تبدیلی کا فن (26)۔۔وہاراامباکر

دماغ میں بڑی تبدیلیاں بہت جلد آ سکتی ہیں۔ اگر کسی کی آنکھ پر پٹی باندھ دی جائے تو ایک گھنٹے میں ویژویل کارٹیکس چھونے پر ریسپانس دینے لگتا ہے۔ اتنی بڑی تبدیلیاں اس قدر جلد کیسے؟ یہ اتنا وقت ہی نہیں کہ اس میں نئے کنکشن بن سکیں اور چھونے یا سننے کے علاقے ویژویل کورٹیکس تک پھیل سکیں۔ یہ مشاہدہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ کنکشن پہلے سے تھے لیکن ان کو روکا ہوا تھا تا کہ فنکشن نہ کریں۔ یہ کام inhibitors کا ہے اور ان کی وجہ سے یہ فنکشن نہیں کر رہے تھے۔ روکے جانے کو روک دینا وہ قدم ہے جس سے یہ فعال ہو گئے۔
اس کی مثال: فرض کیجئے کہ آپ کے قریبی حلقہ احباب میں کچھ بڑا واقعہ ہو گیا۔ ایک محفل میں ایک بڑی غلط فہمی کی وجہ سے یہ حلقہ ٹوٹ گیا۔ آپ کے قریبی دوست جدا ہو گئے۔ اچانک ہی آپ کی سوشل ان پٹ کم ہو گئی۔ اور اب آپ دور کے واقف کاروں سے آنے والا سگنل سننے لگے۔ ایسے لوگوں سے، جن کی طرف آپ کی توجہ پہلے زیادہ نہیں رہی تھی۔ ان کے آوازیں پہلے دب گئی تھیں اور اس کی وجہ قریبی حلقہ احباب تھا۔ اب یہ دور کے دوست محسوس ہونے لگے۔ ان کی آوازیں اہم ہو گئیں۔ سوشل لائف میں یہ کمزور کنکشن مضبوط ہونے لگے۔
دماغ کے نیورل نیٹورک میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ مختصر مدت کی تبدیلی ہو (جیسا کہ آنکھ پر پٹی باندھنا یا بازو کا سُن کر دئے جانا) تو تیزرفتار تبدیلی کی یہ وجہ ہے۔ تھیلیمس سے کورٹیکس تک کنکشن تو پہلے بھی تھا لیکن اب یہ فنکشنل ہو گیا۔ اور یہ کم عمری میں زیادہ تیزی سے ہوتا ہے۔ دماغ ابتدا میں بہت زیادہ کنکشن رکھتا ہے جو وقت کے ساتھ کٹتے جاتے ہیں۔ یہ لچک کم تو ہوتی ہے لیکن ختم نہیں ہوتی۔ اور یہ وجہ ہے کہ اتنی جلد تبدیلی آنے لگتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبدیلی کا دوسرا طریقہ اس سے سست رفتار ہے۔ یہ نئے علاقے میں نئے ایگزون اگنے کا ہے۔ حلقہ احباب کی مثال کو جاری رکھتے ہوئے: فرض کیجئے کہ آپ دور دراز کے واقف کاروں کو سننے لگے ہیں۔ آپ کو فارغ وقت مل گیا ہے۔ ان کے ساتھ اب اٹھنے بیٹھنے لگے ہیں اور اب نئی دوستیاں بھی کر سکتے ہیں۔ نئے کنکشن بن سکتے ہیں۔ دماغ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ وقت کے ساتھ، اسی طرح نئے کنکشن بنتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روکنا اور ایکسائیٹ کرنا، سائنیپس کی کتربرید، نئے سائنیپس بننا اور نئے ایگزونز کا اگنا ۔۔ یہ دماغ کی فزیکل تبدیلیوں کے طریقے ہیں لیکن ان کے علاوہ بھی ایک اہم گُر ہے جو سسٹم کو تراشتا ہے۔ یہ “موت” کا گر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مائیکل انجیلو ماہر مجسمہ ساز تھے۔ انہوں نے اپنا کوئی شاہکار کیسے بنایا؟ سنگِ مرمر سے بنائے جانے والے ماسٹرپیس میں ایک ایک انگلی، ناک اور ماتھا، پہنا ہوا لبادہ ۔۔۔ اس سب کو ایک ایک کر کے شکل دی۔ لیکن یاد رکھئے کہ انہوں نے آغاز سنگِ مرمر کے ایک بڑے بلاک سے کیا تھا۔ تخلیق کاری میں اس بلاک سے پتھر نکالا گیا تھا۔ اس میں کچھ اضافہ نہیں ہوا تھا۔ ان کے ماسٹرپیس اس پتھر کے اندر سے دریافت شدہ ہیں۔
طویل ٹائم سکیل پر دماغ میں یہی اصول استعمال ہوتا ہے۔ نیورون ایسے ہی کام کرتے ہیں۔ یہ ہر وقت کچھ feeler چھوڑتے ہیں۔ اگر مفید جواب ہو تو یہی کرتے رہتے ہیں۔ اگر نہ ملے تو پھر دوسرے نیورونز کی طرف رخ کرتے ہیں۔ اور اگر کہیں سے بھی مثبت جواب نہ ملے تو انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کی اب جگہ نہیں۔ ان کے جانے کا وقت آن پہنچا۔
خلیے دو طریقے سے مرتے ہیں۔ اول تو یہ کہ انہیں غذائیت نہ ملے (مثال کے طور پر خون کی شریان بند ہو جانے سے ٹشو مردہ ہو جائے)۔ اس صورت میں خلیے ایک بے ہنگم موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیمیکل لیک کر جاتے ہیں اور اپنے پڑوس میں نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کو نیکروسس کہا جاتا ہے۔ لیکن ان کی موت کا ایک اور طریقہ بھی ہے جو اپوپٹوسس ہے۔ اس میں خلیے طریقے سے خود کشی کرتے ہیں۔ باقاعدہ طور پر فیصلہ کر کے اپنی دکان بند کرتے ہیں، اپنے معاملات طے کرتے ہیں اور اجزاء کو ٹھکانے لگا کر انتقال فرما جاتے ہیں۔ یہ بری چیز نہیں اور اعصابی سسٹم کی تراش خراش ایسے ہی ہوتی ہے۔ بچے کی ڈویلپمنٹ میں پیدا ہونے والے نیورن اس کی ضرورت سے پچاس فیصد زائد ہیں۔ بڑے پیمانے پر خود کشی اس میں سٹینڈرڈ طریقہ ہے۔
تبدیلی کے الگ طریقے الگ ٹائم سکیل پر کام کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو پیچیدگیاں گھنے جنگل میں پائی جاتی ہیں، وہ دماغ کے جنگل میں بھی ہیں۔ عام تصور ہے کہ چھیاسی ارب نیورون آپس میں مل جل کر ہنسی خوشی رہ رہے ہیں لیکن جنگل کے درختوں اور جھاڑیوں کی طرح اس میں بھی مقابلہ جاری ہے۔ جھاڑیاں اور درخت زیادہ بڑا ہونے کی تلاش میں ہیں، روشنی تک پہنچنے کے لئے قد بڑھا رہے ہیں۔ نئے حربے استعمال کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ ہمیں مصنوعی ٹیکنالوجی کے ایک بنیادی اصول کے بارے میں بتاتا ہے۔ انجینر فخریہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کی تخلیق کتنی چابکدستی سے بنی ہے، کس قدر نفیس ترتیب میں ہے، کتنی ایفی شنٹ ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ مصنوعی مشینوں کو گڑبڑ کے کنارے پر رہنا نہیں آتا۔ غیرمتوقع سے مقابلہ کرنا نہیں آتا۔ خود کو ہی تبدیل کر لینا نہیں آتا۔
دیرپا وہ نہیں جو مضبوط ہے، جو ہر حال میں خود کو برقرار رکھنے کا ماہر ہے۔ دیرپا وہ ہے جو تبدیلی کا فن جانتا ہے۔ اپنے اضافی سامان کو اتار کر ڈھل جانے کے فن کی مہارت دماغ کا طرہ امتیاز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ ایک اور بڑے سوال کو جنم دیتا ہے۔ اگر لچک اتنی اہم ہے تو آخر یہ صلاحیت بچوں میں کیوں زیادہ ہوتی ہے؟ عمر کے ساتھ اس میں کمی کیوں؟ اس کے پیچھے کیا ہے؟ اور اس سوال کا جواب سمجھنے کیلئے ہم ترتیب کے اگلے اصول کی طرف چلتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply