گل مکئی(دوسرا حصہ)۔۔۔۔سجاد حیدر

اس کا کوئی بڑا مطالبہ نہیں, وہ صرف یہ کہتی ہے کہ مجھے پڑھنا ہے, مجھے تعلیم حاصل کرنی ہے, یہ آواز دنیا بھر میں گونجتی ہے. تب ہمارے حکومتی اداروں کو بھی ہوش آتا ہے, ہمارے دانشور بھی جاگتے ہیں. اس بچی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں, رائے عامہ ہموار ہوتی ہے. حکومت پر دباؤ بڑھتا ہے وہ مجبور ہو جاتی ہے کہ تذبذب کی کیفیت سے نکل کر فیصلہ کرے. 

ہم  پاکستانی ہر برائی کو قدرت کا فیصلہ سمجھ کر اس کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے عادی ہو چکے ہیں. رشوت ستانی ہو یا اقربا پروری, منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال ہو یا اسلحہ کی فراوانی، ہم صرف زبانی کلامی مذمت کے عادی ہیں. انفرادی یا عوامی سطح پر اس برائی کے خلاف جدوجہد کو اپنے معمولات سے الگ سمجھتے ہیں. نتیجتا ہمارا معاشرہ ایک ایسے جنگل کا روپ دھار چکا ہے کہ جہاں کوئی بھی طاقتور ہمیں اپنی لاٹھی سے ہانک سکتا ہے. جب برائی جڑ پکڑ رہی ہوتی ہے اس وقت ہم نے آنکھیں بند کی ہوتی ہیں لیکن جب ہمارے اجتماعی مفادات کو زک پہنچنے لگتی ہے تب ہم آہ و بکا شروع کرتے ہیں، اس کے خلاف جنگ پھر بھی نہیں کرتے. اسی بے حسی اور خود غرضانہ رویوں کی بدولت مذہبی انتہا پسندی پروان چڑھی. اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سارے گورکھ دھندے میں مغرب اور امریکہ کے سیاسی اور جنگی مقاصد کارفرما تھے اور امریکہ نے ہمیں ڈالرز کی چمک دکھا کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن اس میں ہمارے وہ دوست بھی شامل تھے جن کو ہم نے ان کی دستار فضیلت کی بنا پر تقدس کا درجہ دیا ہوا ہے. کئی دوستوں نے اپنی پراکسی وارز ہمارے آنگن میں لڑی , کامیابیاں انھوں نے سمیٹی اور ہمارے حصے میں صرف لاشے آئے ہیں. Bottom Line یہی ہے کہ ہم استعمال ہوئے اور نتیجتا ہمارا معاشرہ عدم برداشت, عدم رواداری اور جہالت کا ایک ملغوبہ بن گیا ہے. ایسے میں اگر کوئی آواز اٹھتی اور وہ بھی علم کے لیے, تعلیم کے لیے, پڑھنے کے لیے، تو ہمارے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ ہم یا تو سیاسی تقریریں سننے کے عادی ہیں یا مذہبی وعظ. ہمیں وعدے چاہییں خواہ وہ نالیاں اور سڑکیں بنانے کے ہوں یا حور و قصور کے ہوں. ہم ایسی کسی بھی آواز کے لیے کان بند کر لیتے ہیں جو جدوجہد کے ذریعے اس دنیا کو بدلنے کی بات کرے. معاشرے کو خوبصورت بنانے والی آواز اگر بلند ہو تو ہم کان بند کر لیتے ہیں. اس پکار کو نہ صرف رد کر دیتے ہیں بلکہ اس کا مضحکہ بھی اڑاتے ہیں. اور بات اگر تعلیم کی ہو تو تعلیم ہماری ترجیحات میں آخری درجہ پر بھی نہیں, کہ ہم ترقی کی معراج چمکتی دمکتی گاڑیاں, بھری پری دکانیں اور سنگ و آہن سے بنی شاہراہوں کو سمجھتے ہیں. ہم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ دنیا میں ترقی کے معیارات یہ نہیں بلکہ دنیا کسی ملک کی قابلیت اور ترقی کا اندازہ وہاں کی شرح خواندگی کو دیکھ کر لگاتی ہے. دنیا یہ دیکھتی ہے کہ عوام کو صحت کی سہولیات کس درجہ کی میسر ہے، اور ہمارا معیار ترقی یہ ہے کہ انڈیا بھی ہمارے آس پاس ہے. اب اگر اس سوچ کے ساتھ ہم مغرب کے معیارات کا مطالعہ کرتے ہیں تو سب کچھ عجیب لگتا ہے. ان کا جمہوری استحکام ان کے معیار تعلیم سے نمو پکڑتا ہے. ان کا معاشی استحکام ان کی یونیورسٹیوں اور فنی اداروں کی بدولت ہے. ہنرمند اور تعلیم یافتہ افراد کی بڑی تعداد ہر سال وہاں سے نکلتی ہے اور اپنے خیالات اور تصورات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے. مغرب کی نظر میں ہماری پسماندگی اور غربت کی وجہ جہالت ہے جب کہ ہم اس کا ذمہ دار مغرب کے استحصالی ہتھکنڈوں کو گردانتے ہیں.

مغرب کے ذہن میں ہمارا جو تصور ہے اس تصور کے ساتھ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ایسے معاشرے سے ایک بے سروساماں نوعمر لڑکی جس کے پاس کوئی وسائل نہیں، جس کے شہر میں ہر وقت مسلح جھتے کلاشنکوفیں لہراتے پھر رہے ہیں, ریاست کے اندر ریاست قائم ہے، دہشت گردوں کے ڈر سے بڑے بڑے جغادری لیڈر علاقہ کیا ملک چھوڑ جاتے ہیں، لوگ ہجرت کر رہے ہیں، نہ کسی کی جان محفوظ ہے نہ کسی کا مال و عزت، قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے اپنے محفوظ علاقوں کی سلامتی کو ہی پورے ملک کی سلامتی تصور کیے بیٹھے ہیں. حالت یہ ہے کہ دہشت گرد ریڈیو نشریات کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر فوج اور حکومت سمیت سب کو للکارتے اور لوگوں کو بغاوت پر اکساتے ہیں. لاشیں چوکوں میں لٹکائی جاتی ہیں اور کسی کی ہمت نہیں کہ ان کو دفنا سکیں. ایسے میں ایک نہتھی لڑکی اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتی ہے لیکن یہ لڑائی وہ صرف اپنی ذات کے لیے نہیں لڑ رہی بلکہ پوری قوم کی بچیوں کے لیے لڑ رہی ہے.  

اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ جنگ پوری قوم کی جنگ ہے جس کا علم ایک اکیلی لڑکی نے اٹھایا ہوا ہے. وہ کوئی سیاسی نعرہ لے کر سامنے نہیں آتی, نہ اس کا تعلق کسی معروف سیاسی جماعت سے ہے نہ کسی سیاسی خانوادے سے. وہ ایک بے بضاعت استاد کی بیٹی ہے جس کے خاندان والے دور شانگلہ کی پہاڑیوں کے باسی ہیں، جس کا دادا ایک گاؤں کی مسجد کا امام ہے. نہ کوئی ہائی فائی سماجی پس منظر نہ کسی رئیس خاندان کی پشت پناہی. جس عمر میں لڑکیاں گڑیوں سے کھیلتی ہیں. اس عمر میں وہ بچی ایک آدرش کے لیے آواز بلند کرتی ہے کہ مجھے پڑھنا ہے. مجھے تعلیم حاصل کرنی ہے. اور پھر جب اس پر حملہ ہوتا ہے اور بندوق بردار پوچھتا ہے تم میں سے ملالہ کون ہے، تو وہ بغیر کسی توقف کے کہتی ہے.. میں ہوں ملالہ… وہ سر میں گولی کھا کر یہ ثابت کرتی ہے کہ اس کی جدوجہد سچی ہے. اب اگر مغرب اس کو سر پر بٹھاتا ہے تو کیا غلط کرتا ہے؟ 

ہم جو اپنے علاقے کے کسی غنڈے منشیات فروش کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیا یہ سوال کرنا ہمیں زیب دیتا ہے کہ ملالہ نے کون سا کارنامہ سرانجام دیا ہے؟ نوبل پرائز اکیلی ملالہ کو نہیں ملا تھا بلکہ اس کے ساتھ کیلاش سیتھارتی بھی انعام میں شامل تھا, اس کی جدوجہد بھی بے نوا اور بے کس بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے. وہاں تو کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ آخر کیلاش نے کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے.

کہیں اس ساری مخالفت کے پیچھے حسد کا جذبہ تو کارفرما نہیں؟؟؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply