قربانیوں کی آڑ میں عوام کی قربانی۔۔حسان عالمگیر عباسی

جہاں تک قربانیاں ہیں ‘ سر خم تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن صرف التجا کرتے ہیں کہ  خون کی قیمت نہ طے کریں ، سانحہ پشاور آرمی پبلک سکول ہو تب بھی پھولوں سے ہی مہک اٹھتی ہے اور جب ڈاما ڈولہ میں مدرسے کے بچوں پر قہر ٹوٹتا ہے تب بھی ملک کے ہی مستقبل کا خون ہوتا ہے۔

جہاں تک قربانیاں ہیں ، مانتے ہیں لیکن پولیس کی قربانیوں کی بھی اہمیت ہونی چاہیے۔ جمہوریت کی  خاطر جیل کی سلاخوں میں دن  رات گزارنے والے بیچارے سیاست دانوں کو بھی پوچھنا چاہیے۔

جہاں تک قربانیاں ہیں ‘ کون ہے جو انکار کر سکتا ہے۔ لیکن فاٹا میں رہنے والے شہریوں سے بھی پوچھنا چاہیے کہ جب ان کا گھر سے نکلنا محال ہو جائے تو کیا گزرتی ہے ؟ ان کو پہلے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا گیا ، ان کے بچوں کو غیروں کی اولاد سمجھا گیا اور جب عمل کا رد عمل آنے لگا تو ان ہی کی تلاشیاں لینا کہاں کا انصاف ہے ؟ جگہ جگہ چیک پوسٹوں کا ہونا ، جگہ جگہ ان کی جامہ تلاشی ! وہ کیوں نہ منظور پشتین بنیں ؟ وہ کیوں نہ طالبان بنیں ؟ اگر ان کی اور ان کے بچوں کی قربانیاں اہمیت نہیں رکھتیں ! ان کے ماتم پہ مگر مچھ کے آنسو بہتے رہیں! تو کیوں نہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کریں ؟ اس ریاست کا دفاع کیوں کریں جو سب سے بنیادی حق “زندگی” سے ہی محروم کردیں۔

پھر بھی یہ مظلوم ! اور یہ جمہوریت پسند لوگ آپ کے بچوں کے ماتم پر رقص نہیں کرتے۔ دھرنے ختم کر دیتے ہیں ، دعائے مغفرت و جنازے پہ پہنچتے ہیں۔ مجبوراً نیشنل ایکشن پلان کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے کا اعادہ کرتے ہیں۔

بہرحال حل صرف ایک ہی ہے۔ جمہوری جماعتیں  یکجا ہو جائیں۔ جب قرآن اہل کتاب کے حوالے سے فرما رہا ہے کہ  “آؤ  ان چیزوں پر اتفاق کرتے ہیں جو ہم میں اور آپ میں ایک جیسی ہیں”۔ تو یہ تمام جماعتیں جو جمہوریت کے ماننے والی ہیں ، ایک میثاق کیوں نہیں کرتیں ؟ اسی لیے تو “مہربان” سینیٹ میں آکر برملا کہتے ہیں ، کہ : ہمیں شوق نہیں ہے ‘ تمھارا ہی خلا پُر کرنے آتے ہیں۔ کیا ضرورت ہے گندے انڈوں کو اپنی پارٹیوں میں بھرتی کرنے کی ؟ فواد چودھری صاحب کے منہ اور رویوں اور بول چال سے واضح ہوتا ہے وہ جمہوری نہیں ہیں ، جمہوریت ادب و احترام اور برداشت کی سیاست سکھاتی ہے۔ وہ لوٹاکریٹ اور الیکٹیبل ہیں ، جو ایک ہی ادارے کی سیاسی کامیابی کے لیے انتخابات کے میدان میں رسمی طور پہ کودتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ جیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ، صرف جمہوریوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان صاحب کو کیسے اٹھا کر باہر مارا ، مانا کہ کمزوریاں ہیں لیکن کس نے ان کو ر پلیس کیا ، گنڈا پور جو شہد اور شراب میں فرق نہیں جانتے۔

سراج الحق صاحب ٹھیک فرماتے ہیں کہ مہربانوں کی جیت میں پاکستان ہار رہا ہے۔ یہ کیا مسلط کر دیا گیا ہے ہم پر ؟ یہ تو مشرف و زرداری کی حکومتوں کا مجموعہ ہے ، یہ آئی ایم ایف کا باقر کیوں مسلط کر دیا گیا ؟ عمران خان صاحب یہ ذہن نشین کر لیں کہ آپ نے کل کو ہاتھ ملنے  ہیں ، آپ کو سمجھ بھی نہیں آئے گی کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا ہے ، اگر آپ نے پارٹی میں چوروں کو بھرتی کر ہی لیا ہے ، اصولوں پر سیاست کی بجائے اسٹیٹس کو ، کو گلے لگا ہی لیا ہے تو ایک بار اور سہی! ایک بار پھر اصولوں پہ سمجھوتہ کر ہی لیں ! اصولوں کی دھجیاں اڑا ہی دیں ! جمہوریت کے ماننے والوں سے ہاتھ ملا لیں ، یہی آپ کے دوست ہیں۔۔! چور ہیں ! ڈاکو ہیں ! جو بھی ہیں ! آپ کی صفیں کونسی صاف ہیں ؟ مہربانوں کی مہربانیاں کون نہیں جانتا ؟ بہرحال یہ جمہوریت پسند آپ کے دوست ہیں ! یہی آپ کے دست و بازو بنیں گے ! قاضی صاحب آپ کے دوست ہیں ! وہ دوست نہیں جو آپ کے بائیں ، دائیں ، اوپر اور نیچے ہیں۔ سچی اور مضبوط جمہوریت کے لیے جمہوری قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پہ ہی آنا ہوگا۔ اس کوشش میں چوروں ، لٹیروں ، ڈاکوؤں ، مومنوں ، اصول پرستوں ، مولویوں ، اشتراکیوں الغرض تمام مکاتب فکر چاہے آزاد خیال طبقہ ہو ، ترقی پسند ہو ، مبلغین ہوں یا تاجر سب کو ایک پیج پہ آنا ہو گا۔ جب ہم سب اکٹھے ہوں گے تب تک ہم یہ بھی سیکھ جائیں گے کہ کیسے برداشت کیا جاتا ہے ایک دوسرے کو ، کیسے اختلاف رائے پہ اتفاق کیا جاتا ہے ، کیسے سمجھا جاتا ہے کہ دنیا اختلاف رائے پہ قائم ہے۔۔! جب یہ میثاق جمہوریت ہو تو اس کو کسی باغیچے میں کر لیں تاکہ جان سکیں کہ : شاعر کیوں عرض کر گیا:

گلہائے رنگارنگ سے ہے زینت چمن
اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

سب سے اہم بات یہ کہ ہم مل بیٹھیں گے تو جان جائیں گے کہ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والوں کے نرغے میں یہ قوم آج تک باآسانی کیسے آتی رہی ؟ ان کی بندوق ؟ ان کی دولت ؟ ان کا رعب ؟ شاید ممکن ہو ایسا ہی ہے ! لیکن سب سے اہم چیز جو ان کے پاس ہے ، نظم و ضبط ہے۔ وہ منظم ہیں۔ وہ متحد ہیں ! ہمیں بھی ایک مقصد کی خاطر منظم ہونا ہے۔ متحد ہونا ہے ! ہمیں کیا ضرورت راولپنڈی کا رخ کریں ؟ ہم اسلام آباد میں ، ڈی چوک میں ہاتھوں کی زنجیر بنائیں گے ! بہرحال ‘مہربانوں’ کا اقتدار سے دور رہنا ، سیاست میں دلچسپی نہ لینا انہی  کے لیے سود مند ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ  آپ کی قربانیاں سر آنکھوں پر ، یہ چھوٹا سا احسان کرتے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں ، سیاست سے دور رہیں تو آپ کے وسیع تر مفاد میں بات کرتے ہیں۔ یہ احسان عظیم ہے ! آپ کے احسانات ہیں ، ہم فراموش نہیں کریں گے ! پر آپ ایک اور احسان کر لیں ! دور رہیں سیاست سے ! آپ کا سیاست سے دور رہنا ہی آپ کو عوام کے دلوں کے قریب تر کر سکتا ہے۔

خاموشی بھلی ہوتی ہے ، پر توڑ دینی چاہیے جب کسی کے بھلے کے لیے ہو ! جب بھلی بات کرنی ہو ! بہرحال یہاں بولنا ، بکنا ہوتا ہے۔۔دیکھنا ، گھورنا ہوتا ہے۔غور و فکر کرنا مشکوک سمجھا جاتا ہے۔حق مانگنا ‘ حدود کو پھلانگنے کے مترادف جبکہ حق چھیننا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ہاں ! پالش کرنا محب وطن ہونے کی نشانی ہے ! چمکانا وفاداری کہلاتی ہے۔۔ کہیں پڑھا تھا “وفادار تو کتا ہوتا ہے ‘ میں تو سالا غدار ہوں” ! البتہ سرٹیفکیٹ آنے تک امان میں رہنا ہی اچھا ہے !

Advertisements
julia rana solicitors

چپ رہوں تو بیمار کہا جاتا ہے
بول اٹھتا ہوں تو غدار کہا جاتا ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply