ہندوستان صرف ہندوؤں کا ۔۔چوہدری وقار احمد بگا

برصغیر پاک و ہند کی مٹی کا یہ خاصا رہا ہے کہ یہاں کی عوام کو اگر کسی بھی بات پر اشتعال دیا جائے تو بغیر کسی تحقیق کے اس پر مرنے مارنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، اور اس میں اپنی جان کی پرواہ  تک نہیں کرتے۔یہی معاملہ جب مذہبی رنگ اختیار کرتا ہے تو حالات مزیدگھمبیر صورتحال اختیار کرجاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ برصغیر کی دو بڑی قومیں مسلمان و ہندو اپنے اپنے مذاہب کیلئے مر مٹنے کوہمہ وقت تیاررہتی ہیں۔تاہم ان دونوں قوموں کی تاریخ دیکھی جائے تو ہمیشہ یہ لوگ دوسروں کے ہاتھوں بلیک میل ہوئے ہیں۔کبھی نسلی و لسانی اعتبار سے تو کبھی علاقائی لحاظ سے،کبھی ٹارگٹ ظالم بنا کر پیش کیا گیا تو کبھی مذہبی رنگ دیا گیا،بس منصوبہ سازوں کا کام یہیں تک ہوتا ہے آگے کا کھیل یہ دونوں قومیں خود کھیلتی ہیں اور تماشا تیسری قوتوں کو دکھایا جاتا ہے۔5اگست2019 کو نریندر مودی نے کشمیر سے سٹیٹ سبجیکٹ اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کے قانون کو ختم کر کے پوری وادی میں کرفیو لگا کر اسے دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا ،پھر لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے متنازعہ بل پاس کیا۔بل کے تحت 2015 سے قبل بنگلا دیش، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے ہندو، بدھ، جین، سکھ، مسیحی اور پارسی غیر قانونی تارکین وطن کو بھارت کی شہریت دی جاسکے گی جب کہ ان ممالک سے آنے والے مسلمانوں کو یہ سہولت حاصل نہیں ہوگی۔یہ بل براہ راست مسلمانوں کے خلاف تھا اسکے بعد متنازعہ بل کے خلاف بھارت بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور تاریخ میں لکھا گیا کہ ہندو سکھ اور مسلمان یکجہتی سے احتجاج کر رہے ہیں جبکہ پولیس اپنے ہی شہریوں کو ڈنڈوں اور ہتھیاروں سے مار رہی ہے۔ واضح نظر آ رہا ہے کہ مودی گورنمنٹ کا ایجنڈا کیا ہے۔اس ایجنڈے کو دو الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ”ہندوستان ہندوؤں کا”۔جب ہندو شہری مسلمانوں کے ساتھ ہیں تو گورنمنٹ کیوں تنازع  کھڑا کر رہی ہے۔میں نے اپنی کم علمی کے باوجود مہاتما گاندھی کو پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ان کے بارے پڑھنے سے پہلے میری رائے مختلف تھی جو انکے متعلق مطالعہ کے بعد یکسر بدل گئی۔ مہاتما گاندھی عدم تشدد کے حامی تھے۔وہ گائے کے ذبح پر ہندوؤں کو خاموشی اور مسلمانوں کو ان سے حسن سلوک کی اپیل کرتے تھے،ہندوؤں کو مسلم اقلیتی علاقے میں تشدد سے منع کرتے تھے تاکہ مسلمان ہندوؤں کے اقلیتی علاقوں میں خون خرابہ نہ کریں۔گاندھی نے قرآن کریم کو ترجمہ سے پڑھا اور سمجھا،دونوں قوموں کے درمیان امن قائم کرنے کیلئے انکی خدمات لازوال ہیں اور انہیں اسی کوشش کے جرم میں قتل کر دیا گیا تھا اور قتل کرنے والا نریندر مودی جیسی بونی سوچ کا مالک تھا،کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے حق کیلئے جان دی تھی۔مورخ لکھتا ہے کہ2جنوری 1948 کو حکومت ہند نے پاکستان کو اس کے حصے کے 55 کروڑ روپے اور فوجی سامان دینے سے انکار کر دیا۔اس پر گاندھی جی نے پاکستان کے حق میں برت رکھ لیا (بھوک ہڑتال کردی)جس پر بھارتی حکومت 16 جنوری کو پاکستان کو 55 کروڑ روپے دینے کا اعلان کرنے پر مجبور ہوگئی۔گاندھی کے اس ”جرم“ کی وجہ سے ایک انتہا پسند ہندو گوڈسے نے 30 جنوری کو انہیں قتل کر دیا۔گاندھی جی کے قتل کے اگلے دن پاکستان میں سوگ کا دن منایا گیا، تمام دفاتر بند رہے اور قومی پرچم سرنگوں رہا۔قائد اعظم نے کہا ”گاندھی ان عظیم ترین افراد میں سے ایک تھے جو ہندو قوم نے پیدا کیے“۔اسی کے ساتھ جڑا ہوا ایک اور واقعہ بھی گاندھی جی کے قتل کا باعث بنا۔ سہروردی گاندھی جی کو تقسیم برصغیر کے وقت بنگال لے گئے تھے تا کہ بنگالی مسلمانوں کو ہندو کی نفرت سے بچایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگال قتل و غارت سے محفوظ رہا۔ جب گاندھی جی واپس دلی آئے تو دلی مسلمانوں کے لہو میں ڈوبا ہوا تھا۔ گاندھی جی نے دلی میں خون خرابہ بھی بند کروایا۔ مہاتما گاندھی منصوبہ بنا رہے تھے کہ بھارت سے ہندوؤں کا ایک جتھا لا کر واپس ماڈل ٹاؤن لاہور میں آباد کریں اور یہاں سے مسلمانوں کا ایک لشکر لے جا کر ان کو اپنے آبائی گھروں میں پہنچائیں۔ مہاتما گاندھی کے دورے کا انتظام کرنے کے لیے سہروردی جنوری 1948 کے اواخر میں لاہور بھی آئے اور دو دن قیام کیا، اس دوران اربابِ اختیار سے ملاقاتیں بھی کیں اور ایک جلسے سے خطاب بھی کیا۔ ان کے واپس جانے کے دو تین دن بعد ہی گاندھی جی کو قتل کر دیا گیا۔گاندھی عظیم لیڈر تھے اور انکے دیش میں آجکل انکے مقتولوں جیسے بونی سوچ کی قیادت راج کر رہی ہے۔آج اسی لیڈر کی ہندو  قوم سمجھ چکی ہے کہ تیسری قوت جو ہندوستان میں ہمیشہ سے سرگرم عمل رہی ہے اور فسادات کروا کر اپنا کام مکمل کرتی رہی ہے یہ وہ آر ایس ایس ہے جو ہر دور میں نام،مقام و حلیہ بدل کر آتی ہے۔آجکل BJP کا روپ دھار رکھا  ہے۔ بھارت کا موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی اسی آر ایس ایس کا ممبر ہے اور اپنی خونخوار تنظیم کے ایجنڈے پر من و عن عمل کر رہا ہے مگر بھارت کی عوام سمجھ چکی ہے کہ انہیں ہمیشہ بھڑکایا جاتا ہے اور اب جب مسلم مخالف بل کے خلاف ہندوؤں نے بھی احتجاجی مظاہرے کرنے شروع کیے ہیں تو پالیسی بازوں نے فسادات کیلئے نیا ڈرامہ شروع کر دیا ہے جو پہلے متعدد دفعہ کامیاب ہو چکا۔
فسادات کا آسان طریقہ ہے کہ کچھ ہندو لڑکوں کی ذہن سازی کر کے چند مساجد کی بے حرمتی کروائی جائے،درگاہوں پر حملے کروائے جائیں اور مسلم مقدس مقامات کا تقدس پامال کیا جائے تو بھائی چارے کا غبارہ پھٹ جائے گا، مسلمان بدلہ لینے کیلئے ہندوؤں کے مقدس مقامات کو جلائیں گے ،انکے سامنے گائے ذبح کریں گے اور منع کرنے والے ہندوؤں پر تشدد کریں گے تو دوبارہ فسادات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ایک ہندوستانی قوم بن کر اکھٹے احتجاج کیلئے نکلنے والے نوجوان طالب علم جلد ہی مسلم و ہندو دو قومیں بن جائیں گے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں گے اور قتل و غارت شروع ہو گی جب فسادات شروع ہوں گے تو پالیسی سازوں نے خاموشی سے اپنا کام مکمل کرنا ہے۔مسلم شہریت مخالف بل اور کشمیر میں آئین کی تبدیلی سب کو بھول جائے گی۔فسادت تھمنے تک بہت وقت گزر چکا ہو گا۔چونکہ ہندوستان اکثریتی ہندو برادری کا ملک ہے تو مذہب کے نام پر نریندر مودی کی واضح پالیسی کی بنا پر BJP کاپلڑا بھاری رہے گا اور کشمیر کی خصوصی حیثیت سمیت شہریت کا متنازعہ بل فسادات کے شور میں چھپ جائیں گے۔آئندہ الیکشن میں مودی کو دوبارہ سرکار بنانے کیلئے مذہبی کارڈ استعمال کرنے کا ایک اور سنہری موقع مل جائے گا۔

Facebook Comments

وقار احمد
صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply