قدیم حویلی کا بوڑھا/علی عبداللہ

زمانے کی دھول سے اَٹی ہوئی کسی قدیم حویلی کی طرح، میری روح میں بھی کہانیوں اور تجربات کا ایک خزانہ موجود ہے، جیسے مٹی کی خوشبو ماضی کو سمیٹے رکھتی ہے، ویسے ہی میرے ماتھے کی جھریاں بیتے وقت کی حکایتوں کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بکھرے ہوئے بال، جیسے وقت کی ندی میں بہتے سال، ہر لہر پر ایک نیا عکس کھینچتے ہیں، زندگی کے بدلتے موسموں سے گزر کر میں نے دیکھا کہ محبت کی کلیاں کھلتی ہیں اور پھر بے رحم ہواؤں میں بکھر جاتی ہیں۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ دِلوں کو کیسے چیرا جاتا ہے، اور کس طرح وہ ٹکڑوں میں بکھر کر پھر سے جڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن میں نے یہ بھی جانا کہ ٹوٹنا خاتمہ نہیں، بلکہ نئی ابتدا ہے۔

کسی نے خوب کہا تھا، ” جیسے تنہائی، آدمی کو سماج سے بہتر رشتہ قائم کرنے کی بصیرت دے سکتی ہے،خاموشی، تکلم کے آداب سے واقف کرا سکتی ہے، موت کی سچائی، زندگی بسر کرنے کے بہتر ڈھنگ کا عرفان دے سکتی ہے، اسی طرح المیے سے مسرت مل سکتی ہے یا المیے میں مسرت اسی طرح ہو سکتی ہے، جیسے ہجر میں وصال یا وصال میں بھی ہجر، یہ سب تضاد ہے، مگر کیا کریں، انسانی زندگی میں ان تضادات سے قدم قدم پر سابقہ پڑتا ہے۔ آدمی کی مٹی میں کوئی ایک عنصر تھوڑی ہے۔”

وقت کبھی جاڑوں اور کبھی خزاں جیسا رہا، جس میں مجھے محبت کے جوبن اور جدائی کے کئی طوفانوں سے واسطہ پڑا، تضادات میں گِھرا ہوا میں، ایک کمزور آدمی، ان سے وہ کشید کرتا رہا جو ہر کوئی نہیں کر پاتا، میں نے جانا کہ ایک ٹوٹا ہوا دل، اختتام نہیں بلکہ نئے سفر کا آغاز ہوتا ہے، ایسا دل ایک زخم نہیں، بلکہ ایک سوال ہے جو اپنے وجود اور محبت کے مفہوم پر غور کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

وہ سمجھتے ہیں میں ٹوٹے دِلوں کا معالج ہوں۔۔  نہیں! مگر میں سفید بالوں والا بوڑھا، محبت بھلانے کا فن بھی سکھاتا ہوں اور محبت میں ڈوب جانے کی رمز بھی بتاتا ہوں، یہ محبت کی کیمیا گری نہیں ہے، یہ روحانی ہے، یہ عطا ہے، امید ہمیشہ کسی چمکتے ستارے کی مانند، رات سی سنسان تنہائی میں راستہ دکھاتی ہے، یقیناً ٹوٹنے کا ز خم   گہرا ہو سکتا ہے، لیکن اسے بھرنے کی صلاحیت سب میں موجود ہوتی ہے بس اسے پہچاننے اور محسوس کرنے کی ضرورت ہے، اُمید کی ڈور اس وقت کٹتی ہے جب ہم خود اسے چھوڑ دیتے ہیں، مگر یہ مت بھولیے کہ ہم اس سے کہیں زیادہ مضبوط اور محبت کے لائق ہیں جتنا ہم خیال کرتے ہیں۔

یہ سب کچھ میں اس لیے نہیں کہہ رہا کہ میں کوئی گُرو ہوں، طبیب ہوں یا پھر کوئی حکیم، بلکہ اس لیے کہ میں نے بھی ٹوٹنے کا کرب جھیلا ہے۔ ٹوٹ جانے کی تلخی نے مجھے بھی کمزور کیا ہے اور میں نے خود میں ان دراڑوں کو محسوس کیا ہے جن سے ہجر اور وصل جھانک تو سکتے تھے مگر داخل ہونا ممکن نہیں تھا۔

میں سفید بالوں والا بوڑھا، اس قدیم حویلی میں کسی ققنس کی مانند بار بار جنم لیتا ہوں کہ محبت کی تاثیر مستقل دیکھ پاؤں، ٹوٹنا رَد کروں اور جڑنا اختیار کروں، کیونکہ ہر کوئی ٹوٹنے  کو نیا آغاز نہیں سمجھ پاتا، وہ ان دراڑوں سے آنے والی نئی روشنی کی تاب نہیں لا پاتا، جانے وہ کیوں نہیں سمجھتا کہ،
“We are all a little cracked, and that’s how the light gets in.”

ان دراڑوں سے داخل ہونے والی روشنی من کے کئی در روشن کر سکتی ہے مگر ہمیں ان دراڑوں کو، بیتے لمحوں کے ماتم اور حسرتوں سے بھرنے کی عادت پڑ جاتی ہے، یوں وہ روشنی اس سیاہی میں کہیں کھو جاتی ہے اور ہم پکار اٹھتے ہیں،
“مازلت أُعاني من نوبات الحزن التي تأتيني بلا سبب أو موعد !

میں آج بھی ان اداسیوں سے دوچار ہوں جو بغیر کسی وجہ یا تاریخ کے مجھ پر آتے ہیں۔”

دل ٹوٹنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ زندگی ختم ہو گئی ہے۔ دل ٹوٹنا ایک موقع ہے، ایک نئے آغاز کا موقع،اپنے آپ کو دوبارہ تلاش کرنے، خود کو پہچاننے اور محبت کو دوبارہ کھوج لینے کا موقع۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں سفید بالوں والا بوڑھا اس قدیم حویلی میں موجود قدیم سچائیوں کا محافظ ہوں، کسی پرانے نسخے کے گرتے ہوئے صفحات کی مانند، میرے الفاظ صدیوں کا وزن اٹھائے ہوئے ہیں، بے یقینی کے سمندر میں بہتی اور غوطہ کھاتی روحوں کو میں یقین کے سر سبز و شاداب جزیروں پر لا کر انھیں پھر سے محبت پر آمادہ کرتا ہوں۔۔۔۔۔میں انھیں پھر سے زندہ کرتا ہوں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply