دہلی کس نے جلائی ہے؟۔۔ابھے کمار

منگل کی آدھی رات ، میرافون اچانک سے بج پڑا۔ “خبر ملی ہے کہ ماحول ٹھیک نہیں ہے۔ مظاہرین دہلی کےوزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ پر جمے ہوئے ہیں اور ان سے عوا م کی جان و مال کی حفاظت کرنے اور بلوائیوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں”۔

فون پر میرے ایک دوست نے یہ بات کہی۔ اُن کا فون جب آیا تھا تب میں بھی موبائل پر دہلی سےمتعلق خبریں پڑھ رہا تھا۔

رات کے عالم میں بھی آنکھوں کو نیند میسرنہیں ہے۔کئی دنوں سے سکون کی جگہ ڈر اور خوف کا ماحول طاری ہے۔ نظم و ضبط کی جگہ بد امنی پھیلی ہوئی ہے۔لوٹ، مار، توڑ پھوڑ اورآگ زنی کی خبریں آتی ہی جا رہی ہیں۔راہ چلتے لوگوں سے ان کی مذہبی  شناخت پوچھ کر مارا جا رہا ہے۔ ان کے مذہبی عقائد کے خلاف ، ان سے نعرے لگوائے جا رہے ہیں۔ مذہبی مقامات کی بے حرمتی کی جا رہی ہے ۔ زخمی  لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ہلاکتیں بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔میڈیا کی ایک رپورٹ  کے مطابق، اب تک 34 لوگ مارے جاچکے ہیں۔ ملک کا دل ،دہلی جل رہی ہے۔

24فروری سے ماحول بگڑنا شروع ہو گیا تھا۔سب سے خراب حالات شمالی مشرقی دہلی کے ہیں ۔موج پور، کراول نگر ، سلیم پور، بابر پور، گھونڈا،مصطفیٰ آباد، گوکل پوری، جعفرآباد، اشوک نگر فرقہ پرستوں کے خاص نشانے پر ہیں۔ بازار، دکانیں، گاڑیاں، مکانات  جلائے جا رہے ہیں۔ مذہبی مقامات کو بھی ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ معصوم لوگ فرقہ وارانہ جنون کے شکار ہو رہے ہیں۔ اس پروپیگنڈے میں کوئی دم نہیں ہے کہ شہریت ترمیمی قانوں (سی اے اے) کے خلاف مظاہرےتشدد کی راہ پر چل پڑے تھے۔کیا یہ صرف اتقاق ہے کہ جو علاقے تشدد کی زد میں ہیں وہیں بی جے پی کی کارکردگی گزشتہ اسمبلی الیکشن میں اچھی رہی تھی؟

بے بسی کا ایسا عالم ہے کہ ایک عام انسان کو یہ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے وہ کیا کرے اور جائے تو کہا ں جائے؟سوچیے ذرا ، جب ملک کی راجدھانی شہریوں کو تحفظ دینے سے  قاصر رہے، تو ملک کے دیگر حصوں کا حال کیا ہوگا؟ عام آدمی کے ووٹ سے بنی سرکار بھی عام آدمی کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔ جو لوگ سیکولرازم اور ہندو مسلم اتحاد کے نام پر ووٹ مانگتے رہے ہیں ، وہ ان نازک لمحات میں بھی خاموش ہیں۔بدھ کے روز کانگریس صدر سونیا گاندھی نے امت شاہ کا استعفیٰ کا مطالبہ مانگا، مگر ان سے اور بھی امیدیں تھی۔جنہوں نے آئین کی قسمیں لے کر ، حکومت کی کمان سنبھالی تھی اور جن کے ہاتھوں میں پولیس اور انتظامیہ موجود ہیں، وہ بھی اپنی ذمہ داری سے منہ موڑ رہے ہیں۔وزیر داخلہ کی  ناک کے نیچے دہلی کئی دنوں سے جل رہی ہے اور ان کا کوئی رد عمل نہیں آیا ہے۔

مگر بڑا سوال یہ ہے کہ جلتی ہوئی دہلی کے لیے ذمہ دار کون ہے؟ یہ تو  واضح  ہے کہ سیکولر طاقتیں معصوموں کو بچانے میں اس قدر ایماندار  نظر نہیں آرہی  ہیں، جیسی  اس سے توقع کی جا رہی ہے۔ لوگوں کا یہ سوال غلط نہیں ہے کہ جن علاقوں میں معصوموں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ، وہاں سیکولر جماعتیں کیوں نہیں کیمپ کر رہی ہیں؟ ہندوستانی سیاست کا رنگ ایسا بدل گیا ہے کہ فرقہ پرستی کے خلاف سیکولر پارٹیاں آنے سے پہلے سو بار سوچتی ہیں کیونکہ ان کو اس بات کا ڈر رہتا ہے کہ کہیں ان کی شبیہ اکثریت طبقے میں خراب نہ ہو جائے۔ کیا یہی وجہ تو نہیں ہے کہ سیکولر لیڈر متعلقہ علاقوں میں جانے کے بجائے، راج گھاٹ سے امن کی اپیل کر رہے ہیں؟

مگر دہلی کے بگڑتے حالات کی “کرونولوجی ” کو سامنے رکھا جائے تو شک کی زیادہ جگہ نہیں بچتی، کہ یہ سب کچھ اچانک سے نہیں پھوٹ پڑا ہے ، بلکہ اس سب کے پیچھے ایک بڑی سازش رچی گئی تھی۔ عوامی تحریک سے ہار چکی بھگوا جماعتوں کے پاس دو ہی راستے تھے۔ پہلا تو یہ کہ وہ مذہب پر مبنی سی اے اے کو واپس لیتی، یا اس میں ترمیم کرتی اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتی ۔ دوسرا یہ کہ وہ تشددکی کلہاڑی سے عوامی تحریک کو کاٹ کر ختم کرتی ۔ بھگوا طاقتوں نے زور ، زبردستی، ہجومی تشدد اور لا قانونیت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ایسا  ہی  کچھ اس نے جے این یو میں بھی کیا تھا جب فیس میں اضافے کے خلاف پُر امن طریقے سے مظاہرے کر رہے طلبہ پر حملہ کروایا گیا تھا۔ پولیس تب بھی خاموش تھی ، اور آج بھی خاموش ہے ۔

اسی سازش کے تحت بھگوا عناصرمسلسل شاہین باغ کو “دہشت کردی “سے جوڑنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔ اس سازش کے تحت مسلمانوں کے خلاف جھوٹ اور نفرت پھیلائی جارہی تھی۔ مسلمانوں کو ملک اور اکثریتی ہندو فرقے کا دشمن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ملک کے تئیں اُن کی محبت اور وفاداری پر سوالات اٹھائے جا رہے تھے۔ ان کے خلاف ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا بے بنیاد الزام عائد کیا جا رہا ہے اور ان کی ذہنیت کو ’’جہادی‘‘ کہہ کر گالی دی جا رہی تھی۔ آر ایس ایس کے ترجمان میگزین کے حالیہ کچھ شمارے ان پروپیگنڈوں اور نفرت انگیز مواد سے بھرے پڑے ہیں۔

اشتعال انگیز بیا نات اوپر سے لے کر نیچے تک کے بھگوا لیڈران نے دیے  ہیں  ۔ سیاسی طور پر ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نےدہلی اسمبلی انتخابات کے دوران یہ کہا تھا کہ جن لوگوں نے کشمیر کے دہشت گردوں کی حمایت کی تھی وہی لوگ شاہین باغ میں بھی مظاہر ے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسی دوران مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے یہ نعرہ دیا کہ دیش کے “غداروں” کو” گولی “ماری  جانی  چاہیے اور رائے دہندگان سے اس بات پر ووٹ مانگا کہ اگر بی جے پی دہلی میں سرکار بنا لیتی ہے تو وہ شاہین باغ کے مظاہرے کو صاف کر دے گی۔ خود وزیر داخلہ امت شاہ نے بابر پور کے ووٹروں سے کہا تھا کہ بی جے پی کو اگر وہ ووٹ دیتے ہیں ،تو اس سے دہلی اور ملک محفوظ ہو جائےگا اور شاہین باغ جیسے مظاہرے کو روک دیا جائےگا۔ وہیں جواہر لال نہرو اسٹیڈیم کی ایک دوسری ریلی سے شاہ نے ووٹروں سے بی جے پی کو ووٹ ڈالنے کی اپیل کی  اور کہا کہ وہ ای وی ایم مشین کو اس تیزی سے دبائے کہ اس کےکرنٹ کا جھٹکا شاہین باغ کے مظاہرین بھی محسوس کریں۔ کیرلا کے گورنر عارف محمد خان نے اپنے آئینی منصب کو طاق پر رکھتے ہوئےشاہین باغ میں چل رہے مظاہرے کا خوف کھڑا کیا۔

جب اوپر بیٹھے لیڈران ا شتعال انگیز بیانات دینے لگے تو ذیلی سطح پر متحرک کارکنان اس کی نقل کرنے لگتے ہیں اور بعض اوقات وہ ساری حدیں پار کر جاتے ہیں۔رفتہ رفتہ شر پسندی اور بد نظمی کے لیے ماحول تیار ہونے لگتا ہے۔ بی جے پی لیڈر کپل مشرا کی تخریب کاری اسی سیاق میں دیکھنے کی ضرورت ہے، جس کے نتیجے میں دہلی    جل رہی ہے ۔

میڈیا میں وائرل ہوئی ایک ویڈیو میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کپل مشرا، جو گزشتہ دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے امیدوار تھا اور جنتا نے اسے خارج کر دیا تھا، سر عام پولس کی موجودگی میں سی اے اے مخالفت مظاہروں کوجبراً خالی کروانے کی بات کہی۔اتوار کے روز پولیس کی موجودگی میں ا س نےیہ دھمکی دی تھی کہ اگر جعفرآباد سے سی اے اے مخالف مظاہرے تین دن کے اندر اٹھوا  نہیں لیے جاتے تو وہ کسی کی نہیں سنیں گے ۔ اس تقریر کے دو دن بعد اس کا    ایک اور ٹیویٹ آیا جس میں اس نے دعویٰ  کیا ” جعفر آباد خالی ہو چکا ہے ۔ دہلی میں دوسرا شاہن باغ نہیں بنے گا”۔ اس سے قبل بھی وہ دہلی اسمبلی انتخابات کوہندوستان اور پاکستان کا میچ کہہ چکے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی ہندوستان ہے اس کی حریف جماعت پاکستان ہے ۔

خیال رہے کہ کپل مشرا کے اس بیان کے بعد الیکشن کمیشن نے اعتراض ظاہر کیا تھا اور تادیبی کارروائی کے تحت اس کو 24 گھنٹوں کے لیے انتخابی تشہیر سے دور رہنے کاحکم صادر کیا۔مگر  یہ سزا اس کے جرم کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی۔ پولیس نے کپل مشرا کو روکنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ۔ شاید پولیس کپل مشرا کی مدد کرتی رہی۔ جسٹس مرلی دھرن کی قیادت میں دہلی ہائی کورٹ کے  دو ارکان پرمشتمل بینچ نے بھی پولیس کے رول پر سوال اٹھایا اور کہا کہ بی جے پی لیڈران کپل مشرا ، انقراگ ٹھاکر ، پرویش ورما کی نفر ت انگیز تقاریر کی جانچ کرے ۔ کورٹ نے پولیس پر اظہارِ برہمی  کرتے ہوئے کہا کہ شہر تباہ ہو گیا ہے۔ آپ کیا انتظار کر رہے ہیں ؟ کب آ پ کاروائی کریں گے؟دہلی ایل جی کو لکھے ایک خط میں دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالسلام خان نے کہا ہے کہ کپل مشرا ایک بھیڑ کے ساتھ پر امن مظاہرین پر حملے بول رہا ہے۔اب ان ہی کی پارٹی کے لیڈر اورمشرقی دہلی سے ایم پی گوتم گمبھیر نے کپل مشرا کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ بے حد افسوس کی بات ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت اپنا آئینی فرض ادا کرنے میں بُری طرح ناکا م  رہی ہے اور دہلی میں نظم و ضبط بنانے کے بجائے بلوائیوں کی پردے کے پیچھے سے مدد کر رہی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پولیس بلوائیوں کے خلاف اب تک کوئی موثر کاروائی ضرورت کرتی ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ رات کے اندھرے میں کیوں کر دیا جاتا، جنہوں نے چند گھنٹے قبل ہی پولیس کو دنگوں پر کاروائی کرنے کا حکم دیا تھا؟

Advertisements
julia rana solicitors

جن لوگوں کہ لگتا ہے کہ دہلی جلا دینے سے لوگ ان کی بات قبول کر لیں گے وہ غلط فہمی میں ہیں۔ سیاسی سوالوں کا حل سیاسی ہی ہوتا ہے۔ زور زبردستی اور ظلم سے نقصان سب کا ہوتا ہے اور فائدہ کسی کا نہیں ہوتا ہے۔ایک بار بھر یاد دلانا چاہوں گا کہ یہ سرکار کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون توڑنے والوں کے خلاف سختی سے پیش آئے۔ اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ان کی باتوں کو سنے جو ان سے اتقاق نہیں رکھتے ہیں اور شہریت ترمیمی قانون کے اعتراضات کو دور کرنے کے لیےاسے آگے آنا چاہیے ۔ مظاہرین پر ہو رہے حملوں پر وہ خاموشی اختیار کرکے  ملک اور جمہوریت کا بڑا نقصان کر رہی ہے۔
(مضمون نگارجے اين يو ميں شعبہ تاريخ کے ريسرچ اسکالر ہيں۔)
debatingissues@gmail.com

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply