• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بیداری ملت – آٹھویں قسط،مولف/ علامہ نائینی، مترجم / اعجاز نقوی

بیداری ملت – آٹھویں قسط،مولف/ علامہ نائینی، مترجم / اعجاز نقوی

دوسرا باب :
اس باب میں حکومت کی حقیقت پر بحث ہوگی۔ اور یہ بحث دو فصلوں پر مشتمل ہے۔
فصل اول: پہلی فصل میں اس بات کا بیان ہوگا کہ تمام ادیان و مذاہب کی رو سے حکومت کا مقصد نوع انسانی کے سماجی مسائل کو حل کرنا ہے۔ لہٰذا اس کے اختیارات انہی مسائل میں محدود و منحصر ہیں۔
دوسری فصل میں اس بات کا بیان ہوگا کہ اختیارات کی محدودیت کی وجہ کیا ہے اور ان کی حدود کیا ہیں؟
پہلی فصل :
جیسا کہ ہم نے پہلے باب میں بیان کیا کہ حکومت و ریاست کا آغاز، اس کے اداروں کا قیام اور ٹیکس کی وصولی کا نظام صرف اس لئے بنایا گیا تاکہ ملک و قوم کے امور کو منظم رکھا جاسکے۔ جیسے ایک گڈریا اپنے ریوڑ کی حفاظت کرتا ہے ایسے ہی حاکم کا کام ملک کی حفاظت اور عوام کی تربیت ہے۔
اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ چند بھیڑیا صفت افراد ملت پر مسلط ہو جائیں اور اپنی خواہشات پوری کرنے کے لئے ساری ملت کو اپنا غلام بنا لیں۔
ہر مذہب میں حکومت و ریاست قائم کرنے کا مقصد یہی بتایا گیا ہے۔ حاکم – چاہے برحق ہو چاہے غاصب – اپنی ملت کا امین ہے۔ اور حکومتی وظائف کی بجا آوری دراصل ایک طرح کی امانت ہے جو ملت نے اپنے حاکم کو سپرد کررکھی ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی وقف شدہ زمین یا ادارے کے نظام کو چلانے کے لئے متولّی کو اختیارات دئیے جاتے ہیں۔ حاکم بھی ایک طرح کا متولّی ہے۔ جس کا کام حقداروں کے درمیان تنازعات کا تصفیہ کروانا اور حقدار کو اس کا حق دلوانا ہے۔ لہذا حاکِم، متولّی ہے۔ وہ ملک و ملت کا مالک نہیں کہ بندگان خدا پر اپنی مرضی مسلط کرتا پھرے۔
یہی وجہ ہے کہ آئمہ اہل بیت(ع) اور علمائے اسلام کی زبان میں حاکم کو ولی، والی اور راعی (1) کے عناوین سے یاد کیا گیا ہے۔ اور ملت کو بھی رعیت کا عنوان دیا گیا ہے۔
بنابرین حکومت صرف اور صرف معاشرے کے نظم و نسق اور ملک کی حفاظت کے لیے ہے۔ اور یہ گلہ بانی کی طرح کی چیز ہے۔
اورچونکہ مالک حقیقی صرف خدا کی ذات ہے، صرف اسی کی ولایت ذاتی ہے۔ وہی انسانوں میں سے جس کو چاہے ولایت عطا کرتا ہے۔ اس بحث کی تفصیل علم کلام میں امامت کی بحث کے ذیل میں کی جاتی ہے۔ ( یہاں ہم زیادہ تفصیل میں نہیں جائیں گے)۔
اور یہ تو آپ جان چکے ہیں کہ آمرانہ نظام حکومت میں حاکم اپنی من مانی کرتا ہے اور ملت کو اپنا غلام سمجھتا ہے۔ اس لئے یہ نہ صرف ظلم و طغیان ہے بلکہ یہ پروردگارِ عالم کی ردائے کبریائی کو غصب کرنے کے برابر ہے۔ نیز یہ انبیاء کے مقاصد کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے ممکن نہیں کہ گزشتہ ادیان آمریت کے شجرہ خبیثہ کے حوالے سے خاموش رہے ہوں اور اسے ختم کرنا ضروری نہ سمجھا ہو۔
قرآن مجید میں قومِ سبا کا قصہ بیان کرتے ہوئے ایک آیت میں بتایا گیا ہے کہ ملکہ سبا اپنی قوم کے مشورے سے فیصلے کرتی تھی۔
“قَالَتۡ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَؤُا اَفۡتُوۡنِیۡ فِیۡۤ اَمۡرِیۡ ۚ مَا کُنۡتُ قَاطِعَۃً اَمۡرًا حَتّٰی تَشۡہَدُوۡنِ۔ (2)
ترجمہ:
“ملکہ نے کہا: اے اہل دربار! میرے اس معاملے میں مجھے رائے دو، میں تمہاری غیر موجودگی میں کسی معاملے کا فیصلہ نہیں کیا کرتی۔ (ترجمہ از شیخ محسن علی نجفی)
ملکہ سبا کا یہ کہنا ظاہر کرتا ہے کہ اگرچہ اس کی قوم سورج کی پوجا کرنے والی ایک مشرک قوم تھی لیکن اس کے باوجود ان کی حکومت آمرانہ نہیں تھی بلکہ شورائی حکومت تھی۔
اسی طرح قرآن مجید کی سورہ طہ میں قوم فرعون کے متعلق ارشاد ہوا ہے کہ
فَتَنَازَعُوۡۤا اَمۡرَہُمۡ بَیۡنَہُمۡ وَ اَسَرُّوا النَّجۡوٰی
ترجمہ: پھر انہوں نے اپنے معاملے میں آپس میں اختلاف کیا اور (باہمی) مشورے کو خفیہ رکھا “۔ ( ترجمہ از شیخ محسن علی نجفی)
یعنی جب فرعون کی قوم کے سامنے حضرت موسی(ع) اور حضرت ہارون(ع) نے اپنا پیغام پیش کیا تو اس وقت فرعون کے درباریوں میں اختلاف پیدا ہوگیا اور وہ آپس میں خفیہ طور پر مشورہ کرنے لگے۔ حالانکہ فرعون خدائی کا دعوی رکھتا تھا لیکن اپنی قوم پر اپنا فیصلہ مسلط نہیں کرتا تھا۔ بلکہ اس کی حکومت شوارئی تھی۔ اور وہ بزرگانِ قوم سے مشورہ ضرور کرتا تھا۔
جبکہ بنی اسرائیل کے ساتھ اس کا رویہ آمرانہ و مالکانہ تھا۔ اس نے بنی اسرائیل کو اپنا غلام سمجھ رکھا تھا۔ جیسا کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے۔
اِنَّ فِرۡعَوۡنَ عَلَا فِی الۡاَرۡضِ وَ جَعَلَ اَہۡلَہَا شِیَعًا یَّسۡتَضۡعِفُ طَآئِفَۃً مِّنۡہُمۡ یُذَبِّحُ اَبۡنَآءَہُمۡ وَ یَسۡتَحۡیٖ نِسَآءَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ۔
ترجمہ: فرعون نے زمین میں سر اٹھا رکھا تھا اور اس کے باسیوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا، ان میں سے ایک گروہ کو اس نے بے بس کر رکھا تھا۔ وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا اور ان کی بیٹیوں کو زندہ چھوڑتا تھا اور وہ یقینا فسادیوں میں سے تھا۔ (ترجمہ از شیج محسن علی نجفی)۔
(اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کا رویہ اپنی قوم کے ساتھ ایسا نہیں جیسا بنی اسرائیل کے ساتھ تھا۔ بنی اسرائیل کو تو اس نے غلامی میں رکھا ہوا تھا)
برطانوی حکومت کا رویہ ہی دیکھ لیجئے۔ چونکہ برطانوی عوام بیدار اور اپنے حقوق سے آگاہ ہیں اس لئے اپنے ملک میں ان کی حکومت بھی شورائی و جمہوری ہے۔ (3) انکے حکمران اپنی عوام کو جواب دہ بھی ہیں۔ لیکن یہی حکومت برصغیر یا دوسرے مسلم ممالک کےلئے آمرانہ حکومت ہے۔ (4)
اس لئے کہ برٹش راج ہندوستان اور دیگر مقبوضات کی عوام کو اپنا غلام سمجھتا ہے۔
دوسری طرف ان ملکوں کی عوام بھی خواب غفلت کا شکار ہے۔ وہ اپنے حقوق سے واقف ہی نہیں۔ اسی وجہ سے برطانوی حکومت کا رویہ ان ممالک کے ساتھ آمرانہ و مالکانہ رویہ ہے۔
بہرحال نہ صرف اسلام بلکہ تمام ادیان میں حکومت صرف ایک امانت ہے۔ جو صرف نوع انسانی کے مشترک حقوق پر ولایت رکھتی ہے۔ اور اس میں حاکم کو کوئی خصوصی مراعات میسر نہیں۔
اور شورائی حکومت کو آمریت میں تبدیل ہونے سے روکنا نہ صرف دین اسلام بلکہ تمام ادیان کی ضروریات (5) میں سے ہے۔
اور یہ بھی واضحات میں سے ہے کہ پچھلے زمانوں کے حاکم ہوں یا موجودہ دور کے حاکم، ان کا آمرانہ رویہ اور حکومت میں من مانی کرنا دین میں طغیان (6) کا نتیجہ ہے۔
وہ حدیث نبوی – جو پہلے نقل کی جاچکی ہے – جس کو امت کے تمام فرقوں نے نقل کیا ہے اور اس بنا پر متواتر ہے اور اخبار غیبی میں شمار ہوتی ہے۔ اس سےبھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلامی حکومت ایک شورائی حکومت تھی جس کو بنو عاص نے آمریت میں تبدیل کردیا تھا۔
فصل دوم:

Advertisements
julia rana solicitors london

گزشتہ صفحات سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ شیعہ امامیہ کا حکومت کے متعلق نکتہ نظر یہ ہے کہ امت پر حکمرانی کا حقیقی حق صرف امام معصوم(ع) کو حاصل ہے۔
لہذا غیر معصوم حکمران صرف ایک متولّی ہے۔ جس کے اختیارات محدود ہیں۔
اب ہم اہل سنت کے اصول کے مطابق بات کرتے ہیں۔
اہل سنت کے نزدیک نہ تو حاکم کو خدا نصب کرتا ہے اور نہ ہی حاکم کا معصوم عن الخطا ہونا ضروری ہے۔ بلکہ اہل حل و عقد (7) کی بیعت سے حکومت کا جواز فراہم ہوتا ہے۔ اگرچہ شیعہ امامیہ جیسی سخت شرائط ان کے ہاں نہیں لیکن اہل سنت کے نزدیک بھی بیعت کے انعقاد کے لئے ضروری ہے کہ حاکم قرآن وسنت اور سیرت نبی اکرم (ص) سے تجاوز نہ کرے۔ قرآن وسنت سے ذرہ بھر تجاوز منصب حاکمیت کے خلاف ہے اور ایسے حاکم کو تجاوز سے روکنا ضروری ہوجاتا ہے۔
بنابراین اگر حاکم کے معصوم عن الخطاء اور منصوص من الله والی شرط – جو شیعہ کا مخصوص نظریہ ہے – کو الگ کرکے دیکھا جائے تو کم از کم اتنی بات فریقین میں متفق علیہ بلکہ پوری امت کے لئے مسلّم اور ضروریات دین میں سے ہے کہ حکومت کو حدودوقیود کا پابند ہونا چاہئے۔
اور یہ کہ حاکم کو آمرانہ روش اور من مانی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اور بشری طاقت کو دیکھتے ہوئے حکومت کو آئین کا پابند کرنا ممکن بھی ہے۔
لہذا یہ ضروری ہے کہ ہر ممکن طریقہ بروئے کار لا کر حکمرانوں کی من مانی کو روکا جائے۔ اور آمریت کا آئین کا پابند بنایا جائے۔
یہ ایسی بات ہے جس کا انکار کوئی کوئی بھی ایسا شخص نہیں کرسکتا جو مسلمان ہو اور شہادتین کا اقرار کرتا ہو ۔بلکہ جو انکار کرے گا وہ دین اسلام سے خارج ہوجائے گا۔
جاری ہے۔
حواشی و حوالے:
1: عرض مترجم:
راعی کا لغوی معنی چرانے والا یا گڈریا ہے۔ قدیم سیاسیات میں عوام کو رعیت اور بادشاہ کو راعی کہا جاتا تھا۔
مترجم کا خیال ہے کہ اگر مولف راعی اور رعیت کے لفظ سے اجتناب کرتے تو بہتر تھا۔ کیونکہ اس سے لوگوں کو مغالطہ ہوسکتا ہے۔
کیونکہ رعیت کے لفظ سے ملکیت کا شائبہ ہوتا ہے۔
اسی لئے جدید سیاسیات میں حاکم، ملک کا نوکر یا ملازم ہے۔ اوروہ شہریوں کے برابر حقوق رکھتا ہے۔ ان سے زیادہ نہیں۔
2: سورہ نمل آیت 32۔
3: برطانیہ میں اگرچہ شاہی سلسلہ موجود ہے۔ لیکن بادشاہ/ ملکہ کے اختیارات محدود ہیں۔اور اس کا کام جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کے فیصلوں کی تائید کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کو آئینی بادشاہت
Royal constitutional government
یا
Constitutional Monarchy
کہا جاتا ہے۔ فارسی ادبیات میں اس کو حکومت مشروطہ کہا جاتا ہے۔ بیسیویں صدی کے اوائل میں ایران میں جو تحریک چلی اسے مشروطیت کی تحریک کہا جاتا ہے۔ اس تحریک کا مقصد پارلیمنٹ قائم کرکے بادشاہ کو آئین اور پارلیمنٹ کے فیصلوں کا پابند بنانا تھا۔ اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے ہم نے “آئینی جمہوریت” کی اصطلاح اختیار کی ہے۔
4: عرض مترجم:
علامہ نائینی نے یہاں کولونیل دور کی برطانوی حکومت کی دہری پالیسی کی طرف خوبصورتی سے اشارہ کردیا ہے۔
صرف برطانیہ ہی نہیں دیگر سامراجی ممالک کی بھی یہ پالیسی تھی کہ وہ اپنے ملک میں جمہوری اصولوں کی پابندی کرتے لیکن اپنے مقبوضات کو آمرانہ روش سے چلاتے تھے۔ اور اپنی کالونیز کی عوام کو کبھی اپنے مقدر کے فیصلے خود نہیں کرنے دیتے تھے۔ آج کے پوسٹ کولونیل دور میں بھی سامراجی ممالک اپنے ملک میں جمہوریت پر کاربند اور جمہوری اصولوں کے پابند ہیں۔ جبکہ تیسری دنیا کے ممالک میں آمریت کو پشت پناہی فراہم کی جاتی ہے۔
5: عرض مترجم: دینیات میں ایک اصطلاح “ضروریاتِ دین” کے نام سے رائج ہے۔ ضروریات دین کا مطلب وہ دینی اصول ہیں جن کا اقرار ہر متدین کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ اور اس کا انکار دین سے اخراج کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
علامہ نائینی کے نزدیک دین کی شورائی حکومت کو آمریت میں تبدیل ہونے سے روکنا بھی ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ جس کا انکار دین سے خارج کردیتا ہے۔
6: عرض مترجم: دین میں طغیان کرنا یعنی دینی دستورات کی نافرمانی کرنا۔ دینی احکام کو پس ڈال دینا۔ طاغوت ایسے حاکم کو کہا جاتا ہے جو سرکشی کرے اور دینی دستورات سے لاپرواہی کرتے ہوئے اپنی ذاتی خواہشات کو ترجیح دے ۔
علامہ راغب اصفہانی نے لکھا ہے کہ طاغوت ،تجاوز وسرکشی کرنے والے کو کہتے ہیں۔نیز جھوٹے و باطل خداوں کو بھی طاغوت کہا جاتا ہے۔(مفردات القرآن، جلد 1 صفحہ 520)۔
7: عرض مترجم:
اہل سنت کے علم کلام اور علمِ اصولِ فقہ کی ایک اصطلاح “اہل حل و عقد ” ہے۔ ملت کے وہ افراد جو صاحب علم وصاحب رائے ہوں اور اپنی ملت پر اثر انداز ہوسکتے ہوں ان کو “اہل حل و عقد” کہا جاتا ہے۔ امام فخر رازی نے لکھا ہے کہ اہل حل و عقد سے مراد وہ لوگ ہیں جو احکام شرعی میں مجتہد ہوں۔ (المحصول فی علم الاصول، جلد 4، صفحہ 20)۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply