التجا۔۔۔وجیہہ جاوید

اے میری ناراض محبوبہ! اب مان بھی جاوُ نا۔تمہیں مجھ سے منہ پھیرے نہ جانے کتنا عرصہ بیت چکا ہے۔ تمہارے جانے کے بعد سے چاند مجھ سے اکھڑا سارہتا ہے۔ عورت سے تعلق بنانے سے ساری زندگی محض اسی لئے گریز کرتا رہا تھا کہ یہ قیمت بہت بڑی مانگتی ہے۔ تم جاتے جاتے میرے بچپن کی سب سے اچھے ساتھی کو بھی اپنی مٹھی میں لے اُڑیں۔ اب میں چاند کو پکارتا ہوں تو وہ مجھے آنکھیں دکھاتا ہے ۔جیسے تمہارے ساتھ بتائے گئے تمام انمول لمحوں کی یادوں کو نگل لے گا۔گویا مجھے اپنا رقیب ہی سمجھ بیٹھا ہے۔ میں اب ساحل سمندر کے پاس پہروں بیٹھا پانی کی آواز سننے کے لیے جتن کرتا پھرتا ہوں ۔مگر اندر کا شور اس وقت ماحول پر اتنا حاوی ہوجاتا ہے کہ میں کچھ بھی سننے کے قابل ہی نہیں رہتا ۔ تم جانتی ہو نا لہروں کا اضطراب میرے اندر کیسا اشتعال پیدا کرتا تھا ۔مگر اب سب کچھ بے جان سا معلوم ہوتا ہے۔مجھے نہ جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ لہریں بھی تمہارے جانے کے بعد میرے جذبات کی طرح ٹھنڈی ہو چکی ہیں۔ چودھویں کا چاند بھی اب تو میرے سامنے لہروں کو اپنی طرف کھینچنے سے انکار کردیتا ہے۔ شاید سمندری لہروں نے اپنا مرکز تمہاری ذات کو بنالیا ہے ۔ اور تم ہو کہ اپنی زندگی کی کہانی کا اہم موڑ ادھورا چھوڑ کے تخیلاتی دنیا میں بنائے گئے اپنے کرداروں کو مکمل کرنے   کیلئے جتن کرتی پھرتی ہو ۔ان کرداروں کے لئے بے چین ہونا مجھے اب بھی شدید خائف کرتا ہے۔ میں تمہاری غیر موجودگی میں بھی آنکھیں بند کرکے جب تمہارا نام پکارتا ہوں میرے ہونٹ کپکپا جاتے ہیں ۔تمہاری دید کے فاقوں سے نڈھال آنکھیں تو تمہارے دیدار کی چاہ لیے، سیراب ہونے کے لئے بے تاب ہوئ بیٹھی ہیں۔ مگر جانتا ہو کہ تمہیں ان تمام باتوں سے اب کچھ سروکار نہیں ہے تمہارے ساتھ سلگایاگیا وہ آخری سگریٹ کا دھواں آج بھی میری عینک کے شیشوں پر اسی انداز میں جما پڑا ہے۔ لکھاری لوگ کہتے ہیں نا کہ محبوب کو دیکھنے کے بعد مزیدکچھ اچھا دیکھنے کی چاہ نہیں رہتی۔ بس تمہاری جدائی میں میرا بھی وہی حال ہوا پڑا ہے۔میں شعوری طور پر کچھ اچھا دیکھنے کی چاہ کا گلا گھونٹ بیٹھا ہوں ، اسی لئے تو اس دن سے عینک کے شیشے کو صاف کرنے کی ہمت تک نہ کر پایا۔ ہر شام تمہاری یاد میں باغ میں بیٹھ کر نہ جانے کتنے درختوں ،پھولوں ،پرندوں اور تتلیوں سے اس امید پر دوستی کر آتا ہو ں کہ وہ بھی ضرور تمہارے بہار سے چہرے کے گرویدہ ہوں گے یقیناً ان کے مراسم تمہارے ساتھ نہایت مضبوط ہوں گے۔ بس ایک موہوم سی امید کہ شاید وہ تمہارے آگے میری سفارش ہی کر دیں۔ میری تو کوئی بات نہ ماننے کی اور من مرضیاں کرنے کی تم نے قسم اٹھا رکھی ہے۔ کاش تم یہ بات کبھی سمجھ سکو کہ تمہارا نعمل البدل ملنا ناممکنات میں سے ہے۔ اگر تم نے لوٹ کر نہیں آنا تم مجھ پر ایک احسان ہی کردو میرے وارفتگی سے بڑھتے ہوئے خالی پن کا مداوا کرنے کے لئے کوئی ترکیب ہی بتا دو۔اپنی یادوں کے پرزوں کو کہیں سے زنگ ہی لگا جاؤ کہ میں ان کو ہر جگہ اپنے ساتھ گھسیٹنے سے عاجز آ جاوُں۔میرے خوابوں ،خیالوں میں جسم بدل بدل کر آنے والا مذاق اب چھوڑ بھی دو ۔اب مجھے میری زندگی جینے دو۔ مگر تمہیں ایک آخری بات بتائے دیتا ہوں۔زندگی کی تاش میں موجود حکم کی بیگم کو کہانی اچھے انداز میں اختتام پذیر کرنے کیلئے جوکر کی نہیں پان کے راجا کی ضرورت ہوتی ہے ۔مگر افسوس کہ تمہیں اس بات کا ادراک ہونے میں بہت وقت درکار ہے۔اور میری بدقسمتی یہ ہے کہ میرے پاس زیادہ وقت بچا ہی نہیں ہے۔ تمہاری لا پروائیوں کے دیمک نے محض میری روح کو زخمی نہیں کیا انہوں نے تو میرے جسم کو بھی چاٹ کھایا ہے۔اس تاش کی دنیا کے تمام کردار تمہارے جیسی معاملہ فہم اور حساس لڑکی کی ذات کا یہ پہلو جان کر ، پشیمان ہونے کے بجائے چونک اٹھے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply