غیرت بریگیڈ سے معذرت کے ساتھ۔۔عامر عثمان عادل

اس برس یوم ِ آزادی پہ گریٹر اقبال پارک میں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔
رپورٹ کے مطابق ایک دوشیزہ جو وہاں اپنے دوستوں کے ہمراہ ویڈیو بنانے گئی تھیں، ان پر ہجوم ٹوٹ پڑا، اقرار الحسن اور یاسر شامی کو تفصیل بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لوگوں نے ان کا لباس تار تار کردیا اور مسلسل اڑھائی  گھنٹے انہیں نوچتے رہے۔

بظاہر یہ واقعہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے یوں اجتماعی طور پر ایک عوامی مقام پر اس طرح ایک نہتی عورت پر یوں بھیڑیوں کی مانند جھپٹ پڑنا افسوسناک بھی ہے اور شرمناک بھی۔

اب کیا ہے کہ غیرت بریگیڈ اپنی توپوں کو ٹاکی شاکی مار کر میدان میں کود پڑا اور شروع ہو گئے پاکستان کو بُرا بھلا کہنا۔

یہاں عزتیں محفوظ نہیں جی کیا آزادی اس لئے لی گئی تھی اقرار الحسن نے تو شدت جذبات سے شکر ادا کیا کہ ان کی کوئی  بیٹی نہیں
ہم ایک جذباتی قوم واقع ہوئے ہیں اور جذبات کے سیلاب میں اس طرح بہہ جاتے ہیں کہ بس۔۔

آئیے کچھ سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہیں
1۔ آخر یہ واقعہ عین یوم آزادی کو کیوں پیش آیا
2۔ گریٹر اقبال پارک ہی کیوں ؟
کیا لاہور کے دیگر پارکس میں اس روز کوئی  رش نہیں تھا
کہیں یہ ایک تیر سے کئی شکار کرنے کا مکروہ کھیل تو نہیں کھیلا گیا ؟
لڑکی پر حملہ بھی ہو گیا اور میرا پاکستان طعنوں کی زد میں آ گیا اور وہ بھی عین اس کی یوم آزادی پہ
کیا لڑکی اکیلی تھی ؟
سوال یہ بھی ہے کہ کیا لڑکی اکیلی تھی ؟ کسی بیابان سنسان جگہ سے گزر  رہی تھی؟ رات کا عالم تھا؟
خود لڑکی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے 7 دوستوں کے ہمراہ وہاں ویڈیو بنانے گئی تھی یاد رہے یہ ٹک ٹاکر بھی ہیں

اب اگلا سوال
ان دوستوں نے کیوں نہیں بچایا اسے یہ کیسے غیرت مند تھے کیوں نہ ڈھال بن گئے کیوں اسے اپنے حصار میں نہ لے لیا ؟ مر جاتے مگر اسے کوئی  ہاتھ نہ لگا پاتا ،کیا یہ مرد کہلائے جانے کے لائق ہیں؟

موقع کی ایک ویڈیو
ٹویٹر پر ایک ویڈیو وائرل ہے جو غالبا یہ ناخوشگوار واقعہ پیش آنے سے پہلے کی ہے
جس میں ایک لڑکے نے محترمہ کو بانہوں کے حصار میں لے رکھا ہے

ہجوم کیوں ٹوٹ پڑا؟
منطقی سوال ہے کہ ایف آئی  آر کے مطابق 400 سے زیادہ افراد اس درندگی میں ملوث تھے تو آخر کیوں ؟ یہ نوبت کیوں پیش آئی ؟
آج تک ہم نے کبھی ایسا گھناؤنا واقعہ نہ دیکھا نہ سنا جس میں اتنے بڑے ہجوم نے یوں ایک پارک میں حیوانیت کا مظاہرہ کیا ہو
مانا کہ ہمارے معاشرے میں بگاڑ ہے صورتحال مثالی نہیں
راہ چلتی خواتین پر آوازے کسنا بازاروں اور پبلک ٹرانسپورٹ پہ جنسی ہراسگی یہ سب عام ہے مگر ایسے واقعات اکا دکا ہوتے ہیں کبھی یہ نہیں ہوا کہ ہزاروں افراد ایک عورت پر یوں جھپٹ پڑیں
محترمہ نے شامی اور اقرار کو متعدد بار یہ کہا کہ میرے جسم پر کوئی  کپڑا رہنے نہ دیا گیا، بس اس سے آگے کچھ سننے کا حوصلہ نہیں ہوتا، ہجوم جب آپے سے باہر ہوتا ہے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن یقین نہیں آتا کہ لوگوں نے یوں پبلک مقام پر ایک لڑکی کو بے لباس ہی کر  ڈالا ہو۔

ٹک ٹاکرز کا خیال
کچھ حلقوں کا یہ گمان ہے کہ جو ہجوم بتایا جا رہا ہے وہ ممکنہ طور پر حادثے کا شکار ہونے والی لڑکی کے فالوورز ہو سکتے ہیں جنہیں شاید Meet up کے طور پر وہاں خود بلایا گیا ہو اور یہ بات بھی گمان سے باہر نہیں کہ وہ فالوورز ہی خود پہ قابو نہ رکھ پائے ہوں اور آپے سے باہر ہو گئے ہوں

محترمہ کا بیان کہ وہ ان کو پہچانتی ہیں
اقرار اور شامی کو انٹرویو کے دوران محترمہ کا کہنا تھا کہ وہ ان لوگوں کو پہچان سکتی ہیں غور طلب ہے

ابھی کچھ دیر پہلے محترمہ کو کسی ٹک ٹاکر نے ویڈیو پر لائیو لے رکھا تھا اور ان کے تاثرات لیتے ہوئے پاکستان کو خوب سنا رہا تھا
یہ کیوں ہوا کہ اقرار اور شامی کے ریسکیو مشن کے بعد راتوں رات ان دونوں کی ریٹنگ بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی اور محترمہ اس وقت خبروں کا مرکز ہیں

حاصل بحث
ہمارے لئے یہ بیٹی بہن انتہائی  قابلِ  احترام ہے ان کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا خدا کرے وہ کسی دشمن کی بیٹی کے ساتھ بھی نہ ہو اگر یہ واقعی ایسا ہی ہے جیسے رپورٹ کیا گیا تو پھر یہ ہمارے لئے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہے اور خطرے کی گھنٹی بھی کہ ہمارا سماج کس موڑ پہ آن پہنچا جہاں سر عام بنت حوا کی عزت کا دامن ایک دو نہیں سینکڑوں درندے تار تار کر دیتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

حکومت اور عدلیہ سے مطالبہ
اداروں سے اپیل ہے کہ اس معاملے کو سنجیدہ لیا جائے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے جو اس سنگین واقعے کا باریک بینی سے جائزہ لے کر تمام حقائق سامنے لائے بے رحمی سے تمام پہلوؤں پر تفتیش کی جائے
ان کے ٹک ٹاک اکاونٹ کا فرانزک کرایا جائے اس واقعے سے پہلے کے سٹیٹس چیک کئے جائیں
محترمہ کے ٹک ٹاک فالوورز کو پوچھ گچھ کے لئے بلوایا جائے
اور غیرت برگیڈ سے عرض ہے کہ ذرا سانس لیجئے
اس واقعے کی انکوائری ہو جانے دیں پھر اپنے ہی وطن کو گالی دے لیجیے  گا!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply