انجان شہر میں اکیلی لڑکی کا ایڈونچر۔۔حِرا ایمن

ناساز طبیعت کی وجہ سے آج چھٹی کی، خوب سوئی حتیٰ کہ تنگ آ کر شام کو فیصلہ کیا کہ انرجی بحال کرنے کیلئے کوئی ایڈونچر کیا جائے۔ کوئی ایسا ایڈونچر جو مجھے ہلا کر رکھ دے۔ فیصلہ ہوا نقاہت کو شکست دینے کیلئے لمبی واک پر جایا جائے، سو نہا دھو، فریش ہو کر جوگرز پہنے، گوگل میپ پر بوٹ بیسن کی لوکیشن سیٹ کی اور سات بجے اندھیرے میں چل پڑی۔

بیگ بھی ساتھ تھا، نقدی بھی اور مہنگے والا فون بھی، سوچا ہی نہیں کہ کُچھ بھی ہو سکتا ہے ہاں یہ ذہن میں ہر وقت رہتا ہے کہ کُچھ بھی ہو جائے مجھے ہر حال میں لڑ کر سرخرو ہونا ہے۔

جو لوگ اس راستے کے خطروں سے واقف نہیں ان کوبتا دوں،راستے میں امریکی ایمبیسی خاصی خطرناک جگہ ہے، آوارہ کتوں کی بہتات، ٹرک ڈرائیور ، بس ڈرائیور، تیز ٹریفک، عورت کا نام  و نشان نہیں، فٹ پاتھ پر جابجا کھڈے، گپ اندھیرا ، اسی سڑک پر اغواء اور قتل کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔

میں یہ سب جانتی تھی مگر مجھے اس خوف، اس ڈر کا فرسٹ ہینڈ ایکسپیرینس کرنا مقصود تھا۔

نہ تو میں برقع میں تھی، جینز کے ساتھ شرٹ اور ایک دوپٹہ لیئے ، بیگ لہراتے چلی جا رہی ہوں، بحریہ کالج تک تو سڑک ٹھیک تھی اندھیرا بھی خاص نہیں تھا،

مائی کولاچی فلائی اوور کے پاس پہنچ کر، تاریک راستہ شروع ہوا جہاں جا بجا آوارہ کتے اور انسان نما کُتے تھے۔

وہ میرا اعتماد ہی تھا کہ میں گھبرائی نہیں اور اپنی دھن میں چلتی گئی۔

ایک جگہ ٹرک روکے کُچھ لوگ کھڑے تھے جو مجھے دیکھ کر ماشاللہ بولے تو میرا کلیجہ منہ کو آ گیا،

رفتار اور بڑھا دی اور پلٹ کر نہ دیکھا،

اس خوف نے مُجھے دگنی رفتار سے چلنے پر مجبور کیا۔ آس پاس سے گزرتی ٹریفک جیسے آری کی طرح ہوا کو چیرتی جا رہی تھی ، ہر گھاؤ پر میرے اعتماد کی عمارت لرز اُٹھتی مگر ارادے مصمم تھے۔

فلائی اوور کے بعد ایک طویل سڑک تقریباً تیس منٹ کی مسافت کی تھی،

مجھے فٹ پاتھ نظر آیا میں اس پر چڑھ گئی،

نجانے کون سی نیکی کام آگئی کہ سامنے ایک قدم دور گڑھا نظر آ گیا، کُچھ دور آگے جا کر پھر گڑھا،

یعنی ایک قطار تھی گڑھوں کی۔

اب کتوں، مردوں ، اندھیرے کے علاوہ گڑھوں کا خوف بھی انگڑائی لے رہا تھا مگر میں تمام کشتیاں جلا کر چلی تھی، واپسی ممکن نہ تھی، نہ فون کی لائیٹ آن کر کے لوگوں کو متوجہ کر سکتی تھی،

ٹریفک کی لائٹ کی بدولت وہ کٹھن راستہ پار کیا تو منزل مقصود سے کُچھ منٹ پہلے، گھپ اندھیرے میں ایک آدمی دیوار کے ساتھ پیشاب کر کے اٹھ رہ تھا، مجھے دیکھ کر اس نے  فوراً میرا پیچھا شروع کر دیا،

نہ  میں نے مڑ کر دیکھا، نہ اچانک رفتار بڑھائی نہ فون آن کیا۔

رفتار گاہے گاہے بڑھائی اور اسکو کئی فرلانگ دور چھوڑ دیا،

تب فون کا فرنٹ کیمرہ آن کر کے پیچھے دیکھا تو مدھم بتیوں میں ایک ہیولا سا نظر آیا،

فوڈ سٹریٹ روڈ آ چکی تھی، اور اگلے لمحے میں سجی تناول کر رہی تھی۔

وہاں بھی نہ عورت نہ عورت کی پرچھائی

بلوچی ہوٹل کی چارپائی پر بیٹھی میں واحد عورت تھی،

اس تجربے کو تمام تر گہرائی سے سوچ رہی تھی یہ اسلامی ملک عورت کیلئے کتنا غیر محفوظ ہے،

میری قسمت اچھی کہہ لیں کہ کُچھ بُرا نہ  ہوا مگر کیا ریپ، مرڈر، چوری کے خطرات درپیش نہ تھے؟

آج میں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا اور پھر سے جی اٹھی،

ہارنا نہیں ہے، ڈرنا نہیں ہے، رکنا نہیں ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

میں بس یہ جانتی ہوں۔

Facebook Comments

Hira Ayman
بینک کار، نو آموز لکھاری اور شاعرہ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply