جسے اللہ رکھے(قسط1)۔۔عزیز اللہ خان ایڈووکیٹ

“ڈڈلی حسام ”

میں تیسری دفعہ تھانہ کوٹ سبزل تعینات ہوا تھا یہ 2005 کی بات ہے اچانک ایک پالیسی کے تحت پورے پنجاب میں انسپکٹرز کے تبادلے مختلف اضلاع میں کر دیے گئے بہاولپور رینج کے انسپکٹرز کے تبادلے بھی رینج کے اضلاع میں کر دیے گئے میرا تبادلہ تھانہ کوٹ سبزل رحیم یار خان سے ضلع بہاول پور کر دیا گیا اُن دنوں کپٹن عارف نواز ایس ایس پی بطور ڈی پی او بہاولپور تعینات تھے –
2001 کے غیرجماعتی الیکشن میں ضلع رحیم یار خان میں مخدوم احمد محمود اور ضلع بہاول پور میں طارق بشیر چیمہ بطور ضلع ناظم بن چکے تھے اس الیکشن کے نتیجہ میں وہ تمام اختیارات اور بے تحاشہ ترقیاتی فنڈز استعمال کر سکتے تھے-ضلع بہاولپور میں کسی بھی محکمہ میں کوئی بھی تعیناتی ضلعی ناظم طارق بشیر چیمہ صاحب کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی پولیس میں بھی کسی بھی تھانہ کا ایس ایچ او یا حلقہ افسر لگنے کے لیے طارق بشیر چیمہ صاحب سے کلیرنس لینا لازمی ہوتا تھا –
ایس ایچ او لگانے کے لیے ڈی پی او صاحب ایک لسٹ بنا کر طارق بشیر چیمہ کو بھجواتے تھے چیمہ صاحب اپنے سیاسی رفقاکار سے مشورے کے بعد لسٹ میں ردوبدل کرتے تھے اور بعد میں آر پی او بہاولپور سے منظوری کے بعد ڈی پی او صاحب SHO صاحبان کے تبادلے کرتے تھے ایک دفعہ ہمارے ایک دوست کا تبادلہ بطور ڈی ایس پی حاصل پور ہوا مگر چیمہ صاحب نے اُسے چارج لینے سے روک دیا اور اُسے بغیر حاضری کیے واپس جانا پڑا
2002 کے جنرل الیکشن بھی ہو چکے تھے پرویز مشرف کے زیر سایہ ق لیگ کی حکومت قائم ہو چکی تھی مگر اس حکومت کے ایم پی اے اور ایم این اے کی ضلعی ناظم کے سامنے کوئی اوقات نہ تھی یہ سب بے اختیار تھے اور فنڈز کے لیے ضلع ناظم کے سامنے ہاتھ پھیلاتے تھے پنجاب میں پرویز الہی وزیر اعلیٰ تھے طارق بشیر چیمہ جو پیپلز پارٹی چھوڑ کر ق لیگ میں شامل ہوئے تھے کے تعلقات چوہدری صاحبان کے ساتھ بُہت اچھے تھے جس کی وجہ سے ڈی آئی جی ،کمشنر ،ڈی پی او اور ڈی سی او بھی چیمہ صاحب کی مرضی سے تعینات ہوتا تھا-
ڈی پی او کپٹن عارف نواز صاحب نے میری پوسٹنگ تھانہ یزمان کر دی یزمان کے بازار میں داخل ہوتے ہی میرے ذہن میں 19 سال پہلے کے واقعات گھوم رہے تھے جب یزمان کی عوام نے مشتعل ہو کر تھانہ کی عمارت کو آگ لگا دی تھی اب تھانہ کی نئی عمارت بن چُکی تھی تھانہ کی پُرانی عمارت میں ڈی ایس پی کا دفتر بنا دیا گیا تھا تھانہ کے روزنامچہ میں حاضری کرتے ہوئے میری آنکھیں نم ہو گئیں میں نے اللہ پاک کا شکُر ادا کیا کہ جس تھانہ پر میرے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوا میں بے گناہ 42 دن جیل میں رہا آج اُسی تھانہ کا ایس ایچ او بن کر آیا ہوں- میں تھانہ پر اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ چوہدری ممتاز ججہ مرحوم اور خالد ججہ مجھے تعیناتی کی مبارک باد دینے کے کیے آگئے ممتاز ججہ نے اسلم ڈبہ کیس میں پولیس ملازمین کی مدد کی تھی میں بھی چوہدری ممتاز ججہ کی بُہت عزت کرتا تھا تھوڑی دیر بعد ممتاز ججہ اور خالد ججہ چلے گئے تو میں بھی رہائشی کواٹرز دیکھنے چلا گیا ایس ایچ او کے گھر پر ڈی ایس پی صاحب نے قبضہ کیا ہوا تھا ایک چھوٹے سے کواٹر میں سابقہ ایس ایچ او نے رہائش رکھی ہوئی تھی جو رہنے کے بلکل قابل نہیں تھا محکمہ پولیس میں ملازمین کی تھانہ پر رہائش اور کھانے کا کبھی بھی کوئی انتظام نہیں ہوتا ابھی میں کواٹر پر موجود تھا کہ محرر تھانہ میرے پاس ایک وائرلس میسج لے کر آگیا محرر کے چہرے سے معلوم ہو رہا تھا کوئی اچھی خبر نہیں ہے میں نے میسج پڑھا تو لکھا ہوا تھا میرا تبادلہ تھانہ یزمان سے پولیس لائن ہو چکا ہے مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ابھی تو میں نے اپنا سامان نہیں نکالا جو میری کار میں رکھا تھا مگر محکمہ پولیس میں حُکم تو ماننا پڑتا ہے میں نے روزنامچہ میں اپنی روانگی کی اور بہاولپور پولیس لائن روانہ ہو گیا –
مجھے دوسرے دن دفتر ڈی پی او سے معلوم ہوا کہ جس دن میرا تبادلہ تھانہ یزمان ہوا اُسی روز کُچھ لوگ جو واقعہ یزمان میں ملوث تھے اور جن کی وجہ سے میں اور دیگر ملازمین جیل میں رہے تھے طارق بشیر چیمہ کے پاس گئے اور اُسے کہا کہ عزیز خان نے ہم سے یزمان تھانہ جلانے اور مقدمہ درج کروانے کا بدلہ لینا ہے اس لیے ہمیں یہ ایس ایچ او نہیں چاہیے اس پر طارق بشیر چیمہ نے ایک ٹیلی فون ڈی پی او کپٹن عارف نواز کو کیا ڈی پی او کپٹن عارف نواز نے فوری تعمیل حکم کیا اور میرا تبادلہ یزمان سے پولیس لائن کر دیا-

مجھے اب پولیس لائن میں رہنا تھا میں اپنی فیملی کو ملتان شفٹ کر چکا تھا اس لیے رخصت لے کر ملتان چلا گیا اسی دوران میں نے ڈی ایس ہی میاں عرفان اُللہ سے رابطہ کیا جو ڈی ایس پی احمد پور شرقیہ تعینات تھے میاں عرفان میرے سینیر اور بُہت اچھے دوست بھی تھے میاں صاحب کے طارق بشیر چیمہ سے اچھے تعلقات تھے اور اُنہیں ساری صورت حال کا پہلے سے علم تھا مجھے بولے پہلے مجھے طارق بشیر چیمہ کو راضی کر لینے دیں پھر ایس ایس پی کو منانا کوئی مشکل کام نہیں ہو گا-
دس دن گزر گئے مگر میری تعیناتی کسی تھانہ پر نہ ہو سکی مجھے اپنے کام کرنے کی صلاحیت اور کرائم فائیٹر ہونے پر بڑا ناز تھا جس کا اعتراف میرے ساتھ کام کرنے والے افسران کرتے تھے مگر ایک سیاستدان کے سامنے میر ا کمانڈر اس طرح ہتھیار ڈال دے گا اور مجھے ایک دن میں واپس لائن بھیج دے گا میں نے سوچا بھی نہ تھا-

آخرکار دسویں دن میاں عرفان ڈی ایس پی کا مجھے ٹیلی فون آگیا بولے میں نے بڑی مشکل سے طارق بشیر چیمہ کو راضی کیا ہے آپ کے بارے میں اُنہیں یزمان والوں نے بُہت بدگمان کیا ہوا تھا انشااللہ جلد آپ کی پوسٹنگ ہو جائے گے پھر وہی ہوا دوسرے دن ہی مجھے ڈی پی او بہاولپور کپٹن عارف نواز صاحب کی کال آگئی بولے میں نے آپ کو تھانہ نوشہرہ جدید لگا دیا ہے آپ سے پہلے وہاں سب انسپکٹر پرویز باجوہ بطور ایس ایچ او تعینات تھا دریائے ستلج کے قریب واقع یہ تھانہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے آپ کو یہاں کافی محنت کرنی پڑے گی اُمید ہے آپ مجھے مایوس نہیں کرو گے –
تھانہ نوشہرہ جدید تحصیل احمد پور شرقیہ میں واقع ہے میں سمجھ گیا کہ میاں عرفان صاحب کی سفارش پر ہی میرا تبادلہ ہوا ہے تھانہ نوشہرہ جدید میں قصبہ جانووالہ بھی ہے یہاں کی تقریباً آبادی شعیہ فرقہ سے تعلق رکھتی ہے یہاں سید ذولفقار شاہ صاحب کا گھر بھی ہے ذولفقار شاہ صاحب میر ے بیج میٹ سید نوازش علی بخاری ڈی ایس پی سید ہاشم علی بخاری ڈی ایس ہی اور سید واجد علی بخاری جنہیں ہم پیار سے لالہ واجد کہتے ہیں کے ماموں ہیں بخاری برادران کے والد سید لعل شاہ بُخاری مرحوم بھی نامور پولیس آفیسر تھے اور یہ سب بخاری برادران احمد پور شرقیہ کے رہائشی ہیں –

نوشہرہ جدید اس سے قبل بھی بطور Asi کُچھ عرصہ کے لیے میری تعیناتی رہ چُکی تھی کیونکہ میرا تعلق بھی تحصیل احمد پور شرقیہ سے ہے اس لیے نوشہرہ اور قریبی مضافات کے معززین مجھے میرے والد صاحب سردار امان اُللہ خان کے نام کی وجہ سے جانتے اور پہچانتے تھے مُجھے لگ رہا تھا کہ میری اس جان پہچان کی وجہ سے اس تھانہ پر میرے لیے دوسرے پولیس افسران کی نسبت کوئی پریشانی نہ ہوگی- میرے اس تبادلہ سے سب سے زیادہ خوش میرا ذاتی ملازم فدا تھا جو گزشتہ 25 سالوں سے میرے ساتھ ہوتا تھا فدا کا گھر بھی اسی تھانہ کی ایک بستی خیر پور ڈہا میں ہے
میں تھانہ پر حاضری کروانے سے پہلے احمد پو شرقیہ ڈی ایس پی میں عرمان اُللہ کے پاس گیا اور اُن کا شکریہ ادا کیا میاں صاحب اور میں قبل ازیں کئی دفعہ بطور ایس ایچ او بھی ساتھ کام کر چُکے تھے مگر اُن کی بطور ڈی ایس پی ترقی کے بعد پہلی دفعہ مجھے اُن کے ماتحت کام کرنے کا موقعہ مل رہا تھا میاں عرفان اُللہ کا نام بہاولہور رینج کے اُن چند پولیس افسران میں ہوتا ہے جن کا کام کرنے کا اپنا سٹائل ہے اور نئے آنے والے پروبیشنرز بشمول میرے انہیں کاپی کرنے کی کوشش کرتے تھے-
ڈی ایس ہی صاحب سے ملنے اور ہدایت لینے کے بعد میں اپنی کار میں تھانہ نو شہرہ حاضری کے لیے روانہ ہو گیا میرا ملازم فدا بھی میرے ہمراہ تھا تھانہ نوشہرہ جانے کے لیے ایک راستہ مبارک پور سے جاتا ہے اور دوسرا راستہ احمد پور شرقیہ سے کوٹلہ موسیٰ خان اور پھر نہر کے ساتھ ایک ٹوٹی پھوٹی روڈ پر ہوتےہو ئے نوشہرہ قصبہ تک جاتا تھا-
میری 1987 کی پوسٹنگ اور 2005 کی پوسٹنگ کے درمیانی 18 سال بھی اس ٹوٹی پھوٹی سڑک کا کُچھ نہ بگاڑ سکے تھے حالانکہ اس دوران کتنی حکومتیں اور نمائیندے تبدیل ہو ئے اور اب بلدیاتی الیکشن کے بعد جہاں ضلع کے ناظم طارق بشیر چیمہ نے اپنے یزمان کے حلقہ میں گاوں اور چکوک میں سڑکوں کا جال بچھا دیا تھا مگر نوشہرہ کے ایم پی اے اور ایم این اے اور بلدیاتی نمائندوں کی قابلیت اور اہلیت ان شکستہ سڑکوں کی صورت میں صاف نظر آرہی تھی –
تھانہ نوشہرہ کی آسیب زدہ اور پُرانی بلڈنگ آج بھی ویسے تھی جیسے میں 1987 میں دیکھ کر گیا تھا تھانہ پر محرر اور کُچھ ملازمین نے میرا استقبال کیا تھانہ کے روزنامچہ میں اور رجسٹر 16 میں اپنی قلمی انداراج کے بعد میں ایس ایچ او کے کمرہ میں گیا جہاں ایک میز جس ہر میلا سبز کپڑا بچھا ہوا تھا کپڑے کے سفید داغوں سے لگ رہا تھا کہ جب سے کپڑا خریدا گیا ہے اُسے دھویا نہیں گیا ایک پُرانی کرسی میز کے ساتھ پڑی تھی جس پر غالباً سابقہ ایس ایچ او صاحب بیٹھا کرتے تھے کمرے میں دو تین اور کرسیاں بھی پڑی ہوئی تھیں جن کی بناوٹ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں مل رہی تھی کمرے کی دیواریں بھی شکستہ تھیں ان ہر بھی مرمت اور رنگ و روغن کا فقدان لگ رہا تھا محرر تھانہ نے میری طرف دیکھا اُسے اندازہ ہو گیا تھا کہ صاحب کو دفتر پسند نہیں آیا بولا “صاحب کل تک دفتر اے ون ہوگا “میں نے اُسے کہا اس کی ضرورت نہیں میرے پاس دفتر کا سامان ہے جو میرے گھر کے سامان بیڈ وغیرہ کے ساتھ کل تک آجائے گا-
ایس ایچ او کی رہائش گاہ جو تھانہ کے ساتھ ملحقہ تھی کی حالت بھی زیادہ اچھی نہ تھی لگ رہا تھا کسی دیگر محکمہ کی سرکاری عمارت پر قبضہ کیا گیا ہے میں نے محرر کو ہدایت کی کہ اس کو کل ہی رنگ روغن کروا دے تاکہ اس میں رہائش رکھی جا سکے کیونکہ میرا سامان فدا نے رحیم یار خان سے لانا تھا میں نے فیصلہ کیا کہ رات اپنے آبائی گھر احمد پور شرقیہ چلا جاوں جو تھانہ نو شہرہ سے تقریباً 40 کلومیٹر دور تھا میں نے ایک گن مین تھانہ سے ساتھ لے لیا میری اپنی کلاشنکوف بھی میرے پاس تھی میں نے فیصلہ کیا کہ ہتھیجی چوکی بھی دیکھ لوں ہتھیجی تھانہ نوشہرہ کی ایک پولیس چوکی تھی-ہتھیجی قصبہ دریائے ستلُج کے قریب واقع تھا یہاں بُہت زیادہ مدرسے تھے جہاں سیکڑوں کی تعداد میں طلبا کو قران پاک و دیگر مذہبی تعلیم دی جاتی تھی ان میں زیادہ مدرسے دیو بند فرقہ کے تھے (کُچھ سال قبل مُلتان آئی ایس آئی ملتان کے دفتر پر کیے گئے خود کش حملہ کی گاڑی ہتھیجی کے ایک گاوں میں بنائی گیی تھی) یہاں بُہت زیادہ غربت تھی اور اب بھی ہے خاندانی منصوبہ بندی پر بلکل عمل نہیں کیا جاتا تھا اور بچوں کی بُہت زیادہ تعداد پیدا ہوتی تھی جن کو بچپن سے ہی ان مدرسوں میں داخل کر لیا جاتا تھا اور مولوی صاحبان اپنی مرضی سے ان کی تربیت کرتے تھے اور ان میں سے بُہت سے نوجوان خود کش بمبار اور جہادی بننے کے شوق میں افغانستان چلے جاتے تھے اب بھی شاید ہتھیجی جلال پور پیر والا شجاع آباد کے بُہت سے علاقوں سے نوجوان جہاد کے لیے افغنستان جاتے ہوں گے یہ علاقے مذہبی دہشت گردی کے کیے نرسری کا کام کرتے ہیں-
ہتھیجی چوکی کی بھی سرکاری عمارت نہ تھی بلکہ کسی سرکاری زمین پر قبضہ کے بعد دو کمرے اپنی مدد آپ کے تحت بنائے گئے تھے صحن کی چہار دیواری بھی نہ تھی چوکی پر معراج خان اے ایس آئی انچارج چوکی تعینات تھا معراج خان چوہدری صادق گُجر شہید کے خاص ساتھیوں میں سے ایک تھا اُسے کچہ کے جرائم پیشہ افراد کے بارے میں بُہت انفارمیشن تھی ان علاقوں میں گیدڑی جھبیل ، گھلو ، ڈاہڑ ، ڈاہا ،حسام ارائیں ،وارن ،ماتم اور بُہت سی دوسری قومیں آباد تھیں ان میں اکثر نوجوان بدمعاشی اور جرائم کی طرف راغب تھے مال مویشی کی چوریی اور ڈکیٹیاں عام تھیں یہاں پولیس مقابلے بھی بکثرت ہوتے تھے یہ جرائم پیشہ افراد پولیس ملازمین کے ساتھ کچے کے علاقہ میں مذاحمت بھی کرتے تھے-

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک روز میں تھانہ پر موجود تھا کہ وائرلس آپریٹر تقریباْ بھاگتے ہوئے میرے دفتر میں آیا اور اطلاع دی کہ چوکی ہتھیجی کے علاقہ میں دریائے ستلُج کے بند پر تیل کی ایک ایجینسی پر کُچھ نامعلوم افراد نے ڈکیٹی کی ہے اور مذاحمت پر ایجینسی کے مالک کو فائیر مار دیا ہے جس سے وہ موقعہ پر ہی جانبحق ہو گیا ہے ڈاکوں کو عوام نے گھیر رکھا ہے انچارج چوکی معراج Asi بھی موقعہ پر روانہ ہو گیا ہے -یہ اطلاع سُنتے ہی میں بھی فوری طور پر موقعہ کی طرف روانہ ہو گیا-مجھے اُس دن احساس ہوا کہ اگر راستے اور سڑکیں بہتر نہ ہوں تو کس قدر مشکل ہوتی ہے خاص طور پر جب کسی کی جان بچانے یا مدد کے لیے پہنچنا ہو تو ؟
راستے میں میرا انچارج چوکی معراج خان سے بھی وائرلس پر رابطہ تھا جو موقعہ پر پہنچ چکا تھا تھوڑی دیر بعد مجھے اطلاع دی گئی کے ڈاکوں نے پولیس اور عوام پر فائیرنگ شروع کی دی ہے پولیس اور عوام کی جوابی فائیرنگ سے ایک ڈاکو زخمی ہو گیا ہے تھوڑی دیر بعد میں بھی موقعہ پر پہنچ گیا ایک ڈاکو زخمی حالت میں زمین پر پڑا ہوا تھا جو تھوڑی دیر بعد ہی دم توڑ گیا وہاں پر موجود لوگوں میں شدید اشتعال پایا جاتا تھا تھا ڈاکو کی شناخت ڈڈلی حسام کے نام سے ہو گئی تھی کُچھ دنوں سے ڈڈلی حسام ،چھلو حسام اور اُن کے ساتھی علاقہ میں دھشت کی علامت بنے ہوئے تھے-ڈڈلی کی لاش کو چوکی ہتھیجی کی سرکاری گاڑی میں رکھا گیا میں تیل کی ایجنسی پر بھی گیا وہاں ایجنسی کے مالک کی لاش ایک چار پائی پر رکھی ہوئی تھی جسکو ایک پرائیویٹ ویگن پر سول ہسپتال احمد پور شرقیہ پوسٹمارٹم کے لیے بھجوا دیا-مجھے بتایا گیا کہ مسلحہ ڈاکوں کی تعداد چھ تھی بقیہ پانچ ڈاکو فائیرنگ کرتے ہوئے فرار ہو گئے ہیں اُنہں ڈر ہے کہ ڈڈلی حسام اور چھلو حسام کے ساتھی جو ڈکیٹی میں بھی ساتھ تھے مدعی مقدمہ سے بدلہ لینے کی کوشش کریں گے-
میں نے لوگوں سے وعدہ کیا کہ میں اور میرے تھانہ کی پولیس عوام کی جان اور مال کی حفاظت کرنے میں کوئی کوتاہی نہ کرے گی لوگوں نے پولیس زندہ باد کے نعرے لگائے -میں نے اپنی سرکاری گاڑی چوکی ہتھیجی کی گاڑی کے آگے چلانی شروع کر دی اور نوشہرہ تھانہ کی طرف روانہ ہوگئے ابھی ہم راستے میں ہی تھے کہ چوکی ہتھیجی کی گاڑی اچانک رُک گئی میں اور میرے ہمراہی ملازم فوری اُتر کر چوکی کی گاڑی کی طرف گئے کہ کیا ہو گیا ہے معراج خان Asi نے بتایا کہ ڈڈلی حسام چند لمہوں کے لیے اُٹھ کر بیٹھ گیا تھا مگر پھر لیٹ گیا میں نے ڈڈلی کی باڈی نیچے اُتروائی اور اُس کی نبض اور دل کی دھڑکن چیک کی مگر مجھے زندگی کے کوئی آثار نظر نہ آئے چوکی کے ملازمین قسمیں اُٹھا رہے تھے کہ ڈڈلی حسام واقعی اُٹھ کر بیٹھ گیا تھا -تھانہ پر پہنچ کر ضروری قانونی کاروائی کے بعد ڈڈلی حسام کی لاش کو بہاول پور بھجوایا گیا کیونکہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے پر ایک میڈیکل بورڈ پوسٹمارٹم کرتا ہے-
مجھے تھانہ نوشہرہ پر تعینات پُرانے ملازمین جن میں معراج خان بھی شامل تھا ڈڈلی کے ساتھی اب ضرور کو ئی انتقامی کاروائی کریں گے وہ کیا ہو سکتی ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply