• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جانسن باد جہازی اور آکھم کا استرا – Occum’s Razor & Johnson’s KISS/احمر نعمان

جانسن باد جہازی اور آکھم کا استرا – Occum’s Razor & Johnson’s KISS/احمر نعمان

جہازوں کے معروف انجینئر کیلی جانسن جہازی نے نہ صرف پہلا امریکی جیٹ بمبار طیارہ ڈیزائن کیا تھا بلکہ لاکیڈ سکنک، افغان ج ہاد والا معروف U-2 المعروف لیڈی ڈریگن اور ایس آر ۲۱ المعروف بلیک برڈ کی تمام سیریز سمیت ان گنت جہاز ڈیزائن کیے اور شہرت پائی۔

جنگ کے دنوں میں ایسا جیٹ بھی ڈیزائن کیا جس کا مقصد تھآ کہ کسی خرابی کی صورت میں ایک اوسط سطح کا یا گھٹیا ترین مکینک بھی درست کر سکے۔ اس کے لیے انہوں نے اصول پیش کیا [Keep It Simple Stupid] ۔ KISS

ان کا ماننا تھا کہ ڈیزائن جس قدر سادہ اور عام فہم ہو، اتنا ہی عملی ہو گا۔ غور کیجیے تو یہ ایک طاقتور تصور ہے اور نیا بھی نہیں، البتہ جدید سائنس اور اس سے زیادہ اطلاقی انجینئرنگ کی مثال ضرور کہہ سکتے ہیں۔

ارسطو نے شاید سب سے پہلے یہ بات کہی کہ اگر تمام چیزیں مساوی ہوں تو برتری اسی کی ہو گی جو کم مفروضوں سے حاصل ہو گی۔ انہی پر مزید بات ہوئی اور ارسطو،ایکویناس اور ڈنس سکاٹس کے افکار کی روشنی میں law of parsimony بھی نکلا، قانون میں جاتے اب اس کی شکل کچھ یوں ہے کہ سزا ایسی ہو جو جرم کی سنگینی سے بڑھ کر نہ ہویا سماجی علوم میں دستیاب وسائل سمجھداری(کنجوسی) سے استعمال کرنا۔ اسی سے متعلق ایک بات سکاٹس کے ہی ایک پیش رو، اور انہی کی طرح آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والے ایک معروف متکلم ولیم آکھم نے ایک اور انداز میں بیان کی بلکہ اتنازور دیا کہ اس کا نام ہی Occum’s razor ہو گیا یعنی آکم کا استرا۔

اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی تصور، کوئی بھی ڈیزائن، کوئی بھی ماڈل جب بنانے جائیں تو فالتو اور خواہ مخواہ کی پیچیدگیاں استرے سے کاٹ کرپھینک دیں۔ جو بات سمجھانی پڑے گی اور مشکل ہو گی، اسے نکال کر پھینکتے جائیں، بالکل minimalist ہو کر ڈیزائن کریں۔ جتنا سادہ اور عام فہم ہو گا اتنا ہی بہتر رہے گا اور عمل میں آسانی ہو گی۔ تکینیکی طور پر اس کی وضاحت وہی ارسطو والی بات ہی رہے گی کہ اگر دو مساوی باتیں ہیں، ایک کو براہ راست اور سیدھے طریقے سے بیان کیا جا سکتا ہے اور دوسری میں مشکل تاویلات اور مفروضے ہیں، تو آسان والی ہی بہتر ہے، مفروضے کم ہوں گے تو قرین قیاس ہے وہی قابل عمل زیادہ ہو گی۔

برصغیر میں چونکہ ہم ہمیشہ ہر اچھی بات کے الٹ چلنا پسند کرتے ہیں، پیچیدہ اور ناقابل فہم بات کرنے والے کو عالم سمجھا جاتا ہے، علمیت کا معیار وہ پروفیسر ہوتا ہے جس کی بات اس کو خود بھی سمجھ نہ آئے، چار چمچے سر ہلا ہلا کر ہر الٹی سیدھی بات کی تائید کرتے واہ واہ کر رہے ہوں گے۔ ژولیدہ بیانی، خواہ مخواہ کی پیچیدگیاں، یہ ہمارے نزدیک علم کی معراج ہے۔ ہمارے ہاں شاعر بھی وہ سب سے بڑے ہیں، جن کے پرستار چار قسم کی شرحیں پکڑ کر پہلے شعر سمجھتے ہیں پھر سر دھنتے ہیں۔ یہی عالم مذہب کا ہے۔

موضوع پر لوٹیں تو ڈیزائن اور ماڈلنگ میں آکم کا استرا کامیاب ہے (خیال رہے یہ حسیناؤں والی ماڈلنگ نہیں)۔
آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت ہو، یا کنٹرول اور میکینکل سسٹمز کا principle of least action ، کوانٹم میکینکس میں path integral formulation ، اسی کو مدنظررکھتے ہیں، یعنی سادگی میں ہی پرکاری و ہوشیاری ہے۔ ابھی statistics اور پراببلٹی probability theory میں آکم کے استرے کو باقاعدہ علمیاتی موضوع بنایا گیا ہے، اسی وجہ سے مصنوعی ذہانت Artificial Intelligence ہو یا ڈیٹا سائنس میں مشین لرننگ کی ماڈلنگ آکم ریزر استعمال کرتی ہے۔

آکم کی شخصیت اور فلسفہ، دونوں دلچسپ ہے، کبھی وقت ہوا تو اس پر بات کریں گے۔ موضوع کے حساب سے یہ بھی کہتا چلوں کہ آکھم نے اپنا استرا ارسطو کی کیٹیگریز پر بھی چلایا، اس کی دس میں سے آٹھ کی شیو کر دی اور پیچھے دو ہی چھوڑیں، مادہsubstance اور اس کا معیار qualities۔ مقدار quantity تک کو الگ کیٹیگری ماننے سے انکارکر دیا۔

یہی استرا آکھم نے مذہب پر بھی چلایا جس وجہ سے پوپ نے اسے بیدخل ex communicate کر دیا، آکسفورڈ سے ڈاکٹریٹ بھی نہیں مل سکی؛ آکم ان ابتدائی متکلمین میں سے تھا جنہوں نے تشکیک کا دروازہ کھولا جب کہا کہ سائنس جہاں دریافت کا معاملہ ہے، مذہب استدلال سے زیادہ ایمان کا معاملہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آسانی کے حوالہ سے اپنے ہاں کے معروف علما کو دیکھ /پڑھ اور سن کر دل کرتا ہے کہ جانسن کے KISS میں ایک کومے کا استعمال کر لوں۔ Keep it simple, stupid!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply