تتھاگت نظم (8) ….ثمر

پیش لفظ
کہا بدھ نے خود سے : مجھ کو۔ دن رہتے، شام پڑتے، سورج چھپتے، گاؤں گاؤں یاترا، ویاکھیان، اور آگے ، اور آگے۔ بھارت دیش بہت بڑا ہے، جیون بہت چھوٹا ہے، لیکن اگر ایک ہزار گاؤں میں بھی پہنچ پاؤں تو سمجھوں گا، میں سپھل ہو گیا۔ ایک گاؤں میں ایک سو لوگ بھی میری باتیں سن لیں تو میں ایک لاکھ لوگوں تک پہنچ سکوں گا۔ یہی اب میرا کام ہے ،فرض ہے ، زندگی بھر کا کرتویہ ہے۔ یہ تھا کپل وستو کے شہزادے، گوتم کا پہلا وعدہ … خود سے …اور دنیا سے۔ وہ جب اس راستے پر چلا تو چلتا ہی گیا۔اس کے ساتھ اس کا پہلا چیلا بھی تھا، جس کا نام آنند تھا۔ آنند نام کا یہ خوبرو نوجوان سانچی کے ایک متمول خاندان کا چشم و چراغ تھا، لیکن جب یہ زرد لباس پہن کر بدھ کا چیلا ہو گیا تو اپنی ساری زندگی اس نے بدھ کے دستِ راست کی طرح کاٹ دی۔ یہی آنند میرا ، یعنی ستیہ پال آنند کے خاندانی نام ’’آنند‘‘ کی بیخ وبُن کی ، ابویت کی، پہلی سیڑھی کا ذوی القربیٰ تھا۔ اسی کی نسب خویشی سے میرے جسم کا ہر ذرہ عبارت ہے۔ مکالمہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان نظموں کے اردو تراجم اس میں بالاقساط شائع ہو رہے ہیں۔ اردو کے غیر آگاہ قاری کے لیے یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ ’’تتھا گت‘‘، عرفِ عام میں، مہاتما بدھ کا ہی لقب تھا۔ یہ پالی زبان کا لفظ ہے جو نیپال اور ہندوستان کے درمیان ترائی کے علاقے کی بولی ہے۔ اس کا مطلب ہے۔ ’’ابھی آئے اور ابھی گئے‘‘۔ مہاتما بدھ گاؤں گاؤں گھوم کر اپنے ویا کھیان دیتے تھے۔ بولتے بولتے ایک گاؤں سے دوسرے کی طرف چلنے لگتے اور لوگوں کی بھیڑ ان کے عقب میں چلنے لگتی۔ آس پاس کے دیہات کے لوگ جب کچھ دیر سے کسی گاؤں پہنچتے تو پوچھتے کہ وہ کہاں ہیں، تو لوگ جواب دیتے۔ ’’تتھا گت‘‘، یعنی ابھی آئے تھے اور ابھی چلے گئے‘‘۔ یہی لقب ان کی ذات کے ساتھ منسوب ہو گیا۔ میں نے ’’لوک بولی‘‘ سے مستعار یہی نام اپنی نظموں کے لیے منتخب کیا۔ ستیہ پال آنند –

تتھاگت نظم (8)…..ثمر
اور پھر ایسے ہوا، اک شخص آیا
بُدھّ کی خدمت میں، جس نے دست بستہ
اپنی اُلجھن یوں بیاں کی …

’’اے مہا مانَو، تتھا گت
آپ نے جو ہشت پہلو راستہ چُننے میں میری
رہنمائی کی ہے، میں ممنون ہوں، لیکن، تتھا گت …‘‘

’’بولو، استفسار کیا ہے؟‘‘

’’میں، تتھا گت، اپنے قول و فعل میں نیکی کے رستے پر چلا ہوں
میں معاشی اور سماجی زندگی میں
اک مثالی شخص ہی بن کر رہا ہوں
آج تک تو میں نے اپنا دامنِ ِ کردار آلودہ نہیں ہونے دیا ہے
دشمنی یا بد کلامی یا کدورت سے سدا بچ کر رہا ہوں…‘‘

’’خوب، لیکن، اے سوالی، پوچھنا کیا چاہتے ہو؟‘‘

’’گیان داتا، میرا اک بھائی بھی ہے، جو
فکر و قول و فعل میں یکسر بُرا ہے
دوسروں کے حق پہ قابض
اُس نے اپنی ساری دولت
جھوٹ، دھوکے ، چھل کپٹ سے جمع کی ہے۔‘‘

’’ہر کوئی اپنے عمل کا خود ہی ضامن ہے، سوالی!‘‘

’’میرا استفسار بھی بالکل یہی ہے
فکر و قول و فعل سے میں اک مِثالی شخص ہوں۔۔اور وہ مرا بھائی
مری ضد ہے۔۔۔وہ مجھ سے مختلف ہے
بھائی، لیکن مثبت و منفی، اُجالا اور اندھیرا
نیک و بد انسان، دونوں ایک جیسے تو نہیں ہیں
میرے نیک اعمال اس سے کم ثمر کے اہل کیسے ہیں تتھا گت؟
کیا مری اچھائی لا حاصل ہے؟ کیا میں بھی بُرا ہوں؟‘‘

’’پوچھ کر دیکھو، سوالی!‘‘

’’اے تتھا گت، غور فرمائیں، یہ کل کا واقعہ ہے
دونوں بھائی ہم اکٹھے جا رہے تھے
میں برہنہ پا تھا ، میں نادارٹھہرا
اُس کا جوتا قیمتی تھا
راہ پتھریلی بھی تھی، پُر خار بھی تھی
ایک کانٹا میرے پاؤں میں چُبھا، بے حال ہو کر
درد سے میں گر گیا، کانٹا نکالا
بھائی نے پوچھا، مجھے کیا ہو گیا ہے
دیکھنے کو وہ جھکا تو پاؤں میں اِک اشرفی تھی
خوش ہوا وہ، ہاتھ میں لی، جیب میں ڈالی، تو بولا
کتنی اچھی ہے مری تقدیر، تیرے
پاؤں میں کانٹا نہ چبھتا، تو مجھے یہ اشرفی پھر کیسے ملتی؟‘‘

بُدھّ آنکھیں بند کر کے سُن رہے تھے

’’اے تتھا گت، میں بھلا مانس ہوں، مجھ کو
عین اس لمحے میں، بالکل اس جگہ پر
پاؤں میں کانٹے کا چبھنا کس بُرائی کی سزا تھی؟
اور میرے بھائی کا، جو بد قماش و بد چلن ہے
اشرفی پانا بھلا کس بات کا انعام ہے؟ … میں
آپ سے یہ جاننے کے واسطے حاضر ہوا ہوں!‘‘

بُدھّ آنکھیں کھول کر بولے،’’ سوالی
تیرا بھائی بد قماش و بد چلن ہے، مانتا ہوں
تو بھلا مانس ہے اور نادار بھی ہے، جانتا ہوں!‘‘

’’پھر ، تتھا گت؟‘‘

’’تیرے بھائی کا جنم بھی منسلک ہے
سینکڑوں جنموں کی کڑیوں سے جُڑی، صدیوں پرانی
ایک ہی زنجیر سے، جس کے تعلق سے وہ اپنا
یہ جنم بھی جی رہا ہے!
مانتے ہو؟‘‘

’’ہاں،، تتھا گت؟‘‘

’’فکر و قول و فعل کی کوئی بُرائی
اس جنم میں یا کسی پچھلے جنم میں کی گئی اچھائیوں کو
ختم کر دیتی ہے …..جیسے رنگ اک تصویر کے
آلائشوں کی گرد سے، ماحول کی آلودگی سے
ماند پڑ کر ختم ہو جاتے ہیں آخر
ہاں، عمل کی عمدگی سے تم اگر نیکی کرو تو
فکر و قول و فعل کی آلودگی، ساری برائی
اِس جنم کی، یا کسی پچھلے جنم کی صاف ہو جاتی ہے، جیسے
میلا کپڑا دھو دیا جاتا ہے … اور پھر نیک انساں
اک نیا چولا بدلتا ہے ….کوئی ایسا جنم، جو
سب گناہوں سے بری ہے، صاف ، پاکیزہ، نیا ہے!
اپنے بارے میں، سوالی، اور کیا کچھ جانتے ہو؟‘‘

’’کچھ نہیں، اے گیان داتا !‘‘
؂؂؂؂؂؂
’’پچھلے جنموں کے گناہوں کی سزا تم کو تمہارے اس جنم میں
ملنے والی تھی، سوالی
اور سولی پر لٹکنا بھی تری قسمت میں لکھا تھا، مگر …
تب اِس جنم میں تیری نیکی، تیری اچھائی نے سوُلی کی سزا کو
رفتہ رفتہ اک کانٹے میں بدل ڈالا گھٹا کر ….
دوسری جانب کا منظر دیدنی ہے
اِس جنم کا تیرا بد کردار بھائی
پچھلے جنموں میں بھلا مانس تھا، نیکی کا فرشتہ
اُس کو ملنا تھا دفینہ اُس جگہ پر
اک خزانہ اُس کی قسمت میں لکھا تھا
اپنی بد چلنی کے رستے پر رواں رہتے ہوئے وہ
دھیرے دھیرے سب خزانہ صا ف کرتا ہی رہا، حتےٰ کہ اُس دن
وہ دفینہ اک طلائی مُہر کی صورت میں اُس کے ہاتھ آیا
تیرا کانٹا ایک سُولی تھا، سوالی …اور اُس کی اشرفی، اُس کا خزینہ
اپنے حصے کا ثمر دونوں نے پایا۔

’’اے مہا مانو، تو گویا میری سولی کا نوشتہ مٹ گیا ہے اور میں ہمت سے اپنے
اُس جنم کی سمت بڑھ سکتا ہوں، جوآئے گا ….‘‘

’’ہاں ، تمہاری آنے والی زندگی پھر اک نئے چولے میں آئے گی
کہ اس پر پچھلے جنموں کا کوئی اچھا بر ا سنسکار حاوی ہو نہیں پائے گابالکل
اُس جنم کے اپنے کرموں پر تمہیں اگلے سبھی جنموں
کی اچھی یا بری عمروں کی مالا پھیرنی ہے۔‘‘

’’اور مرا بھائی ، تتھا گت؟‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

’’عین ایسی ہی دَشا اس کی بھی ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”دَشا” بمعنی “حالت”
لیکھا جوکھا اس کے پچھلے سارے کرموں کا مکمل ہو چکا ہے
اب نئی زنجیر کی کڑیوں کو
یعنی آنے والے ہر جنم کو بھوگنا ہے۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply