• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا تحریک عدم اعتماد دو جرنیلوں کا برین چائلڈ تھی؟/عامر حسینی

کیا تحریک عدم اعتماد دو جرنیلوں کا برین چائلڈ تھی؟/عامر حسینی

مولانا فضل الرحمان نے نجی ٹی وی چینل سما ء نیوز کو ایک انٹرویو دیا جس میں انھوں نے دعو یٰ کیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز اشفاق باوجوہ اور کورکمانڈر پشاور جنرل فیض کا منصوبہ تھا۔

ان کا دعویٰ  ہے کہ جنرل باوجوہ نے اس وقت کی متحدہ اپوزیشن کو جب مذاکرات کے لیے بلایا تھا تب اس ملاقات میں انھوں نے اپوزیشن جماعتوں کو تحریک عدم اعتماد لانے کو کہا تھا۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں بطور کورکمانڈر پشاور تعینات جنرل فیض نے انھیں بلاکر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کرنے کو کہا۔ لیکن وہ فوجی جرنیلوں کے کہنے پر عدم اعتماد لانے کے حق میں نہیں تھے لیکن انھیں یہ  بات اس لیے ماننا  پڑی کہ کہا جائے گا، مولانا عمران خان کا تحفظ کررہے ہیں ۔

مولانا فضل الرحمان کا یہ انٹرویو ایک ایسے موقع  پر نشر ہوا جب ان کی سب سے بڑی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز اور پی پی پی میں وفاق میں حکومت سازی کے لیے مذاکرات آخری مرحلے میں ہیں اور مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے ۔

یہ انٹرویو اس وقت آیا ہے جب مولانا ایک پریس کانفرنس کرکے یہ بتاچکے کہ انھیں الیکشن 2024 کے نتائج قبول نہیں ہیں ۔

ان کی جماعت کے لوگوں سے پی ٹی آئی کے وفد کی ملاقات کے موقع  پر انتخابی نتائج مسترد  کرکے احتجاجی تحریک چلانے کا عندیہ دیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان کے اس دعوے کی حقیقت کیا ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا منصوبہ سابق فوجی سربراہ اور سابق کورکمانڈر پشاور کا تھا اور یہ تجویز پی ڈی ایم و پی پی پی کے نمائندہ افراد کے سامنے پیش کی ۔

دو سابق جرنیلوں سے عمران دور کی اپوزیشن سے ملاقات کی تصدیق قمر زمان کائرہ نے کی ہے ۔
مگر وہ کہتے ہیں اس ملاقات میں اس وقت کی فوجی قیادت نے عمران کی حمایت سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔

اپوزیشن جماعتوں کے نمائندہ وفود کی سابق سربراہ مسلح افواج کے سربراہ سے پے در پے دو ملاقاتوں کا احوال میڈیا میں آیا تھا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب حکومت کے خلاف عدم اعتماد متحدہ اپوزیشن لانے کا اعلان کرچکی تھی ۔
پہلی ملاقات کا احوال حامد میر بتاتے ہیں ۔ ان کا دعوایٰ ہے کہ اس ملاقات میں باوجوہ نے اپوزیشن کو عدم اعتماد کی تحریک واپس لینے کو کہا تھا۔
قمر زمان کائرہ پہلی ملاقات کا احوال دیتے ہیں اور اس کی سب سے اہم بات باوجوہ کا 18 ویں ترمیم پر سخت ردعمل اور پی پی پی کو نتائج بھگتنے کی دھمکی تھی اور عدم اعتماد نہ کرنے پر دوبارہ انتخابات کی یقین دہانی تھی جسے آصف زرداری نے رد کردیا تھا۔

کائرہ کے مطابق دوسری ملاقات میں فوجی قیادت نے عمران خان کی حمایت سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔
مولانا فضل الرحمان کا دعوا اس لیے محل نظر ہے کیونکہ پی پی پی نے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد لانے کی تجویز 2019ء میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد تیسرے سربراہی اجلاس میں پیش کردی تھی۔ ان اجلاس میں اس بات پر غور و فکر ہورہا تھا کہ کیا کیا جائے جس سے عمران خان سے نجات ملے۔

مسلم لیگ نواز نے پی پی پی کی تجویز کے مقابلے میں اسمبلیوں اور سینٹ سے مستعفی ہوکر لانگ مارچ کے ذریعے اسلام آباد پہنچ کر دھرنے کے راستے عمران خان کی حکومت ختم کرنے کی تجویز دی ۔
پی پی پی کے نزدیک یہ سرے سے قابل عمل تجویز نہ تھی اور حقیقت سے کوسوں دور تھی ۔

ان دنوں پی پی پی کے حلقوں میں یہ بات گردش کررہی تھی کہ مسلم لیگ نواز پارلیمنٹ سے استعفوں اور دھرنے کا کارڈ کھیل کر نواز شریف سمیت مسلم لیگ نواز کی جملہ قیادت کے لیے ریلیف چاہتی ہے ۔ وہ بیک ڈور چینل سے فوجی قیادت سے رابطے میں تھی۔ نہ وہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کو تیار تھی اور نہ ہی دھرنے کو کامیابی سے اسلام آباد لیجانے کی خواہش مند تھی ۔

نواز لیگ کے اشارے پر مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کیا جس کا پی پی پی کے زیر حکومت سندھ میں جگہ جگہ فقید المثال استقبال ہوا لیکن پنجاب میں داخل ہوتے ہی لانگ مارچ ٹھس ہوگیا اور جیسے ہی لاہور پہنچا تو میاں نواز شریف کے پلیٹس لیٹ گرنے لگے اور وہ پہلے ہسپتال منتقل ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ لندن چلے گئے۔
بعد ازاں شہباز شریف، حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق سمیت سب مسلم لیگی رہنماؤں کو نیب سے رہائی بھی مل گئی ۔ اس ڈیل کے بعد نہ استعفے دیے گئے اور نہ ہی دھرنا ہوا۔

اس دوران بیک ڈور چینل سے شہباز شریف اور زبیر عمر کی باوجوہ سمیت فوجی اسٹبلشمنٹ سے ملاقاتیں جاری رہیں اور جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی نواز لیگ ، جے یو آئی۔ایف سمیت سب جماعتوں نے حامی بھر لی اور پی پی پی جس کی سی ای سی نے توسیع کی حمایت میں ووٹ نہ کرنے پر اتفاق کیا تھا اسے ووٹنگ والے دن قومی اسمبلی میں پی ڈی ایم کی قلابازی کا پتا چلا ۔
مولانا فضل الرحمان تحریک عدم اعتماد بارے جس سچ کو چھپا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ان کی زیر قیادت پی ڈی ایم اس وقت تک تحریک عدم اعتماد لانے پر تیار نہ ہوا جب تک اس میں شامل سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نواز اور خود مولانا فضل الرحمان کو فوج کے سربراہ نے یقین دہانی نہ کرا دی کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے دوران کسی رکن یا جماعت پر دباؤ نہیں ڈالیں گے کہ وہ عمران خان کا ساتھ نہ چھوڑیں ۔

پی پی پی کا موقف یہ ہے کہ اس نے اسٹبلشمنٹ سے تحریک عدم اعتماد کے دوران نیوٹرل رہنے کا مطالبہ کیا ۔ قومی اسمبلی کی حد تک تو اسٹبلشمنٹ نے نیوٹرل رہنے کے وعدے پر عمل کیا لیکن پنجاب کے باب میں ایسا نہ کیا اور چوہدری پرویز اللہی کا آن دا ریکارڈ بیان موجود ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ پنجاب میں اتحاد میں باوجوہ کے کہنے پر گئے تھے ۔

مولانا فضل الرحمان تحریک عدم اعتماد بارے سچ میں مبینہ جھوٹ کیوں شامل کررہے ہیں؟

اس کی ایک وجہ تو یہ سمجھ آتی ہے کہ انھیں حالیہ انتخابات میں اس بات سے شدید صدمہ ہوا ہے کہ جس مبینہ ڈیل سے مسلم لیگ نواز ، ایم کیو ایم ، اے پی پی نوازی گئیں اس ڈیل سے انھیں کے پی کے اور بلوچستان میں قومی اسمبلی کی سطح پر بھی فائدہ نہیں پہنچا۔

وہ زیرک اور جہاں دیدہ سیاست دان ہیں ۔ انھیں یہ اندازہ ہے کہ نہ تو اسٹبلشمنٹ اور نہ ہی امکانی کمزور مخلوط حکومت غیر یقینی پر مبنی سیاسی فضا اور ایجی ٹیشن کی متحمل ہوپائے گی اور نہ اس کے نتیجے میں پاکستان کی معشیت کا ڈوبتا جہاز کنارے لگ پائے گا۔

وہ اسٹبلشمنٹ اور مسلم لیگ نواز کی انتہائی کمزور پوزیشن کے اندر امکانات کا جہاں ڈھونڈ رہے ہیں اور اسی لیے ماضی میں ہوئے واقعات کو مسخ کررہے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ:تحریر میں بیان کردہ  خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ  ویب کا ان سے اتفاق  ضروری نہیں  اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply