یہ بابے کبوتر کیوں نکالتے ہیں ؟-ترتیب و اضافہ/سلیم زمان خان

جب کسی اللہ والے کو کسی بندے کو راہ ہدایت پر اللہ کے حکم سے چلانے کا حکم ملتا ہے تو وہ اس بندے کے کسی باطنی نقص یا باطنی پریشانی کا کھوج اس بزرگ کو عطا کرتے ہیں، جس سے طالب ِراہ ہدایت کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے کہ جو بات ،پریشانی، اچھائی یا برائی اس کے اور خدا کے بیچ تھی ،اس بات کا کسی اجنبی کا جان جانا دونوں کے باہمی ربط اور تعلق کو مضبوط کرتا ہے اور راہ ہدایت کا طالب ایسے بابے یا استاد کی بات سمجھنے اور عمل کرنے میں آسانی محسوس کرتا ہے۔۔ لیکن ایسا ہی علم شیطانی بابے کے پاس بھی ہوتا ہے جو شیطان کا چیلہ ہوتا ہے اور بھٹکانے آتا ہے۔۔جس طرح کسی زمانے میں اسکولوں میں جادو شو ہوا کرتا تھا اور جادو گر کا سب سے اہم جادو ٹوپی میں سے کبوتر نکالنا ہوا کرتا تھا۔۔ اسی طرح میں کسی بزرگ کے خَرْقِ عادَت(عادت اور قانون قدرت کے خلاف کسی ولی سے کسی بات کا ظاہر ہونا ) کو کبوتر نکالنا کہتا ہوں۔۔

اس کی پرکھ یا کسوٹی صرف اور صرف سنت رسول کریمﷺ پر اس بندے یا کبوتر نکالنے والے بابے کا عمل ہی ہے۔۔ جتنا وہ سنت کے رنگ میں رنگا ہو گا وہ اتنا ہی خالص ہو گا۔
ذیل میں دو واقعات بطور مثال پیش ہیں۔۔

● جب مولانا روم قاضی القضا یعنی چیف جسٹس تھے تو مولانا صحن میں تالاب کے کنارے بیٹھ کر اپنی کتابوں کا معائنہ کر رہے تھے، تو شمس تبریز وہاں آئے اور انہوں نے پوچھا “یہ کیا ہے؟ ” جواب دیا، یہ میری زندگی کا کل اثاثہ ہے، میں نے جو پڑھا، سیکھا اور جو محسوس کیا ان میں لکھ دیا”۔
شمس تبریز نے وہ ساری کتابیں تالاب میں پھینک دیں، شاہ شمس تبریز نے کتابیں تالاب میں پھینکنے کے بعد پوچھا “آپ کے پاس اب کیا بچا؟ ” مولانا روم نے غصے سے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا “میرے پاس اب کچھ بھی نہیں بچا، تم نے میری عمر بھر کی کمائی برباد کر دی” شمس تبریز مسکرائے، تالاب میں ہاتھ ڈالا، ایک کتاب نکالی، جھاڑی اور مولانا کے ہاتھ میں دے دی، مولانا نے کتاب کھول کر دیکھی، وہ خشک اور اصل حالت میں تھی، وہ حیرت سے اجنبی کی طرف دیکھنے لگے، بغداد کا درویش اس کے بعد تالاب میں ہاتھ ڈالتا رہا، کتابیں نکالتا رہا اور جھاڑ کر مولانا روم کو پکڑاتا رہا، مولانا نے آخر میں نوجوان درویش سے پوچھا “تم کون ہو اور تم نے یہ فن کہاں سے سیکھا؟ ” نوجوان نے اپنی شہادت کی انگلی دل پر رکھی اور ہنس کر جواب دیا “میں مسافر ہوں اور میں نے یہ فن دل سے سیکھا”۔

● اسی طرح پچھلی صدی میں ایک انگلستانی
Farooq Ahmed Leonard Englistani

لینارڈ انگلستانی 28 فروری 1913 عیسوی کو انگلستان میں پیدا ہوئے ماہ ستمبر 1936 عیسوی میں انہوں نے اسلام قبول کیا اور مبلغینِ ہند کے ساتھ ہندوستان آگئے آپکا اسلامی نام فاروق احمد رکھا گیا فاروق احمد لنیارڈ نے اسلام قبول کرنے کے بعد مبلغینِ ہند سے سوال کیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا (کتاب اللہ کا علم رکھنے والے) امتی پلک جھپکنے سے قبل میلوں دور سے تخت بلقیس کس طرح لے آیا مبلغینِ ہند اولیاءاللہ کی کرامات کے قائل نہیں تھے اسلئے اسے مطمئن نہ کر سکے ۔ایک روز تبلیغی دورے پہ جاتے ہوئے نو مسلم فاروق احمد کی نظر داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مزار پر پڑی اور وہ رک کر مزار پہ جانے لگے تو مبلغینِ ہند نے آپ کو روکنے کی بہت کوشش کی کہ یہاں پہ خرافات شرک ہوتا ہے، فاروق احمد نے مبلغینِ سے کہا کہ کفر میں تو مَیں بھی رہا ہوں اور کفر کی بدبو کو بخوبی پہچانتا ہوں مگر یہاں سے خوشبوئیں آرہی ہیں داتا دربار کے گیٹ پر ایک بزرگ نے آپ کا استقبال کیا اور انکو چائے پانی پوچھا ،فاروق احمد نے گرم چاۓ کی طلب ظاہر کی، بزرگ آدمی نے اپنا ہاتھ مغرب کی جانب بڑھایا اور آنکھ جھپکنے سے پہلے ہی ایک ساعت میں گرم چاۓ کا کپ فاروق احمد کے سامنے پیش کر دیا، فاروق احمد یہ سب کچھ دیکھ کر اپنے حواس کھو گیا، حواس بحال ہونے پر بزرگ وہاں پر موجود نہ تھے اور کافی تلاش بسار پر بھی نہ ملے آپ نے مبلغین کو بتایا کہ اسے مزارِ داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللّٰہ علیہ سے اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ یہ کپ لاہور ملتان یا برصغیر کے کسی شہر قصبے دیہات کا کپ نہیں بلکہ یہ لندن میرے گھر کا کپ ہے، جو پلک جھپکنے پہلے اس بزرگ نے لندن سے ہند میرے سامنے پیش کیا ہے، آپ نے کہا کہ اسلام کے اصل ترجمان تو یہ اولیا اللہ صاحب مزار حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللّٰہ علیہ اور دیگر اولیاء ہیں۔ اس واقعہ نے جناب فاروق احمد لینارڈ صاحب کے دل کی دنیا ہی بدل ڈالی اور کایا پلٹ دی۔ مبلغین کو چھوڑ کر لندن شہر کا باشندہ ہمیشہ کے لئے لاہور داتا دربار کی دربانی پر مامور ہوگیا اور وہاں پر ہی 13 فروری 1945 سن عیسوی میں وفات پائی ۔آپ کا مزار بیسمنٹ داتا دربار کمرہ مینجر محکمہ اوقاف کے بالکل ساتھ واقع ہے۔

ترجمہ: جسے اللہ ہدایت فرما دے سو وہی ہدایت یافتہ ہے، اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ اس کے لئے کوئی ولی مرشد (یعنی راہ دکھانے والا مددگار) نہیں پائیں گے( الکہف 17)

Advertisements
julia rana solicitors

واللہ رسولہ اعلم بالصواب

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply