا تھا۔ جِل پلنگ کے آرپار، اوندھی لیٹی، چہرہ بستر کے کنارے سے نیچے جھکائے، زمین پر رکھی کتاب پڑھ رہی تھی، اس کا پہناوا جسم سے چپک رہا تھا۔ کتاب بند کرتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھی ، ’’یہ ختم ہوئی ‘‘۔ ٹیلی وژن پر اناؤنسر بارہویں کھلاڑی کی تعریف کر رہا تھا کہ جِل چلتی ہوئی کتاب دان تک گئی اور ایک پرانی سی مضبوط جلد والی کتاب اٹھاتے ہی کراہتے ہوئے سوں سوں کرنے لگی۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ پیل ہام نے پوچھا تو اس نے کتاب دان کی طرف اشارہ کیا جہاں خون بہتے بہتے پہنچ کر کتابوں کی پیچھے دیوار کے سفید رنگ کو منقش کر رہا تھا۔’’لعنت۔‘‘ پیل ہام فوراً پانی کی بالٹی ، صفائی والے کپڑے اور سخت برش لے آیا، انہوں نے الماری سے کتابیں نکالیں اور زمین پرجمع کر دیں۔ وہ کافی دیر زور زور سے مَلتے رہے یہاں تک کہ پینٹ اکھڑنا شروع ہو گیا اور خون کے دھبے غائب ہو گئے۔ پیل ہام برش بالٹی میں پھینکتے ہوئے بولا، ’’میں اس کے والد کے ساتھ دریا پر جاؤں گا۔‘‘
وہ بڑی بڑی سرمئی چٹانوں پر کھڑے بہتے دھارے کو دیکھ رہے تھے۔ ان کے بالکل نیچے گہرائی کم ہو رہی تھی اور بڑبڑاتا ہوا دریا چھوٹے چھوٹے پتھروں اور چونے کی بجری پر سے گزر رہا تھا۔ دریا کی تلیٹی سایوں سے ڈھکی تھی جو دور جاتی ڈھلان کے نصف تک پہنچ رہے تھے۔دھارا ڈوری کو اپنی جانب ایسے کھینچ رہا تھا جیسے کوئی مچھلی آ پھنسی ہو اور شکاری کانٹا مڑ رہا تھا لیکن ڈوری کے دوسرے سرے پر سوائے چارے اور دریا کے کچھ نہ تھا۔ رینڈل اپنی کمر پیل ہام کی طرف کئے ہوئے بولا،’’رینڈی نے تمہیں کیا کہا تھا؟‘‘
’’ایک لفظ بھی نہیں۔ اس نے کوئی بات ہی نہیں کی۔‘‘
’’یہ کیسے ہوا کہ جب وہ نظر آیا تو تمہارے پاس چھری تیار پڑی تھی؟‘‘
’’وہ صرف غرا رہا تھا۔‘‘
’’میں یہ بھید نہیں جان سکا۔ نہیں سمجھ آتا۔ نہ جانے وہاں کیا قیامت آئی ۔‘‘
’’وہی قیامت جو ہمیشہ آتی ہے، رینڈل۔‘‘
پیل ہام ندی سے نکل کر کنارے پر آ گیا۔ پُشتارے میں سے بوربن کی ایک بوتل نکالی اور اچھلتا پھلانگتا واپس سرمئی چٹانوں پر آ گیا۔ بوتل رینڈل کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا،’’ کیا تم نے کبھی وہسکی شروع کی؟‘‘
’’صرف ایک دفعہ ہی شروع کرنا پڑی تھی۔‘‘
وہ چٹانوں پر بیٹھے بوتل سے بوربن پیتے اور دریا کی آوازیں سنتے اپنے سامنے ٹراؤٹ کو تیرتے دیکھتے رہے۔ آہستگی سے وہسکی کی بوتل ایک دوسرے کی جانب بڑھاتے ہوئے وہ دس منٹ خاموش بیٹھے ہوں گے، یا شاید بیس ۔ دو بچے زرد ڈونگیوں میں کھاڑی کو چیرتے، ایک دوسرے سے ریس لگاتے، ہنستے کھیلتے بڑے بڑے پتھروں سے کنارہ کرتے اور کم گہرائی کو چھوتے ،آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ان کی نوخیز ہنسی اس وقت بھی سنائی دے رہی تھی جب وہ دریا کی ڈھلان پر بہت نیچے نظروں سے غائب ہو گئے۔
’’وہ بہت مختلف تھا۔ ہمیشہ تنہائی کا شکار، دنیا میں اپنے مقام کے بارے میں ہمیشہ بے یقینی کا شکار، ہر سمے اپنے تخمینۂ ذات میں مبتلا، کچھ ثابت کرنے، اپنا قد ماپنے کی کوشش میں گرفتار۔ ہو سکتا ہے اسے معلوم ہو گیا ہو اور علم کی اس اذیت نے اسے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہو۔ ‘‘
’’لیکن میں ہی کیوں رینڈل؟‘‘
’’وہ کبھی کبھار بڑا پراسرار سا لگتا۔۔ خلا میں گھورتی ہوئی نظریں، گھنٹوں پر گھنٹے گزر جاتے اور وہ کچھ نہ کہتا۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ کوئی غم اسے کھائے جا رہا ہے جو مجھے کبھی معلوم نہ ہو سکے گا، صبح بستر میں جوتے پہنے پہنے ہی ووڈکا پینے لگتا اور گھر میں ہی دوسری منشیات وغیرہ بھی لیتا۔ خیر ایک دفعہ وہ چادر پر جوتوں سمیت لیٹا چھت کو گھور رہا تھا کہ میں نے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا، ’’بیٹا تم اس بارے میں بات کرنا چاہتے ہو؟‘‘ اس نے میری طرف اس اجنبیت سے دیکھا جیسے ہم پہلے کبھی نہ ملے ہوں لیکن کہنے لگا، ’’بتاؤں گا یار۔‘‘ تمہارے لئے تمام بنیادی جوابات یہی ہیں:ہاں۔ میں گنتی بھول گیا تھا۔ جیسے کوئی مرچوں سے بھری بالٹی کسی پنکھے میں جھونک دے۔ جو اٹھا سکتے ہو اٹھا لو، باقی کام بیلچے سے ہی ہو گا۔ ‘‘
’’تو یہ ہے کہانی۔‘‘ یہ فقرہ پیل ہام کو واپس بارش کے موسم میں لے گیا۔اس نے بوتل پر ڈھکنا کسا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے ٹانگیں سیدھی کیں اور بہاؤ کے مخالف منہ کر لیا۔ وہ رینڈل کے سامنے کانپنا نہ چاہتا تھا۔چھلانگ مار کر چٹانوں سے نیچے اترا، پانی کے ساتھ اکڑوں بیٹھ کراپنا سر اندر ڈال دیا، سردی کی ایک لہر اندر سے گزری اور اس کی گردن کو بھگوتی ہوئی ریڑھ کی ہڈی تک چلی گئی۔ ’’آج وہسکی کچھ جلدی ہی چڑھ گئی۔‘‘
’’مجھے بھی۔‘‘
’’چلو چلیں۔‘‘
اس رات پیل ہام نے ریفریجریٹر پر جونئیر کے ساتھ اپنی مہم جوئی کیمپ والی تصویر بھی چسپاں کر دی۔ جِل نے اپنے شوہر کے نوخیز چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’کون کہہ سکتا ہے کہ یہ تم ہی ہو؟ کیا تم اس طرح تھے؟‘‘
اس کا سر شیو کیا ہوا تھا، جلد ہلکی سرخ تھی، ہیٹ سر پر ذرا زیادہ ہی سیدھا دھرا تھا، بائیں آنکھ تلے ایک مدھم سا زخم کا نشان تھا، چہرہ سپاٹ اور جذبات سے عاری۔
’’کچھ دیر کے لئے میں بالکل ایسا ہی تھا۔‘‘
’’ہوں! میرا خیال تھا کہ ان دنوں ہر کوئی ویت نام جنگ کے خلاف تھا۔ جو بھی ہو، سننے میں تو یہی آتا ہے۔ نہیں، ہر گز نہیں، ہم نہیں جائیں گے، اس قسم کی باتیں۔‘‘
’’ہمارے محلے میں ایسا نہیں تھا۔ ‘‘
دونوں چہروں پر نظریں جمائے ،وہ ایک کے بعد ایک بئیر پیتا رہا۔ جِل کاؤنٹر پر کھڑی اگلی رات مدعو کئے گئے مہمانوں کی تواضع کے لئے مرغی کو مصالحہ لگانے سے پہلے کاٹ کر تیار کر رہی تھی۔سرکے اور لہسن کی تیز بو پھیلی تھی۔ وہ دونوں چہروں کے ساتھ کچھ تبدیلیاں ہوتی محسوس کر رہا تھا، ایک تیاگ دینے کی سی کیفیت تھی جیسے کوئی تھک ہار کر دل چھوڑ دے، ایک نئی قسم کی ناتوانی۔ وہ کھانا اڑائیں گے اور اس موضوع سے دامن بچا کر گزریں گے، شاید صرف قہقہوں کی خاطر کچھ زیادہ ہی پی لیں۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ مہمانوں کی نظر تصویروں پر پڑے سو اس نے بہت احتیاط سے انہیں ریفریجریٹر سے اس طرح اتار کرہاتھوں میں پکڑ لیا کہ ان کے کونے خراب نہ ہوں۔ ایک ہاتھ سے دوسرے میں ادل بدل کرتا رہا۔ جِل، آنےوالے کل کی خوشبوؤں میں نہائی ہوئی، تجسس کے مارے اس کے قریب آ ئی اور کاندھے کے اوپر سےعقب میں جھانکنے کی کوشش کر نے لگی۔
’’ تم دوبارہ کیوں جا ملے؟‘‘ اس نے پوچھا، لیکن جواب کا انتظار نہ کیا۔
پیل ہام باہر چوبی تختے پر کھڑا تھا۔ ایک بڑا سا چاند ہر شے کے سائے کتر کر اِ دھر اُدھر گھما رہا تھا۔اس نے تصویریں کرسی پر رکھیں، پھر قمیض اتار کر ان کے اوپر ڈال دی۔ پھر پیر جوتوں میں سے نکالے، اپنی جینز اور زیرجامہ نیچے گرنے دیا اور چوبی سلاخ کے نیچے برہنہ کھڑا ہوگیا۔ لکڑی کا سہارا لیتے ہوئے ہچکولا سا کھایا اور تجرباتی طور پر ذرا سی غراہٹ کی آواز نکالی۔ اس سے اگلی غراہٹ زیادہ دلجمعی سے ، اس سے اگلی مزید بلند۔ اب پیل ہام سیدھا کھڑا ہوا اور گہرا سانس لیا، اپنے بازو پھیلائے، غرایا اور احاطے کی طرف منہ کر تے ہوئے مسلسل غرانا شروع کر دیا جیسے سایوں کو اپنا صحن عبور کرنے کی دعوت دے رہا ہو۔
’’جانِ من؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔دی دی ماؤ ویت نام جنگ کے دوران استعمال ہونے والے جنگی ذخیرۂ اصطلاحات میں سے ایک ہے جس کے معنی ہیں جلدی جلدی نکلو ۔ ڈئیر ہنٹر نامی مشہور فلم میں اس کا استعمال دیکھا جا سکتا ہے۔
2۔یہ دلچسپ اصطلاح بھی ویت نام میں امریکی فوجیوں کا روز مرہ تھی۔ راشن میں ملنے والے مٹر اور سؤر کے گوشت کے لئے طنزیہ طور پر استعمال کی جاتی تھی۔
3۔جوڈی کی اصطلاح بھی اسی ذخیرۂ الفاظ کا حصہ ہے اور ایسے عیار شخص کے لئے استعمال ہوتی ہے جو خود تو گھر بیٹھا رہے اور کسی دوسرے کو پہلا پھسلا کر جنگ میں بھیج دے۔
مترجم: عاصم بخشی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply